نیا جال لائے پرانے شکاری

متحدہ مجلس عمل پھر میدان میں
یوں تو پاکستان کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ دینی و سیاسی جماعتوں کا جب بھی کوئی اتحاد وجود میں آتا ہے تو اُس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ یا ایجنسیوں کی طاقت کارفرما ہوتی ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح اِن اتحادوں کی صورت میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی جائے، متحدہ مجلس عمل کے بارے میں یہی تاثر عام ہے، یہ بات کتنی صحیح ہے اور کتنی غلط، اِس کا اندازہ آپ کو مضمون کے اگلے حصے میں ہوجائے گا، یہ حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں مختلف ادوار میں ”پاکستان قومی اتحاد، تحریک بحالی جمہوریت، پاکستان عوامی اتحاد، اسلامی جمہوری محاذ اور اسلامک فرنٹ وغیرہ کے نام سے دینی و سیاسی جماعتوں کے کئی اتحاد قائم ہوئے، لیکن اِن سب میں متحدہ مجلس عمل کو علامہ شاہ احمد نورانی کی دوراندیش اور صاحب کردار کی قیادت کے سبب سب سے زیادہ کامیاب اتحاد سمجھا جاتا ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ علامہ شاہ احمد نورانی جولائی 2000ء میں اِس قسم کے اتحاد کی جانب توجہ دلاچکے تھے، آپ ہی کے تحرک پر جولائی 2001ءمیں ملک کی چھ بڑی جماعتوں جس میں علامہ شاہ احمد نورانی کی جمعیت علماء پاکستان، قاضی حسین احمد کی جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام(ف)،ساجد نقوی کی تحریک جعفریہ، پروفیسر ساجد میر کی جمعیت اہلحدیث اور مولانا سمیع الحق کی جمیعت علماء اسلام نے ایک نئے سیاسی و مذہبی اتحاد ”متحدہ مجلس عمل“ کے قیام کی منظوری دی، جسے 19مارچ 2002ء کو باقاعدہ انتخابی فرنٹ میں تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا گیا،دینی جماعتوں کے اِس اتحاد نے علامہ شاہ احمد نورانی کی قیادت میں صدارتی ریفرنڈم کو مسترد کرتے ہوئے عام انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے تحریک کا آغاز کر دیا،ابتداء میں اِس سیاسی و مذہبی اتحاد کے قیام کا مقصد ملک میں فرقہ وارنہ ہم آہنگی کیلئے اسلامی نظام کے قیام اور لادینی عناصر کی یلغار کا مقابلہ کرنا تھا۔

لیکن ملک میں عام انتخابات کے پیش نظر اتحاد میں شامل تمام جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ انتخابات کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جائے گی،متحدہ مجلس عمل کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی کا خیال تھا کہ نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملے کے بعد امریکہ نے وہاں جو تباہی مچائی تھی اُس نے پاکستانی عوام کی سوچ کو دینی جماعتوں کے قریب کردیا تھا،جس کی وجہ سے آئندہ انتخابات میں عوام کسی ایسی جماعت کو ووٹ نہیں دیں گے جس نے اِس مسئلہ پر حکومت کی تائید کی ہوگی،لہٰذا مجلس عمل کی ملک گیر کامیابی یقینی ہے،چنانچہ علامہ شاہ احمد نورانی کی حکمت عملی کے سبب 10 اکتوبر 2002ءکو ملکی تاریخ میں پہلی بار دینی جماعتوں کے اِس اتحاد متحدہ مجلس عمل کو عوام الناس نے پزیرائی بخشی، انتخابات میں غیر معمولی کامیابی کی وجہ سے وہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری،جس نے بہت سے سیاسی پنڈتوں کو حیران و پریشان کردیا،یہ 2002ءکے الیکشن میں کامیابی کا ہی نتیجہ تھا کہ متحدہ مجلس عمل نے صوبہ سرحد موجودہ خیبرپختونخواہ میں حکومت قائم کی،بلوچستان میں ق لیگ کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی اور قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمن کو قائد حزب اختلاف کا کردار و مقام ملا۔

