ہاتھی ! ایک بھاری بھرکم جانور
(Shamim Iqbal Khan, India)
۱۹۷۱ء میں ایک ہندی فلم ’ہاتھی میرے ساتھی‘
بنی تھی ۔ اس کے بعد’’ سفید ہاتھی ‘‘کے نام سے۱۹۷۸ء میں ایک دوسری فلم بنی
۔ ان دونوں فلم کو بچوں نے خوب پسند کیا تھا۔فلم’سفید ہاتھی‘ کو تو بچوں کی
بہترین فلم ہونے کا ’نیشنل فلم ایوارڈ‘ بھی ملا۔تکنیکی اعتبار سے یہ فلمیں
بڑی پرانی ہو چکی ہیں پھر بھی اگربچوں کو دیکھنے کو ملتی ہیں توضرور دیکھنا
چاہئے۔
ٹی․وی․ نے گھروں میں بچوں کے ساتھ بڑی نا انصافی کی ہے ، ان سے وہ قدرتی
لطف چھین لیا جو دادی کے لحاف میں گھُس کر ان سے کہانی سننے میں ملتا تھا۔
اپنی دادی کی زبانی سنی ہوئی ایک کہانی کا مزہ مجھے ابھی تک یاد ہے۔
’’ببول کے کانٹے پہ تین تالاب،دو تھے سوکھے ساکھے، ایک میں پانی ہی نہیں ۔جس
میں پانی نہیں اس میں بسے تین کمہار،دو تھے لولے لنگڑے، ایک کے ہاتھ ہی
نہیں ۔ جس کے ہاتھ نہیں اس نے بنائے تین گھڑے، دو تھے ٹوٹے پھوٹے ایک کا
پیندا ہی نہیں۔ جس کا پیندا نہیں اس میں پکائے تین چاول، دو تو اینٹھے
گینٹھے، ایک گلا ہی نہیں۔ جو گلا نہیں اس نے بلائے تین مہمان،دو روٹھے
راٹھے ایک آیا ہی نہیں۔ جو آیا ہی نہیں اس نے لگائے تین ڈنڈے، دو تو اوکے
چوکے ایک لگا ہی نہیں۔ جو لگا نہیں وہ جا کرگرا گنّے کے کھیت میں۔ اس کھیت
میں ایک ہاتھی گنّا کھا رہا تھاوہ ڈر کر بھاگا اور ایک بدھنے میں چھُپ
گیا۔تھوڑی دیر کے بعد جب اس نے محسوس کیاکہ معاملہ اب ٹھیک ٹھاک ہے تو ٹوٹی
کی طرف سے نکل کر بھاگا۔ہاتھی تو نکل گیا لیکن دُم پھنس گئی،اور جب اس نے
زور لگا کر دُم کھینچا تو اس کی دُم ٹوٹ گئی۔ تبھی سے اس کی دُم چھوٹی ہے‘‘۔
اس کہانی کا ہاتھی کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اسی طرح سے کئی محاورے
ہاتھی کے تعلق سے بنے ہیں جیسے:
’ہاتھی نکل گیا دُم پھنس گئی‘ ،’سفیدہاتھی‘،’ہاتھی جیسی یاداشت‘،’ہاتھی کو
چوہے کے بل میں چھپانا‘ ،ہاتھی گھومے گاؤں گاؤں ، جسکا ہاتھی اسی کا
ناؤں،مَراہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ، کتّے بھونکتے رہتے ہیں ہاتھی چلتا
رہتا ہے وغیرہ محاورے ہاتھی سے متعلق مشہور ہیں۔ہاتھی اور انسان کا بہت
پرانا رشتہ ہے اور شاید اسی رشتہ کے مدنظرہاتھی کے مزاج کے مطابق محاورے
وجود میں آتے رہے۔بہر حال ہاتھی پر بنے محاورے اور بھی ہو سکتے ہیں لیکن
آئیے تھوڑا ہاتھی کے بارے میں بھی جانیں۔ ہاتھی کی سب سے پہلی اور خوبی
والی بات تو یہ ہے کہ جانور ہوتے ہوئے بھی یہ خاندان کی شکل میں رہنا پسند
کرتا ہے۔
زمین کا سب سے بڑا جانوریعنی ہاتھی دنیا بھر میں دو طرح کے پائے جاتے ہیں۔
پہلاافریقہ کا ہاتھی دوسرا ایشیا کا ہاتھی۔ ان دونوں ہاتھیوں کے جسمانی
ساخت میں فرق ہوتا ہے۔افریقہ کے ہاتھی ایشیا کے ہاتھی سے بڑے ہوتے
