کاوش
(Abdullah Amanat Muhammadi, Kasur)
ایک دن میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ
میری والدہ صاحبہ کی سہیلی نے کہا:"عبداللہ بیٹا مجھے بازار سے فلاں سامان
لا دو"۔ میں نے دوکاندار سے چیزیں مانگیں تو اس سےجو اشیاء مانگیں تھیں دے
دیں اور شاپ کیپر نے اپنی پریشانیاں سناتے ہوئے کہا:"عبداللہ بھائی !آپ
لکھاری (Writer)ہیں لہذا مہربانی فرما کر وراثت کے مسائل پر بھی کچھ
لکھیں"۔ ان دنوں میرے بی ایس سی کے امتحانات ہورہے تھے لہذا میں نے پیپروں
کے فوراَ بعد اس موضوع پر تحقیق شروع کی۔ جس کے لیے میں نے دوکتابیں پڑھیں
اور دو بیان سنے۔ الحمد للہ ! تین دن کی مسلسل محنت کے بعد میں نے "مسائل
وراثت"، کے عنوان پر کالم لکھا۔ چوتھے دن میں نے اپنے پیارے چاچو حکیم ابو
عبداللہ غلام نبی خادم صاحب سے بائیک لی اور 150 کے قریب پیج پکڑ کر اپنے
گاؤں سے تقریباَ پانچ کلو میڑ دور گاؤں میں موجود اپنے دوست حافظ عبدالحفیظ
کی طرف روانہ ہوا۔ بارش کی وجہ سے بازاروں میں پانی کھڑا ہوا تھا جس سے
موٹر سائیکل سلپ ہوئی اور پیپر پانی میں گرنے سے خراب ہو گئے۔ میں واپس
اپنے گھر آیا اور دوبارہ پیج لیئے اور منزل کی طرف روانہ ہوا۔ حافظ صاحب نے
مجھ سے پیپر لے کر اپنے پرنٹر سے پرنٹ نکال کر دیئے۔ اب میں خوشی خوشی اپنے
گاؤں کو لوٹا اور گھر پہنچنے سے پہلے ان صاحب کی دوکان پر رکا جنہوں نے اس
موضوع پر لکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ وہ شاپ پر تو موجود نہیں تھے البتہ
گھر سے پتا چلا کہ صاحب نہا رہے ہیں۔ جب وہ نہا کر گھر سے باہر نکلا تو میں
نے اسے کالم دیاتو اس نے نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے پکڑا اور دیکھ کر
کہنے لگا:"اتنا زیادہ لکھ دیا ہے یعنی پڑھے گا کون؟"میں نے کہا:"یار!لوگ دو
دو سو صفحات پر مشتلہ کتابیں پڑھ لیتے ہیں اور آپ دو صفحے پر مشتمل کالم
نہیں پڑھ سکتے؟"
اسی لیئے میں کہتا ہوں :"ہر کاوش (Struggle) لله رب العالمين کرو کیونکہ
اگر تم لوگوں کے لیے تگ و دو کرو گے تو اکثر لوگ اسی طرح بے قدری کریں گے
اور اگر تمہاری جد و جہد لله رب العالمين ہو گی تو اللہ تعالیٰ بڑا قدردان
ہے۔"اس لیے میں اپنے اس دوست کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے میری توجہ میراث
کے مسائل کی طرف دلائی اور ناراض اس وجہ سے نہیں کیونکہ الحمدللہ میری ہر
سعی لله رب العالمين ہوتی ہے۔ |
|