ابتداء میں متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں نے بڑی سرگرمی کا ثبوت دیا اور ایسے تمام خدشات کو دور کردیا کہ یہ اتحاد بیرونی طاقتوں یا ملکی اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کی سرپرستی میں بنایا گیا ہے،اِس کی بنیادی وجہ متحدہ مجلس عمل کے مرکزی قائد علامہ شاہ احمد نورانی کا اصولی اور بے لچک موقف تھا جو علامہ شاہ احمد نورانی کی وفات تک قائم رہا،یہ متحدہ مجلس عمل کے قائد علامہ شاہ احمد نورانی کی سیاسی بلوغت کا ہی نتیجہ تھا کہ متحدہ مجلس عمل نے الیکشن کے بعدپاکستان کی خارجہ پالیسی،ایل ایف او،صدر کی وردی،آئین کے تحفظ،آئین کی غیر متنازعہ شقوں کو برقرار رکھنے اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر اصولی موقف اپنایا،اِس حوالے سے27مئی 2003ءکو ایم ایم اے کی سپریم کونسل کے اجلاس میں صدر کی وردی اتارنے کیلئے دوسال کی چھوٹ دینے پر گرماگرم بحث ہوئی،اجلاس میں متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل مولانا فضل الرحمن نے اپنے ساتھیوں کو اِس اَمر پرقائل کرنے کی کوشش کی کہ صدر کیلئے آرمی چیف کا عہدہ محدود مدت کیلئے رکھنے کی درخواست کو قبول کرلیا جائے۔

دراصل مولانا فضل الرحمن پرویز مشرف کی وردی کے معاملے پر اسلئے غور چاہتے تھے کہ انہیں خدشہ تھا کہ ایل ایف او کے مسئلہ پر محاذ آرائی سے نظام کو لاحق خطرات سرحد اور بلوچستان میں ایم ایم اے کی صوبائی حکومتوں کے خاتمے کا سبب بن سکتے تھے،جبکہ متحدہ مجلس عمل کے قائد علامہ شاہ احمد نورانی پرویز مشرف کو کسی طور بھی وردی میں صدر دیکھنا نہیں چاہتے تھے،اُن کا اصولی موقف تھا کہ اگر صدر نے وردی نہ اتاری تو مشرقی پاکستان جیسا سانحہ رونماءہوسکتا ہے،متحدہ مجلس عمل کے قائد علامہ شاہ احمد نورانی کے اِس اصولی موقف نے حکومت کی نیندیں حرام کررکھی تھیں،حکومت کی کوشش تھی کہ کسی طرح ایم ایم اے کی قیادت کو قائل کرلیا جائے،لیکن ایم ایم اے کی مرکزی قیادت وردی کے مسئلے پر کوئی کچک دکھانے کو تیار نہ تھی،اِس دوران ایم ایم اے اور حکومت مزاکرات کے دروازے کئی دفعہ کھلے اور بند ہوئے،دراصل حکومت روز اوّل سے ہی ایم ایم اے کے ساتھ ”مزاکرات،مزاکرات“کا چوہئے بلی کا کھیل کھیل رہی تھی،اُدھرمولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کے ڈیڑھ صوبے کی حکومت کے لالچ نے ایم ایم اے کو بری طرح پھنسا دیا تھا،اُس کیلئے یہ حکمرانی نہ تو اگلی جانے والی تھی اور نہ نگلی جانے والی۔