ہیں۔افریقہ کے ہاتھیوں کے کان کی بناوٹ ایٹلس میں افریقہ کے نقشہ کی طرح
ہوتے ہیں اور بڑے ہوتے ہیں۔جبکہ ایشیا کے ہاتھیوں کی کان قدرے چھوٹے ہوتے
ہیں۔
افریقہ کے ہاتھیوں کے باہر دکھنے والے دانت نر و مادہ دونوں میں ہوتے ہے
جبکہ ایشیا کے ہاتھی میں باہر دکھنے والے وانت صرف نر میں ہوتے ہیں۔
افریقہ کے ہاتھیوں کے پچھلے پیر میں تین ناخُن ہوتے ہیں جبکہ ایشیا کے
ہاتھیوں کے پچھلے پیر میں چار ناخُن ہوتے ہیں۔
ایشیائی نسل کے ہاتھیوں کاسائنسی نام ’ایلیفاس میکسمس(Elephas maximus)‘ ہے
۔ ان کے حمل کی مدّت 547.9دنوں سے لیکر669.6دنوں کی ہوتی ہے۔انسانوں کے
ساتھ ان کے قیدی اور مزدور بن کر رہنے پر ان کی زندگی80 سالوں کی ہوتی ہے
لیکن جنگل میں رہنے پر ان کی عمر کم ہو کر صرف 60سال کی رہ جاتی ہے۔
پیدا ہونے والے بچے کا وزن 100کلوگرام ہوتا ہے۔4160کلو گرام جوان ماد ہ
ہتھنی کا وزن ہوتا ہے اور نر کا وزن 5400کلوگرام ہوتا ہے۔ کندھوں تک مادہ
کی اونچائی88.189انچ ہوتی ہے اور 125.984 انچ نر کی کندھوں تک اونچائی ہوتی
ہے۔
افریقہ نسل کے ہاتھیوں کا سائنسی نام لوکسو ڈونٹا افریکانا(Loxodonta
africana) ہوتا ہے۔ انکے بھی حمل کی مدّت 669.6دنوں کی ہوتی ہے۔عام طور سے
جوان نرکا وزن5500کلو گرام ہوتا ہے اور مادہ کا وزن3700 کلوگرام ہوتا ہے۔
نئے پیدا ہوئے بچہ کی کندھے تک اونچائی90سینٹی میٹر ہوتی ہے۔جوان نر کی
اونچائی کندھے تک330سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ مادہ کی کندھے تک کی
اونچائی280سینٹی میٹرہوتی ہے۔
خاندان: ہاتھی خاندان کی شکل میں رہنا پسند کرتے ہیں اور جھنڈوں میں بٹے
ہوتے ہیں۔ہر جھنڈ کا ایک مکھیا ہوتا ہے جو عموماً عمر رسیدہ ہتھنی ہوتی
ہے۔جھنڈ کے بقیہ ہاتھی اس کے تابع ہوتے ہیں۔ہاتھی کا بچہ اپنی ماں کے جھنڈ
میں چودہ پندرہ سال کی عمر تک رہتا ہے اس کے بعد وہ کسی مادہ کی تلاش میں
لگ ہو جاتا ہے۔
خوراک: ہاتھی اپنی خوراق پیڑ پودھوں سے حاصل کرتا ہے۔ زیادہ مقدار میں
پتّیاں،گھاس اور پیڑوں کی چھال، ٹہنیاں، جڑیں ان کو خوراق میں چاہئے۔اپنی
خوراق کی تلاش میں یہ 16-16گھنٹے چلتے رہتے ہیں اور کھاتے رہتے ہیں اور ایک
دن میں495 پاؤنڈ یعنی 224.528 کلوگرام خوراق یہ ہضم کر لیتے ہیں۔ان کا
ہاضمہ بہت اچھا نہیں ہوتا ہے کیونکہ انکی لید میں ادھ پچا کھانا بھی رہتا
ہے۔
دانت: ہاتھی کے کل چھہ دانت ہوتے ہیں، چار دانت کھانے والے ہوتے ہیں۔یہ
دانت ہر چار سال کے بعد گر جاتے ہیں اور ان کی جگہ پر دوسرے دانت اُگ آتے
ہیں۔ ان کی لمبائی بڑے ہاتھیوں میں دس انچ اوروزن ڈھائی کلو گرام تک ہو تا
ہے۔ دو دانت سینگھ کی طرح باہر نکلے ہوتے ہیں۔ان دانتوں کے بڑھنے کی رفتار
ہر سال سات انچ تک ہوتی ہے اورپانچ، چھ فٹ تک لمبے ہوتے ہیں۔یہ بڑے قیمتی
