آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

انسان نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ وہ چاند تک پہنچ گیا ہے لیکن انسان اسے وہاں بھی نہیں ملا۔
ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انسانوں کی طرح رہے لیکن دنیا کی اتنی بڑی آبادی میں انسان ڈھونڈنا پڑتے ہیں۔ اکثر اخبارات میں انسانوں کی تلاش کے لیے اشتہارات دیے جاتے ہیں۔ لیکن مسجدوں سے جب اعلان کرایا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ ’جن ‘کا بچہ ہے وہ آکرلے جائے۔ جس طرح جگہ جگہ جنات نکالے جارہے ہیں اس سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ یہاں انسان نہیں بلکہ جنات بستے ہیں۔ ایک جن والے انسان سے پوچھا کہ کوہ قاف میں جگہ کم پڑگئی ہے جو تم نے ہمارے علاقوں کا رخ کیا ہے۔ تو کہنے لگا ہمارے چاہنے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں بھلا ہم انہیں کیسے مایوس کرسکتے ہیں۔ہمارے ہی دم سے کچھ لوگوں کی دال روٹی چل رہی ہے۔

انسانوں میں کچھ ’زیادہ‘ انسان ہوتے ہیں اور کچھ ’تھوڑے‘ اور کچھ تو سرے سے انسان ہی نہیں ہوتے بس ’انسان نما‘ ہوتے ہیں۔ دو ہاتھ پاؤں ہونے کا یہ مطلب تو ہر گز نہیں کہ وہ انسان ہی ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا تو سب انسان برابر ہوتے لیکن کچھ انسانوں کے رہنے کے لیے ہزاروں ایکٹر زمین ہوتی ہے اور کچھ کے لیے دو گز زمین بھی میسر نہیں آتی۔ اﷲ تعالیٰ نے دنیا انسان کے رہنے کے لیے بنائی تھی لیکن وہ بھی تھوڑی پڑ گئی ہے۔ اس کی وجہ انسانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن میری ناقص عقل میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ دنیا کی ہزاروں ایکٹر زمین پھر بھی خالی و بیابان کیوں پڑی رہتی ہے؟ ایک طرف پلازہ کھڑے کےے جاتے ہیں تو دوسری طرف جھونپڑی تک کے لیے زمین میسر نہیں آتی۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پانی کی کمی کا شکار ہورہی ہے اوراس’ انسان نما ‘کے لیے ایک قطرہ پانی میسر نہیں آتا۔ لیکن باوجود اس ساری صورتحال کے روزانہ دریاؤں کا پانی سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ’انسان نما‘ ہیں۔ان کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہے لیکن ان کو دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اب اگر غلطی سے دنیا میں آہی گئے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ ’زیادہ ‘انسان اور ’تھوڑے ‘ انسان کی خدمت سرانجام دیں۔ یہی انسان نما گٹروں کے اندر صفائی کے لیے بھیجے جاتے ہےں۔ ایسا ہر گز نہیں کہ یہ کام مشینوں سے نہیں لیا جاسکتا ہے لیکن اس سے’ انسانیت‘ کا وقار بلند ہوتا ہے۔ یہی ’انسان نما‘ دنیا میں جانوروں کی جگہ پر باندھے جاتے ہیں جو ’زیادہ‘ انسان اور ’تھوڑے‘ انسان کو اپنی منزل کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ اس سے بھی ’انسانیت‘ کا وقار بلند ہوتا ہے۔ کچرے کا ڈھیر ان کا ریسٹورنٹ ہوتا ہے جہاں یہ بلی کتوں کے رزق پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔غرض یہ دنیا میں ’انسانیت ‘کے نام پر دھبہ ہیں ۔ جتنی جلد ممکن ہو انہیں دنیا سے ختم کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ دنیا کا حسن خراب کردیں گے۔

’انسان نما‘ سے متعلق زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ انہیں ڈھونڈنا نہیں پڑتا یہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ ہمیں فکر ہے تو’ انسان نما‘ کی نہیں بلکہ ان کے درمیان بسنے والے ان ’تھوڑے‘ انسانوں کی جو ہوتے تو ’تھوڑے ‘ انسان ہیں لیکن ’انسان نما‘ کی طرح ان کی بھی آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ یہ تھوڑے انسان خود کو مکمل انسان سمجھتے ہیں۔ اسی مغالطہ میں اکثر مارے جاتے ہیں۔ اسی ، دو سو بیس گز کا فلیٹ یا مکان حاصل کرکے یہ خود کو’ انسان‘ سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد ’زیادہ ‘ انسانوں کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔ ’زیادہ ‘ انسان سے ہاتھ ملا کر ، ان کے ساتھ تصویر کھنچوا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ کچھ زیادہ پڑھ لکھ جاتے ہیں تو خود کو ’زیادہ‘ انسان سمجھنے لگتے ہیں لیکن رہتے ’تھوڑے‘ انسان ہی ہیں۔
’زیادہ ‘ انسان دنیا میں بہت تھوڑے ہیں لیکن ان کی وجہ سے دنیا کا ’وقار‘ قائم ہے۔ اگر یہ دنیا میں نہ ہوں تو دنیا رہنے کے قابل ہی نہ رہے۔ دنیا میں رہنے کا حق صرف انہی ’زیادہ ‘ انسانوں کا ہے۔ اسی لیے ’زیادہ ‘ انسان جب عام سڑکوں سے گزرتے ہیں تو سائرن بجائے جاتے ہیں تاکہ دوسری مخلوق اس سے دور رہے۔
 
’زیادہ ‘ انسان زیادہ تر امریکہ یا یورپ میں پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے لیے ایک قانون بنایا ہے اور دوسری دنیا کے انسانوں کے لیے دوسرا قانون ہے۔ گوانتاموبے کی جیل اس کی مثال ہے جہاں انسان نما کورکھا گیا ۔یہ زیادہ انسان اتنے نرم دل ہوتے ہیں کہ آپ انہیں کہیں کتے کو پالتے ہوئے دیکھیں گے، کہیں بلیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دیکھیں گے، کہیں مچھلیوں کی نسل تباہ ہونے پر غم زدہ پائیں گے۔ یہ خود کو دنیا کا اصل وارث سمجھتے ہیںاسی لیے یہی فیصلہ کرتے ہیں کہ کہاں کس انسان نما یا تھوڑے انسان کو ہونا چاہیے۔دنیا کی آبادی کا کنٹرول ، دولت ، ذخائر ،میڈیا سب ان ہی کے ہاتھوں میں ہے۔

انسان نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ وہ چاند تک پہنچ گیا ہے لیکن انسان اسے وہاں بھی نہیں ملا۔
Mir Shahid Hussain
About the Author: Mir Shahid Hussain Read More Articles by Mir Shahid Hussain: 49 Articles with 42753 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.