دوسری طرف جنرل پرویز مشرف سے معاہدہ بھی ایم ایم اے کی سیاسی حیثیت کیلئے نقصان دہ تھا،اِس صورت میں نہ تو اُس کی صوبائی حکومتیں بچتیں اور نہ عوامی طاقت اُس کے ساتھ ہوتی،گویا ایم ایم اے کا اصولوں پر سودا اُس کی سیاسی موت کے مترادف تھا،یہی وجہ تھی جو ایم ایم اے کے قائد علامہ شاہ احمد نورانی نے حکومتی پیش کردہ آئینی پیکج کو مسترد کرتے ہوئے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا،انہوں ایم ایم اے کے اصولی مطالبات کی منظوری کیلئے حکومت کو 17دسمبر 2003ءکی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے 18دسمبر سے احتجاجی تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا،لیکن بدقسمتی سے 18دسمبر 2003ءکو احتجاجی تحریک بلکہ اُس کے بعد کسی بھی احتجاجی تحریک کی نوبت نہ آسکی،کیونکہ اِس دوران 11دسمبر 2003ءکو ایم ایم اے کو اپنے قائد علامہ شاہ احمد نورانی کی ناگہانی موت کے عظیم سانحے سے دوچار ہونا پڑا،جس نے ایم ایم اے کی ایسی کمر توڑ کر رکھدی ،جس کے بعد تاریخ پاکستان نے وہ موڑ لیا کہ ایم ایم اے بطور سیاسی جماعت اور تحریک اپنے مقاصد سے دور ہٹتی چلی گئی۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ علامہ شاہ احمد نورانی اُس روز بارہ بجے پارلیمنٹ ہاؤس کی کمیٹی روم میں اہم پریس کانفرنس کرنے والے تھے،جو ہوسکتا تھا کہ متحدہ مجلس عمل کے مستقبل اور کردار پر دور رس اثرات مرتب کرتی،یہ بات بھی درست ہے کہ اُن دنوں علامہ شاہ احمد نورانی سترھویں آئینی ترمیم کی منظوری کے حوالے سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے،مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد اِس ترمیم کی منظوری اور صدر کی وردی کے حق میں تھے،اُن کے اندورن خانہ حکومت سے معاملات بھی طے کرچکے تھے،وہ علامہ شاہ احمد نورانی کو اپنی راہ کی رکاوٹ سمجھتے تھے اورعلامہ شاہ احمد نورانی یہ بات جانتے تھے(تفصیل کیلئے دیکھئے علامہ شاہ احمد نورانی کے پرسنل سیکرٹری حسنات احمد قادری جو کہ آخری وقت میں علامہ کے ساتھ تھے،کا وہ انٹرویو جو ماہنامہ ”افق“ کراچی فروری 2010ءکے شمارے میں شائع ہوچکا ہے ) ساتھیوں کے حکومت سے اندورن خانہ معاملات اور مجلس عمل کے اصولی موقف سے انحراف کا دباؤ علامہ شاہ احمد نورانی جیسے بااصول اور صاحب کردار سیاستدان کیلئے جان لیوا دل کے دورے کا سبب بنا،علامہ شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد ایم ایم اے ایسی گری کہ پھر کبھی سنبھل نہ سکی،کیونکہ علامہ نورانی ایم ایم اے کیلئے نہ صرف اتحاد کی علامت تھے،بلکہ اُن کے نہ جھکنے اور نہ بکنے والے کردار،اصولی موقف اور حق گوئی و بے باکی نے ایم ایم اے کو حکومت کے ساتھ کسی بھی شرمناک معاہدے سے محفوظ رکھا ہوا تھا۔

