20مارچ بروز اتوار بمقام قائداعظم ڈویژن
پبلک سکول (شیخ محمد یونس آڈیٹوریم) گوجرانولٰہ میں جناب حضرت واصف علی
واصف ؒکی یاد میں واصف خیال سنگت نے اُن کے افکار کو خراجِ تحسین پیش کر نے
کے لیے ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ جس میں کم و بیش تمام مکتبہ فکر کے
لوگوں نے شرکت کی بلخصوص صوفی مُنش شخصیات کو مدعوکیا گیا ۔اس محفل کو زینت
و رونق بخشنے کے لیے معرو ف کالم نگار ، جناب مُنو بھا ئی صاحب(معروف کالم
نگار) ، جناب اور یا مقبول صاحب(معروف کالم نگار)جناب جواد ایس خواجہ چیف
جسٹس آف پاکستان (ر) اور صاحبزادہ واصف علی واصف جناب کاشف محمود صاحب نے
نہا ئت جا مع اور پُر اثر انداز سے جناب حضرت واصف علی واصف ؒ کے خیالات کو
دلوں کی دھڑ کنوں میں سمو یا ۔ جنابِ محترم اورایا مقبول صاحب کے رنگ نے سب
کو د ھنگ کر دیا اور کمرہ ہال میں تمام حاضرین کو اپنے پا کستانی ہو نے پر
فخر ہوا آپ نے کچھ اس طرح دلوں کو گر مایا کہ ہر جوان و پیر کا قبلہ درست
ہو گیا اور صحیح معنوں میں آپ نے فضا ء بدر کو پیدا کر د یا ۔ آپ نے درست
سمت میں توکل اور شانِ توکل کو اُجا گر کیا۔جناب مُنو بھا ئی نے بھی نہا
ئیت د ھیمے ، تیکھے اور پُرحکمت انداز میں فر قہ واریت کے جن کو بو تل میں
بند کر نے کے منتر سمجھا ئے ۔ یہ اور بات ہے کہ اہل وطن کو یہ شا ید چڑیاں
چُک جا نے کے بعد یاد آئے ۔ جناب جسٹس خواجہ صاحب کے بارے میں میر ی را ئے
کی وہ دُر گت بنی کہ اب میں اکثر سو چتا ہوں کہ وہ کو نسی چیز ہے جس نے
جسٹس صاحب کے اندر وہ رُعب اور رعونیت نہ پیدا ہو نے دی ،جو عمو ماً جج صا
حبان کا خاصہ ہو تی ہے ۔ شا ید ان جیسے درویش صفت جج صا حبان کی وجہ سے ہی
ہما ر ے ملک کے وکلا ا تنے شیر اور دلیر ہو گئے ہیں ۔ آب نہا ئیت سادہ اور
فقیر انہ صفت کے درویش ہیں ۔ میں اکثر لوگوں سے سنتا تھا کہ پاکستان میں
چند ا یسے اﷲ کے نیک بند ے مو جود ہیں جن کی و جہ سے یہ ملک با قی ہے ، اور
میر ے د ل میں بڑا اشتیاق پیدا ہو تا تھا کہ کا ش میں ان لو گوں کو ا پنی
آنکھوں سے حقیقت کے روپ میں د یکھوں اور اﷲ نے میر ی دُعا سن لی اور جنا ب
جواد ایس خواجہ صا حب کو میں نے آپنی آنکھوں سے د یکھ بھی لیا اور یقین بھی
کرلیا ۔ اور اس پر گواہ بھی بن گیا ہوں ۔ دوسرے لوگوں کی طرح یہ بات بھی
میر ے ایمان کا حصہ بن گئی ہے کہ یہ ارضِ وطن ضرور بہ ضرور با قی ر ہے گا،
قیامت کی سحر ہو نے تک (انشا ء اﷲ)کیونکہ اس کی آغوش میں آج بھی و لیوں کے
بیٹے جا گزیں ہیں ، جو وقت کے بادشاہ ہو نے کے با وجود ایاز کے لباس میں
خوشی محسوس کر تے ہیں ۔ جو آج بھی نڈر ہیں ۔انہیں کو ئی فرق نہیں پڑتا کہ
وہ زمین کے اُوپر ہیں یا زمیں کے اندر، وہ اس خوف سے آزاد ہیں ۔ جن کے پاس
کو ئی سیا سی تما شہ نہیں ۔جن کی گفتگو بھی بے رنگ صاف شفاف و پاک پانی کی
طرح ہے جس میں کو ئی مصنو عی رنگ اور خو شبو نہیں سوائے سچ کی چمک کے ۔
جناب اوریا مقبول صاحب نے توکل کے بارے میں بڑے مو ثر انداز میں ر اہنما ئی