ہوتے ہیں اسی لیے انسان ان کی جان کا دشمن بنا رہتاہے۔
کان اور سونڈ: افریقی ہاتھیوں کے کان چھہ چھہ فٹ تک لمبے ہو تے ہیں ۔ ان کے
کان پنکھے کا کام کرتے ہیں اور اپنے کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے انکو ہلاتے رہتے
ہیں۔ہاتھی کے کان کا پچھلا حصہ بہت نرم ہوتا ہے۔ان کو سکھانے اور دیکھ بھال
کرنے والا مہاوت کہلاتا ہے۔وہ جب ہاتھی کو چلاتا ہے تواس کے کان کے پیچھے
والے حصہ کو پیر کے انگوٹھے سے دباکراحکامات دیتا ہے اور انہیں احکامات کے
مطابق ہاتھی چلتا ہے اور کام کرتا ہے۔
ان کی سونڈ حقیقت میں ناک ہوتی ہے جس سے یہ سانس بھی لیتے ہیں، سونگھتے کا
کام بھی لیتے ہیں۔یہ اوپری ہونٹ کا حصہ بھی ہوتا ہے۔سونڑ سے ہی اپنا چارا
پیڑوں سے توڑتے ہیں اور پھر اسی سے اپنے منہ میں رکھتے ہیں۔سونڑ میں پانی
بھر کر اپنے اوپر چھڑکتے ہیں اور منہ میں ڈال کرپیتے بھی ہیں۔ اپنی سونڑ سے
زمین کھود کر پانی بھی نکال لیتے ہیں۔ایک بالغ ہاتھی ایک دن میں ۲۱۰؍لیٹر
پانی پی جاتا ہے۔ ہاتھی کے سونڑ کی لمبائی تقریباً دو میٹر (۷؍فٹ) تک ہوتی
ہے اور اسکا وزن ۱۴۰؍کلوگرام تک ہوتا ہے۔کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس
کی سونڑ ایک لاکھ پٹھوں(Muscles)سے بنی ہوتی ہے ، اس میں ہڈی نہیں
ہوتی۔ہاتھی اپنی سونڑ سے دو انگلی کا بھی کام لیتا ہے۔ جس کی مدد سے زمین
سے مونگ پھلی بھی اُٹھا کر اپنے منہ میں رکھ سکتا ہے اور پیڑ سے صرف ایک
پتّی بھی توڑ سکتا ہے۔ نئے پیدا ہوئے بچوں کو اپنی سونڑ کی مدد سے حفاظت کے
ساتھ اُٹھا کر کھڑا کرتا ہے اور اسی سے انہیں چلانا سکھاتا ہے۔ہاتھی کے
بارے میں ایک دلچسپ جانکاری یہ ہے کہ جس طرح سے انسا ن کے شیر خواربچے اپنا
انگوٹھا چوستے ہیں اُسی طرح سے ہاتھی کے بچے اپنی سونڑ منہ میں ڈال کر
چوستے ہیں۔
ہاتھی دھمکانے کے لیے اپنی سونڑ سے بڑی تیز آواز نکالتا ہے جسے ’چنگھاڑنا‘
کہتے ہیں۔جب کوئی ہاتھی دوسرے ہاتھی سے ملتا ہے توبغل گیر اورخیر مقدم کرنے
کے لیے سونڑ آپس میں ملاتے ہیں۔
ہاتھی اپنے کو کیسے ٹھنڈا رکھتے ہیں:
گرمی کے موسم میں ہاتھی پانی اور کیچڑ میں پڑے رہتے ہیں، گرمی سے بچنے کے
لیے یہ ہاتھی اپنی سونڑ میں پانی اور بالو بھر کر اپنے اوپر چھڑکتے رہتے
ہیں اس سے ان کو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ انکی کھال پُر شکن ہوتی ہے یہ شکنیں
بھی ان کو گرمی سے راحت دلاتی ہیں۔ہاتھی اپنی سونڑ میں تقریباً دو گیلن
(ساڑھے سات لیٹر) پانی بھر سکتا ہے۔
آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ ہاتھی آپس میں باتیں بھی کرتے ہیں، ایک دوسرے
کو مخاطب کرنے کے لیے کچھ مخصوص آوازیں بھی نکالتے ہیں ان کو بڑبڑانا،