مولانا کے انتقال کے بعد متحدہ مجلس عمل قاضی حسین احمد کی سربراہی میں اِس دعوے کے ساتھ میدان میں اتری کہ وہ مولانا شاہ احمد نورانی کے مشن کو جاری رکھے گی،مگر افسوس کہ اُن کا یہ مشن اُن کے انتقال کے بعد محض چند دنوں تک ہی جاری رہ سکا،ابھی علامہ شاہ احمد نورانی کا کفن بھی میلا نہیں ہوا کہ متحدہ مجلس عمل نے 19دسمبر 2003ءکو حکومت کے ساتھ اپنے تمام معاملات اِس قدر جلدی میں طے کئے جس سے اِس خیال کو مزید تقویت ملی کہ علامہ شاہ احمد نورانی اِس معاہدے کی راہ کا آخری کانٹا تھے،جس کے نکل جانے سے فریقین کو حد درجہ اطمینان ہوا تھااور28دسمبر 2003ءکو متحدہ مجلس عمل کے تعاون سے آئین میں 17ویں ترمیم کاشرمناک بل منظور ہوگیا،یہ وہی مجلس عمل تھی جو علامہ شاہ احمد نورانی کی زندگی میں ایل ایف او پر کسی سمجھوتے کی روادار نہ تھی لیکن علامہ شاہ احمد نورانی کے بعد شریک جماعتوں کے سیاسی مفادات کی وجہ سے جھاگ کی طرح بیٹھ گئی،مجلس عمل کا یہ یو ٹرن حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے اور 2004ءکے سال کو پرویز مشرف کیلئے کامیابیوں کی نوید بناکر لایا،حقیقت یہ تھی کہ جب تک علامہ نورانی مجلس عمل کے سربراہ رہے،حکومت مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی،کیونکہ وہ حصول اقتدار کے بغیر سیاست کی نئی اور منفرد طرز کے بانی تھے اور اُن کی سیاسی ترجیحات میں حصول اقتدار آخری نمبر پر آتا تھا،علامہ شاہ احمد نورانی کے بعد ایم ایم اے نے اصولوں پر سودے بازی کرکے جمہوریت کو نقصان پہنچانے اور ایم ایم اے کوایک آمر کی زرخرید لونڈی بناکر اپنے سیاسی کردار اور مقام جو نقصان پہنچایا اُس کی تلافی شایداب ممکن نہیں ہے۔

علامہ شاہ احمد نورانی کے انتقال کے بعد مجلس عمل کے قائدین کی طرف سے ہوس اقتدار میں پے درپے سمجھوتوں اور مجلس عمل کی صوبائی حکومت کے دعوﺅں کے باوجود عوامی فلاح کے اسلامی تصور سے کوسوں میل کی دوری نے مجلس عمل کی افادیت کیساتھ اُس کے وجود کوبہت جلد سوالیہ نشان بنا ڈالا،رہی سہی کسر مولانا فضل الرحمن کے دن رات بدلتے طرز عمل نے پوری کردی،جنھوں نے اپنے مفادات کی خاطر جنرل مشرف کے اقتدار کو دوام بخشنے،سترھویں ترمیم کو قوم پر مسلط کرنے،وردی سمیت اُسے دوبارہ اقتدار میں لانے،صوبے میں بلا شرکت غیرے جبکہ وفاق میں حصہ بقدرجُسہ کے اصول کے تحت ابن الوقتی اور کاسہ لیسی کا گھناؤنا کھیل کھیلا ہے،یہ حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے ماضی میں ایم ایم اے کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،ایک کالم نگار کے مطابق متحدہ مجلس عمل جب بنی تھی تو اُس وقت مختلف اہل قلم نے ایم ایم اے کے لئے متنوع نام تجویز کئے تھے۔

تاہم2002ءکے انتخابات اور2003ءمیں مولانا نورانی کی وفات کے بعد ایم ایم اے بالخصوص جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن کا جو کردار رہا ہے اور انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ مل کر جو ایڈونچر کئے،اسکی بنیاد پر ایم ایم اے کو صحافتی حلقوں نے”مک مکاؤ ایجنسی،میل ملاپ ایسوسی ایشن،مرچ مصالحہ ایسوسی ایشن،میاں مٹھو ایسوسی ایشن،مس منیجمنٹ اتھارٹی،مِن مِن ایجنسی اورمکھی مار اتھارٹی وغیرہ جیسے نام دیئے اور آج وہی کالم نگار ایم ایم کو ملا ملڑی ایڈونچر بھی قرار دے رہے ہیں،آج مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر متحدہ مجلس عمل کو فعال کرنے کیلئے سرگرم ہیں،اِس حوالے سے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر دینی وسیاسی جماعتوں کے اتحاد،متحدہ مجلس عمل کی شریک جماعتوں کا غیر رسمی سربراہی اجلاس بھی منعقد ہو چکا ہے،جس میں متحدہ مجلس عمل کے مردہ گھوڑے کو تین سال کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر اتفاق رائے کے ساتھ طے پایا ہے کہ اِس سلسلے میں روابط جاری رکھے جائیں گے،تاکہ امریکی ڈرون حملوں کو بند کرانے کے لئے علمائے دین و مفتیان شرع متین کا مشترکہ پلیٹ فارم موثر کردار ادا کرسکے ۔

