بے گناہی اور رہائی ذمہ دار کون؟
(Falah Uddin Falahi, India)
مولانا محمد اقبال کی دہشت گردی کے الزام
میں گرفتاری اور 8 سال بعد رہائی اس کا ثبوت ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف
منظم سازش کا حصہ ہے۔اگر جمعیۃ العلماء جیسی جماعت ان کی پیروی نہیں کرتی
تو وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی رہتے یہاں تک کہ ان کے
قریبی رشتہ دار بھی ان سے ملاقات کرنے میں خوف محسوس کرتے اور ماضی میں یہی
ہوتا رہا ہے لیکن جمعیت کے اقدام نے وہ قابل فخر کارنامہ انجام دیا ہے جس
سے آج ہر مسلمان اپنے کو محفوظ تصور کر رہا ہے بلکہ اسے اب حقیقی رہنما کے
طور پر دیکھ رہے ہیں۔اب وہ بالکل بے گناہ ثابت ہو گئے ہیں لیکن اس کے وہ دن
کون لٹائے گا جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے انہوں نے کربناک زندگی گزاری اور
انہیں جو اذیت ملی اس کی تلافی کیسے ممکن ہو اور ان کی زندگی برباد کرنے
والے مجرم کون ہیں ؟یہ اور اس طرح کے کئی سوالات مسلمانوں کے ذہنوں میں ان
دنوں گردش کر رہے ہیں ۔حکومت وقت کو چاہئے کے ایسے افسران کے خلاف سخت سے
سخت کارروائی کی جائے جن کی وجہ سے کوئی بے گناہ سالوں جیل کی سلاخوں کے
پیچھے رہا ،اس دوران ان کے اہل خانہ اور ان کے ساتھ کیا کیا قیامت نہیں
ٹوٹے ہونگے اس کا مداوا کون کرے گا ۔سماجی تنظیموں کو اس طور سے سے بھی سخت
قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ بے گناہ ثابت ہو ئے ہیں ان کی تلافی کے
لئے موثر اقدامات کریں اور ان کی زندگی کو پٹری پر لانے کیلئے از سر نو
کوشش کی جائے تاکہ پھر کوئی افسر ایسی غلطی نہ کرے جس سے کسی بے گناہ کی
زندگی تباہ ہو جائے۔کسی مشتبہ شخص کی جب گرفتاری ہوتی ہے تو ہمارے ملک کی
میڈیا اسے ملزم نہیں بلکہ مجرم ثابت کرنے کی اسی وقت سے پوری کوشش کرتی ہے
لیکن جب وہی شخص بے گناہ ثابت ہو جاتا ہے تو یہی میڈیا جس کے پروپگنڈا سے
سماج میں نفرت کا ماحول پیدا ہوا وہ خاموش ہو جاتا ہے یہاں تک کہ یہ بھی
گوارہ نہیں کرتا کہ ایک لائن کی پٹی ہی چلا دیں کہ جس کو کبھی ہم نے آناً
فاناً میں مجرم بنا دیا تھا وہ آٹھ دس بعد بے گناہ ثابت ہو کر رہا کر دیا
گیاہے۔ہماری خبر کا اثر انہیں کیوں نہیں دیکھا دیتا ہے۔ملک میں اجتماعی
سماج میں نفرت پھیلانے کا کام میڈیا بھی کر رہا ہے وہ تو آگ میں گھی ڈالنے
کا کام کررہا ہے بطور خاص جب مسلمانوں کی گرفتاری عمل میں آتی ہے نا جانے
کہاں کہاں سے اس کے بارے میں من گھڑت کہانی چوبیس گھنٹے پیش کئے جاتے ہیں
جو قابل گرفت اور شرم بھی بھی ہے۔ ایسے بہت سارے واقعات ہمیں دیکھنے کو ملے
ہیں کہ پولیس بے قصور مسلمانوں کوگرفتار کر لیتی ہے اور جب یہ معاملہ عدالت
میں جاتا ہے تو پولیس کوئی پختہ ثبوت بھی پیش نہیں کر پاتی اور انہیں باعزت
بری کردیا جاتاہے۔آخر ایسا مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ۔یہ ایک ایسا
سوال ہے جس کا جواب حکومت وقت دینا ہی ہوگا ۔کیونکہ اس طرح کی مشکوک
گرفتاری سے جہاں ایک شخص کی زندگی برباد ہوتی ہے وہیں ملک کی سالمیت خطرے
میں پڑ رہی ہے۔آئے دن حقیقی دہشت گرد ہماری سرحدوں میں سیندھ لگانے میں
کامیاب ہو جاتے ہیں ۔آخر ایسا کیوں ہوتا ہے جب کہ ہماری حکومت نے حفاظت کے
پختہ انتظامات کر رکھے ہیں۔حالیہ پٹھان کوٹ واقعہ میں جس طرح ایس پی کا نام
آیا اور انہوں نے جس طرح کہانیاں بدل بدل کر گمراہ کرنے کی کوشش کی اس سے
صاف ظاہر ہے کہ ہماری تربیت میں کچھ کمی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں
مختلف طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔اور آخر کار جانچ ایجنسیوں نے اپنا
کام بھی کرنا شروع کر دیا اور ایس پی کے ساتھ تمام طرح کی جانچ ہونے لگی ۔اگر
یہی جانچ کا پیمانہ اپنایا گیا تو دعوی کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک
میں کبھی کوئی دہشت گردانہ واقعہ رونما نہیں ہوگا ۔اگر ہمارے اندر انصاف کا
مادہ موجود ہوگا تو ملک میں کہیں بھی کسی بے گناہ افراد کی گرفتاری محض شک
کی بنیاد پر نہیں ہوگی اور نہ کسی بے گناہ کی زندگی برباد ہوگی۔ملک کے یہ
بہت خوش آئند بات ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے ہمارے نوجوان تعلیم کی طرف راغب
ہو رہے ہیں اورانہیں ملک اور بیرون ملک کی کمپنیاں ملازمت کے مواقع فراہم
کر رہی ہیں۔جس سے اقلیت کے مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ ملک بھی مضبوط ہو رہا
ہے اور ہزارو لاکھوں نوجوان بیرون ملک میں ملازمت کر کے ہمارے دیش کو مالا
مال کر رہے ہیں۔لیکن بہت حیرت اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے جب مسلم
مخالف لوگوں نے محسوس کیا کہ مسلمان ترقی کی راہ پر جا رہے ہیں تو ان کو
روکنے کے لئے اس طرح کی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا۔ بے گناہ مسلم نوجوانوں
کی رہائی کے لئے جس طرح سے ہمارے قائدین جد و جہدکر رہے ہیں وہ قابل فخر ہے
،مسلمانوں کے تمام ہی ملی تنظیموں سے گزارش ہے کہ وہ سب مل کر اس معاملے
میں پیش قدمی کریں چونکہ ابھی سب سے زیادہ مسلمانوں کو تحفظ کی ضرورت ہے
انہیں بے گناہ گرفتار کئے جانے کا خوف لاحق ہے اس لئے اس سلسلے میں مزید جد
وجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ |
|