خرخرکرنا، دھونکنی، سیٹی، شہنائی کے ناموں سے جانتے ہیں۔
قدرتی طریقے سے ہاتھی غارت گر نہیں ہوتے ہیں اور نہ دوسرے جانوروں کو نقصان
پہنچاتے ہیں۔ جھنڈ سے بچھڑ جانے والے بچے اور بیمار ہاتھی شیروں کا شکار بن
جاتے ہیں۔ ہاتھی کی سونگھنے کی قوت بہت اچھی ہوتی ہے، تین میل کے فاصلے سے
پانی کی خوشبو کوسونگھ سکتا ہے۔اس کی آنکھیں چھوٹی ہوتی ہیں اور اس کی
بینائی بھی کمزور ہوتی ہے ۔ زمین کا سب سے بڑا اور بھاری بھرکم جانور کا
دماغ بھی اوروں کی بنسبت بڑا ہوتا ہے۔ ہاتھی ایک اچھا تیراک بھی ہوتا
ہے۔گہرے پانی میں ڈُبکی لگا کر تیرنے پر اپنی سونڑ سانس لینے کے لیے پانی
کے باہر نکالے رہتا ہے،تیرتے ہوئے بہت دور تک جا سکتا ہے۔
ہندوستان کے ہاتھی: ہندوستان میں جوہاتھی پائے جاتے ہیں وہ ایشیا نسل کے ہی
ہوتے ہیں۔1990کے اوائل میں ایک اندازہ کے مطابق یہاں ان کی آبادی 26,390سے
لیکر30,770 تھی۔ذیل کے چار علاقوں تک ہی یہ محدود رکھے گئے:
۱۔ شمال مغربی خطہ : اترا کھنڈ اور اتر پردیش میں ہمالیہ کی ترائی میں
’کترنیا گھاٹ وائلڈ لائف سینکچری میں۔
۲۔ شمال مشرقی خطہ : نیپال کی مشرقی سرحداور مغربی بنگال کا شمال مغربی
علاقہ سے لیکر مغربی آسام تک ہمالیہ کے ترائی اور ’مشمی‘ پہاڑ کا سلسلہ جو
مشرقی اروناچل پردیش تک پھیلا ہوا ہے، آسام کے اوپری میدانوں اور ناگا
لینڈکے تلہٹی پہاڑوں اور میگھا لیہ کے ’گیرو‘ پہاڑ کا سلسلہ جو ’کھاسی‘
پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے، ’برہم پُتر‘ کا ترائی علاقہ کا میدان اور ’کربی‘
پٹھار۔تری پُرا، میزورم، منی پور آسام کے بارک گھاٹی ان کی رہائش ہے۔
ٍ ۳۔ مرکزی خطہ: اڑیسہ، جھارکھنڈ مغربی بنگال کاجنوبی خطہ۔
۴۔ جنوبی خطہ: شمالی کرناٹک اور مشرقی گھاٹ،برہم گری،نیل گری کے مشرقی گھاٹ
وغیرہ۔
ہاتھیوں کے متعلق کچھ چھوٹی چھوٹی مگر دلچسپ باتیں:
۱) ایک اندازے کے مطابق پندرہ ہزار ہاتھی قید کی حالت میں ہیں،بائیس ہزار
جنگلی ہاتھی اورتقریباً تین ہزارپالتوہاتھی ہیں۔
۲) دودھ پلانے والے یعنی ’تھن‘ والے جانوروں میں ہاتھی ہی ایک ایسا جانور
ہے جوکود نہیں سکتا۔
۳) زمین کے جانوروں میں ذہین جانور ہوتا ہے اور اس کے دماغ کا سائز بھی
انسان کے دماغ سے تین چار گُنا زیادہ ہوتا ہے لیکن ہاتھی کی جسامت کے حساب
سے بہت چھوٹا ہوتا ہے۔
۴) اس کے نبض کی رفتار بہت دھیمی۲۷؍منٹ ہوتی ہے اور اس کی کھال ایک انج
موٹی ہوتی ہے۔
۵) ۱۶؍سال کی عمر میں یہ بچہ دینے کے لائق ہو توجاتے ہیں لیکن اپنی زندگی
میں عام طور چار بار ہی بچے دیتے ہے۔
۶) ہاتھی اپنے پیروں سے بھی سننے کا کام لیتا ہے۔دوسرے ہاتھیوں کے ذریعہ
پیدا کی جانے والی گرج یا چال سے زمین میں پیدا ہونے والی کپکپاہٹ کو یہ
اپنے پیروں سے محسوس کرتے ہیں ۔اپنی سونڑ کو بھی زمین پر رکھ کراس میں پیدا
