ہماری بد نصیبی ہے کہ پاکستان
ابتدائی دور سے ہی بیرونی مداخلت کا شکار ہوگیا جب اس کے پہلے وزیر اعظم کو
گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ اس کے تانے بانے امریکہ اور برطانیہ جاکر
ملنے کے شکوک ہیں۔ چونکہ لیاقت علی خان نے ایرانی تیل کے جھگڑے میں برطانیہ
کی ایما پر کسی کردار سے انکار کر کے اپنی کسی ملک کےاندرونی مداخلت کی
پالیسی واضح کر دی تھی ۔ وہی انکا جرم تھا۔ اس دور کے تین سرکردہ افراد
امریکی دوستی کی پینگیں بڑھا کر اپنی تابعداری کا یقین دلا رہے تھے۔ ایوب٬
غلام محمد٬ اسکندر مرزا۔
ہماری فوج کے کمانڈر اس وقت امریکی دورے پر یاترا میں مصروف تھے۔ غلام محمد
امریکہ کو تمام مسائل کے حل کرنے کی نوید دے رہے تھے جنہیں لیاقت علی خان
نے پس پشت ڈال رکھا تھا جس میں امریکی فوجی اڈ ے کا مسئلہ تھا جو امریکہ کے
لئےاہمیت کا حامل تھا۔ نتیجہ لیاقت علی خان مقتول اورغلام محمد اقتدار اعلیٰ
پر فائز۔
یہ اس پالیسی کی جھلک ہے جس پر عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔ امریکی اڈہ اور اس
سے جاسوس طیاروں کی روس پر پروازیں۔ جس کے نتیجہ میں جنگ عظم کے متروک
اسلحہ کی ترسیل۔ اب اگر جاسوسی روس کے لئے کرواتے ہیں تو امریکہ ہی سے مدد
مانگنی تھی تو ایسے میں امریکہ پاکستان کے معاملے میں کہیں فوجی معاملات
میں کہیں ایڈمنسٹرشن میں کہیں معاشی معاملات ایک سکریٹری روتھ کے نام سے
غلام محمد کی مدد کے لئے امریکہ سے بھیجی گئی جس کی آشیر باد کے لئے لوگ
کمر بستہ ہو گئے۔
اس طرح ہمارا ملک امریکہ غلامی میں ڈال دیا گیا اس کے مفادات کے لئے ہم نے
کیا کھویا اور کیا پایا یہ سارا پاکستان جانتا ہے۔ لیکن اس طوق اور مداخلت
کو روکنے سے قاصر ہے جس نے بھی رخنہ ڈالنے کی کوشش کی وہ عبرت ناک انجام سے
دوچار ہوا تاریخ کبھی چھپتی نہیں مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
انکوائری نہیں کی جاتی لیاقت علی خان۔ بھٹو۔ضیاء الحق سے بینظیر کے قتل اور
اسکے محرکات کی مکمل چھان بین اور مجرمین اور تانوں بانوں کا سراغ لگا کر
افشاء کیا جائے تو تمام مجرمان اور ملزمان بے نقاب کر دئے جائینگے تو تمام
قسم کی مداخلت کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ ورنہ ہماری بھی داستان پڑھیں گے لوگ
داستانوں میں۔ |