کی اُن کا فر مانا تھا کہ ہم آج جن مصائب کا شکار ہیں در حقیقت وہ ہمار ے
غیر مرائی شرک کا پیش خیمہ ہے ۔ اور سرا سر ہمارے اعمال کی سزا ہے ۔ آج
ہمارا اﷲ کے کارساز ہو نے سے زیادہ کسی ، ایس ۔ ایچ ۔ او، ڈی ۔پی ۔ او، یا
کسی ایم ۔ این ۔اے وغیر ہ پر زیادہ یقین کامل ہے اور اﷲ کی بجا ئے اُس سے
تعلق ہو نا زیادہ قا بلِ بھر و سہ خیال کر تے ہیں ۔
یہاں سے میں اپنے خیالات آپ سے شئیر کر نا چا ہوں گا کہ یہ اﷲ تعالیٰ کا
ایک ازل سے قانون ہے کہ جب ہم اُس کی کسی نعمت کی قدر نہیں کر تے تو پھر وہ
بندے سے وہ نعمت واپس لے لیتا ہے اور اُس کو اغیا ر کا محتاج کر د یتاہے ۔
مثلاً اگر ہم آج اپنی آنکھوں کی قدر نہیں کر تے اور اُن کی حفاظت کا خاطر
خواہ انتظا م نہیں کر تے تو مستقبل میں ہم دوسروں کی آنکھو ں کے محتاج ہو ں
گے ۔ اسی طر ح اگر ہم نے اﷲ تعالیٰ کے احکام کے مطا بق خود کو جدید علوم سے
بہر ہ مند نہ کیا تو یقیناً ہمیں دوسری تعلیم یا فتہ اقوام کا محتاج ہو نا
پڑے گا ۔اور پھر کیا و جہ ہے کہ ہم پر ذلت کا عذاب نہ نا زل کیا جا ئے ۔
اوربلحاظ قوم اگر آج بھی ہم نے میانہ روی کی راہ اختیار نہ کی تو پھر ہمارے
اُوپر آپﷺ کی وہ حدیث کیسے نہ صادق آئے کہ جس کو منکر بھی صادق اور امین
کہتے تھے ، کہ جس نے اپنی ضرورت کے لیے ایک بار کسی غیر کے آ گے ہاتھ
پھیلایا تو اﷲ اُس کے لیے فقر و محتاجی کے دروازے کھول د یتا ہے ۔ پھر کیوں
نہ ہم آئی۔ایم۔ایف کے محتاج ہوں اور کیوں نہ ہم پہ زکوٰۃ سکیموں کے دروازے
کھول د یے جا ئیں اور پھر کیا وجہ با قی ر ہ جا تی ہے کہ ہم ان ایک دو ہزار
کے لیے صبح سے شام تک قطاروں میں بھوکے پیا سے نڈھال نہ ہوں ۔پیدائش سے موت
تک وہ کونسا مر حلہ ہے جہاں ہم میانہ روی سے چلتے ہیں ۔کبھی ہم مجبور ہو جا
تے ہیں اور کبھی کر د یے جا تے ہیں ۔ بہر حال ہم جتنی جلدی اس نقطہ کو سمجھ
لیں گے اُتنی جلدی اغیا رکی محتا جی اور ذلت سے نجا ت پا لیں گے ۔ اور
اُتنی جلدی ہم پر اﷲ کے خزانوں کے منہ کھول دئے جا ئیں گے ۔آج بھی اُس کے
خزا نوں میں کمی نہیں آئی بس ہم نے ہی اُس کا در چھوڑ د یا ہے ۔اﷲ کی صفات
میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خود پہلے اپنے بندے کو نہیں چھوڑتا بلکہ
بندہ اُسے چھوڑ نے میں پہل کر تا ہے ۔ بس پھر وہ بھی بے نیاز ہے وہ خدا ہے
اُس کو شایاں نہیں کہ وہ اپنی مخلوق سے انتقام یا بدلہ لے وہ تو بس اُس سے
بے نیاز ہو جا تا ہے اور پھر نہ زمیں کی گہر ائیوں میں اُس کا کو ئی داماں
ہوتا ہے اور نہ افلاک کی وسعتوں میں اُس کا تدارک ۔ ایک ذلت کے بعد دوسری
ذلت اور پھر تہہ در تہہ ذلت ہی ذلت (خدا مجھے اور اُمت محمدی ﷺ کی دستگیر ی
کر ے ) کوئی نہیں جو پھر اُس کے سامنے ٹھہر سکے ۔ قرآن حکیم کے فر مان کے
مطابق اﷲ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ اُن کے
دلوں کی کیفیت نہ بدل جائے اور وہ خود اُسے بدلنے کا ارادہ نہ کر لیں ۔ اﷲ
کر ے ہمیں جس قدر نیک لوگوں سے پیار و محبت ہے اُس سے کہیں زیادہ شدت سے
اُن کی تعلیمات پر عمل کر نا نصیب ہو۔ (آمین) |