قارئن محترم آج ایک بار پھر متحدہ مجلس عمل کو دوبارہ فعال کرنے کے حوالے سے یہ کہا جارہا ہے کہ موجودہ حالات میں اِسے ازسر نو زندہ کرنا اسلئے ضروری ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کی بھرپور مخالفت کی جائے،جبکہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ نائن الیون کے بعد جب اِس اتحاد کو پہلی مرتبہ معرض وجود میں لایا گیا تھا تو اُس وقت بھی بڑے زور وشور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا تھاکہ اتحاد افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی یلغار کے سامنے سیسہ پائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہو گا اور امریکہ کی اتحادی مشرف حکومت کے لئے جینا حرام کر دے گا،مگر تمام تر دعووں کے باوجود یہ اتحاد قبائلی علاقوں اور ملک کے دوسرے حصوں میں امریکی فوج اور سی آئی اے کی کاروائیوں کے آگے بند باندھنے کے بجائے الٹا سترہویں آئینی ترمیم کو منظور کرواکرامریکی جنگ میں ہر اوّل دستے کا کردار اداکرنے والی مشرف آمریت کا دست و بازو ضرور ثابت ہوا،جس کی بعد میں قاضی حسین احمد کو قوم سے معافی مانگنی پڑی،لیکن اِس کے باوجود محترم مولانا فضل الرحمن اپنی کسی حرکت پر ذرا بھی ٹس سے مس نہ ہوئے اور آج ایک بار پھر وہ مجلس عمل کی اجڑی ہوئی مانگ میں نیا سندوربھرنے کے خواہشمند ہیں۔

ہمیں مولانا کی اِس خواہش کا احترام ہے،مگر ذہن میں ابھرتے ہوئے چند سوالات ہنوز جواب طلب ہیں،آخر مولانا کو تین سال کے بعد اب مجلس عمل کے احیاءکی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے؟وہ کیا مقاصد ہیں جنھیں مولانا حکومتی حلیف اور شریک اقتدار ہونے کے باوجود مجلس عمل کو فعال کرکے حاصل کرنا چاہتے؟ اگر کسی طور یہ اتحاد دوبارہ فعال ہو بھی گیا تو کیا علامہ شاہ احمد نورانی جیسی اصولی،قد آور اور متفقہ قیادت کے بغیر کامیاب ہوسکتا ہے؟ اور کیا مجلس عمل کی سابقہ مایوس کن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے عوام ایک بار پھر اسے سند قبولیت عطا کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے؟ ہماری ناقص رائے میں مولانا فضل الرحمن متحدہ مجلس عمل کو متحرک کرکے محض اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں،بعض آگاہ ذرائع یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ اتحاد زرداری حکومت کو دباؤ میں رکھنے کیلئے دوبارہ منظم ہو رہا ہے،کچھ اندرونی حلقوں کا خیال ہے کہ مولانا کے ڈیزل پرمٹ اور ٹھیکے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں،اسلئے مولانا فضل الرحمن زرداری حکومت سے سودے بازی کے لئے ایم ایم اے کو فعال کر رہے ہیں،تاکہ یہ اتحاد وقت ضرورت اُن کے کام آسکے،البتہ ایم ایم اے کے احیاءمیں ڈیرہ اسماعیل خان کی وسیع و عریض زمینوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں،جو مشرف حکومت نے دوبارہ صدارتی انتخاب میں حمایت کرنے پر مولانا فضل الرحمن کو دی تھیں کیونکہ اب وہ قانونی طور پر مولانا فضل الرحمن کے عزیز و اقارب کے نام ہو چکی ہیں۔

خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں دوبارہ حصول اقتدار کا خواب ہو یا مذہبی ووٹ کے ذریعے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کی خواہش،حقیقت بہر حال کچھ بھی ہو مولانا فضل الرحمن مستقبل میں انتخابی کامیابی کیلئے مجلس عمل کی فیوض و برکات سے ایک بار پھر فیضیاب ہونا چاہتے ہیں اور آنے والے سیٹ اپ میں اپنی جگہ پکی کرنا چاہتے ہیں،اُن کا گمان ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ بنک کو ایک جگہ جمع کر کے وہ مجلس عمل کی سابقہ تاریخی کامیابی کو دہرانے میں کامیاب و کامران رہیں گے،یہ درست ہے کہ کاروبار حکومت چلانے کیلئے دین کی رہنمائی ہی اوّل و آخر ہے،مگر ہم جس بنیاد پر اِس اقدام کے خلاف ہیں اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب آپ ماضی میں دین اسلام کی روشنی میں سیاسی،سماجی اور معاشی نظام کا کوئی عملی خاکہ عوام کے سامنے پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں،تو پھر دوبارہ مذہب کے نام پر کی جانے والی اِس مہم جوئی کا مقصد اِس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ آپ ایک بار پھر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کر کے مذہب پسندوں کو بیوقوف بنانا چاہ رہے ہیں۔

چنانچہ سیاسی کامیابیوں کیلئے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی جو منصوبہ بندی مولانا کے زیر غور ہے ہمیں اُس پر شدید اعتراض ہے،ہمارا ماننا ہی نہیں پختہ یقین ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی 2002 ءمیں تاریخی کامیابی کی روشنی نے ابھی تک مولانا کی آنکھیں خیرہ کر رکھی ہیں اور مستقبل میں انتخابی کامیابی کا تصور انہیں ایک بار پھر سہانے خواب دکھا رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے سر میں ایک ہی سودا سمایا ہوا ہے کہ کسی طرح دوبارہ خیبر پختونخواہ کو تسخیر کیا جائے،لیکن کیا اِس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی 2002ءمیں کامیابی اُس وقت کے معروضی حالات کے ساتھ مجلس عمل کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی کی قائدانہ بصیرت اور طے شدہ حکمت عملی کی مرہون منت تھی جو کہ آج مفقود ہے،چنانچہ علامہ شاہ احمد نورانی کے بغیر مجلس عمل کے اجراءاور 2002 ءکی طرح کامیابی کا خواب کس طرح شرمندہ تعبیر ہوسکتا۔

لہٰذامجلس عمل کی سابقہ کارکردگی دیکھتے ہوئے ہمیں یہ کہنے میں کوئی قطعاً کوئی عار نہیں کہ مجلس عمل کا وجود شاید کچھ مذہبی جماعتوں کے مفادات کی تکمیل کیلئے ایک بار پھر وقت کی ضرورت ہو، مگر پاکستانی عوام اور بالخصوص عوام اہلسنّت کا اِس اتحاد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،ویسے بھی جن مذہبی جماعتوں نے ملی یکجہتی کونسل اور بعد ازاں متحدہ مجلس عمل کی تشکیل کی تھی،اُن کے درمیان نفاذ اسلام کے حوالے سے اِس قدر مختلف تصورات پائے جاتے ہیں کہ اُن سب کا سیاسی،سماجی اور معاشی نظام میں تبدیلی کےلئے کسی ایک ایجنڈے پر اتفاق کر لینا بعید از قیاس ہے،اگرچہ مجلس عمل کی دو بڑی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی میں نظریاتی تفاوت نہیں ہے،مگراب علامہ شاہ احمد نورانی (جنھوں نے ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل میں شامل ہونے کے باوجود بھی اپنے مذہبی تشخص اور شناخت پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دی ) جیسی قد آور،بے داغ اور صاحب کردار قیادت کے بغیر داخلی انتشار کا شکار جمعیت علماءپاکستان کا اِس اتحاد میں دوبارہ شامل ہونا جمعیت علماءپاکستان کے مذہبی اور مسلکی تشخص اور رہے سہے بقیہ وجود کیلئے خطرناک ہے اوراِس اتحاد سے جمعیت علماءپاکستان کو بجائے فائدے کے نقصان کا زیادہ اندیشہ ہے،یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ جو تحریک ایک دفعہ مرجاتی ہے اُسے کبھی بھی دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا اور ایسی صورت میں جبکہ اُس کے موئد اور موئسس بھی نہ رہے ہوں۔