ہونے والی کپکپاہٹ کو محسوس کرتے ہیں۔
۷) ہاتھی مرے ہوئے ہاتھیوں کی ہڈےّوں کو بڑے احترام کے ساتھ اپنی سونڑ سے
اور پیروں سے چھوتے ہیں اورمرے ہوئے ہاتھی کے لیے غم کا اظہار کرتے ہیں اور
اس کے پاس تھوڑا وقت گزارتے ہیں۔
۸) ہاتھی کے دِل کا اوسط وزن ۲۷ سے ۶۴ پاؤنڈ تک ہوتا ہے۔
۹) ہاتھی کے خاندان کا کوئی ممبربھٹک کر الگ ہو جاتا ہے اور پھر کبھی جب وہ
واپس آتا ہے تو یہ لوگ جشن مناتے ہیں۔
۱۰) جس طرح انسان جب کسی سے گلے ملتے ہیں تو داہنے و بائیں دونوں طرف سے
ملتے ہیں۔اُسی طرح سے ہاتھی بھی دائیں و بائیں طرف سے سونڑ ملاتے ہیں اور
لپیٹ کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
۱۱)ٍ ہاتھی سوکھے موسم میں اپنی سونڑ سے پیڑوں اور جھاڑیوں سے غزا حاصل
کرتے ہیں لیکن بارش کے دنوں میں نیچے زمین سے کھانے لائق چیزیں کھاتے ہیں۔
۱۲) ہاتھی ۲۴کلو میٹر فی گھنٹہ کے حساب سے دوڑ سکتے ہیں لیکن کچھ فاصلے ہی
تک۔
ہاتھیوں سے متعلق لطیفے:
’اٹکن‘ نے ’بٹکن‘ سے پوچھا ’ اچھا بتاؤ’ایک ہاتھی کو تم فرِج میں کیسے رکھو
گے؟‘
’بٹکن ‘نے رکھائی کے ساتھ کہا’مجھے نہیں معلوم‘۔
’اٹکن‘ نے کہا یہ تو بڑا آسان ہے’ فرِج کھولو اورہاتھی کو اندر رکھ دو‘۔
پھر’اٹکن‘ نے ’بٹکن‘ سے دوسرا سوال کیا’’اچھا بتاؤ! جراف کو فرِج میں کیسے
بند کروگے؟‘‘
’بٹکن‘نے کہا یہ تو بڑا آسان ہے ، فرِج کھولو اورجراف کو اندر رکھ دو۔
’اٹکن‘ نے ’کون بنے گا کروڑ پتی کے امتابھ بچن کے سُر میں کہا غلط جواب،
پہلے فرِج کا دروازہ کھولیں گے، ہاتھی کو باہر نکالیں گے پھر جراف کو فرِج
میں رکھیں گے۔
سلسلہ جاری رکھتے ہوئے’اٹکن‘ نے ایک دوسراسوال کیا۔سبھی جانور شیرکی بارات
میں گئے ہوئے تھے، صرف ایک جانور نہیں گیا تھا۔ بتلا سکتے ہو وہ کون سا
جانور تھا؟
’مجھے نہیں معلوم‘،’بٹکن‘نے جھنجلاتے ہوئے کہا۔
’اٹکن‘ ہنستے ہوئے ’ارے بھئی جراف نہیں گیا تھا کیونکہ وہ ابھی تک فرِج میں
بند ہے‘۔
اچھا ایک آخری سوال بتاؤ، ’اٹکن‘ نے ہنستے ہوئے کہا۔’’ایک ندی ہے جس میں
بہت گھڑیال رہتے ہیں، تمہیں ندی کے پار جانا ہے، کیسے جاؤ گے؟‘‘۔ ’بٹکن‘نے
کہا ’ ارے بھئی پُل پر سے چلے جائیں گے‘۔
’اٹکن‘ نے کہا ’’نہیں بھائی! تیر کر جائیں گے، گھڑیال تو سب شیر کی شادی
میں گئے ہوئے ہیں‘‘۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․
ایک چوہے نے ہاتھی کے بچے سے پوچھا’’تمہاری عمر کیا ہے؟‘‘۔ ہاتھی نے جواب
دیا ’چھہ ماہ‘ اور تمہاری؟ چوہے نے کہا ’ہوں تو میں بھی چھہ ماہ کا مگر کچھ
بیمار رہتا ہوں۔
ہاتھیوں کے تعلق سے اشعار:
کہتی ہے نامہ بر کی جسامت یہ مجھ سے شوقؔ
ہاتھی پہ چڑھ کے دوست کا پیغام آگیا
․․․․․․․․․․․․․․․․․․
گر بتِ کمسن دام بچھائے
بلبلیں کیا ہیں؟ ہاتھی پھنسائے |
|