آج اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اپنی سابقہ کارگزاری کے سبب متحدہ مجلس عمل عوام میں اپنی ساکھ اور وقار کھو چکی ہے اورمولانا فضل الرحمن کے مسلسل حکومت میں شامل رہنے کی وجہ سے عوام اُن پر کسی طور اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں،چنانچہ اِن حالات میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم کے ذریعےاپنے وجود،اپنی شناخت اور اپنی حیثیت کی قربانی کے بعد حصول اقتدار کی کوشش کس قدر کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے یہ ہم سے زیادہ جمعیت علماءپاکستان کے قائد ین کیلئے سوچنا ضروری ہے،ساتھ ہی تمام دینی جماعتوں بالخصوص جمعیت علماءپاکستان کے قائدین کو یہ حقیقت اپنے پیش نظر رکھتے ہوئے اِس خوش فہمی سے باہر نکلنا ہوگا کہ عوام انہیں ایک بار پھر آزمانے جیسی غلطی کا دوبارہ ارتکاب کریں گے،لیکن اس کے باوجود بھی اگر جمعیت علماءپاکستان ایم ایم اے کا حصہ بننا چاہتی ہے تواس کیلئے دو ہی راستے ہیں،ایک جمعیت علماءپاکستان علامہ شاہ احمد نورانی کی طرح اپنے اصولی موقف کو قائم رہتے ہوئے اتحاد کا حصہ بنے اور اپنے دامن کو پلاٹ،پرمٹ اور سودے بازی جیسی آلائشوں سے بچاتے ہوئے اپنا موثر کردار ادا کرے،موجودہ حالات میں اس کے امکان بہت ہی کم ہیں۔

دوسرا یہ کہ جمعیت بھی باقی دیگر جماعتوں کی طرح اپنے اصولی موقف سے ہٹ کر وقتی مفادات اور فائدے سمیٹے اور وہی کام کرکے جو مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد نے کرتے ہیں،لیکن خیال رہے کہ یہ طرز عمل جمعیت علماءپاکستان کی سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا،لہٰذا اِن عوامل،ماضی کے تلخ تجربات اور مولانا فضل الرحمن و قاضی حسین احمد کی ہر قیمت پر حصول اقتدار کی سیاست کے تناظر میں آنے والے حالات کومدنظر رکھتے ہوئے ہمارا جمعیت علماءپاکستان کی مرکزی قیادت کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ جمعیت کواِن ابن الوقت افراد کی بیساکھی بننے سے بچائیں،ہمارے خیال میں متحدہ مجلس عمل میں دوبارہ شامل ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ جمعیت علماء پاکستان،جمعیت کے دیگردھڑوں اور سنی تنظیموں کو باہم متحد و منظم کرنے کی کوشش کے ساتھ تحریک انصاف جیسی امریکہ مخالف سیاسی جماعتوں سے کسی نئے سیاسی اتحاد کے امکانات پر غور کرے،کیونکہ اِسی میں جمعیت کے نظریاتی تشخص،تنظیمی بقاءاوراپنے ماضی جیسے بے داغ کردار کی ادائیگی کا راز مضمر ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 314231 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More