اُوپرکی سطر میں دائیں ’’بسم اﷲ‘‘
درمیان میں’’ سرِراہ ‘‘اوربائیں’’ محمد رسول اﷲ‘‘لکھا تھا جبکہ نیچے بڑے
اور واضح حروف میں لکھا تھا’’بخدمت جناب جنرل مشرف صاحب حقوقِ نسواں بل کی
کامیابی پر مبارکباد قبول فرمائیں ،ایک بل حقوق مرداں پر بھی بنا دیں۔نوازش
ہوگی پینے پلانے کیلئے بڑی تنگی ہوتی ہے‘‘اس کے نیچے ایک طرفLROاور دوسری
طرف 1680جبکہ درمیان میں لکھا تھا"Always Speak The Truth"۔وہ ایک رکشہ تھا
جو لاہور کی سڑکوں پر آزادیِ رائے کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے دندناتا
پھر رہا تھا۔یوں محسوس ہو رہا تھا رکشہ یا رکشے والا دونوں میں سے ایک’’
ٹُن‘‘ تھا۔وہ مشرف کا دور تھا تمام عالمِ دین آزادی رائے کے حق کی عوام تک
رسائی سے تنگی محسوس کرنے لگے تھے کیونکہ عوام بے باک اور آزاد خیال ہوتی
جا رہی تھی۔
حقوقِ نسواں بل کا بیج مشرف دور میں بویا گیاتھا،لیکن زرداری دورکی جفا کشی
کے بعدیہ بیج نواز دور میں اپنی چھوٹی جڑیں اور نازک ٹہنیاں نکالتے ہوئے
معصوم مگرمہلک پودا بن گیا ہے۔لیکن سردست یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ حقوقِ
نسواں کا پودا بہت جلد تناور درخت بن جائے گا۔چونکہ اس پودے کے فائدے کم
اور نقصانات زیادہ معلوم ہوتے ہیں اس لئے ابھی اس پودے کوحالات کی سنگینی
سے لڑنا ہے۔گذشتہ دنوں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے حقوقِ نسواں بل کی
حامی خواتین کو جھنجوڑکر رکھ دیا۔مختصراً ہوا کُچھ یوں کہ ایک صاحب نے اپنی
بیوی پرمعمولی تشدد کیا(وجہ معلوم نہیں)بیوی نے تھانے میں رپورٹ کر
دی،پولیس نے تشدد کے الزام میں شوہر کو گرفتار کر لیا۔شوہر کے کسی عزیز نے
ضمانت کروائی اورشوہرصاحب نے جیل سے نکلتے ہی بیوی کو طلاق دے دی۔پاکستانی
معاشرہ جہاں طلاق یافتہ عورت کو بُری نظر سے دیکھا جاتا ہے اور کوئی مرد
طلاق یافتہ عورت سے شادی کیلئے راضی نہیں ہوتاایسے معاشرے میں حقوقِ نسواں
بل کو کس طرح کامیاب بنایا جا سکتا ہے؟جبکہ اگر ایک بیوی اپنے مجازی خدا کو
جیل بھجوائے گی تو اس کا نتیجہ یقینا سنگین ہی نکلے گا۔معاملے کی گہرائی کی
طرف بڑھیں تو آخر کار شوہر کے بیوی پر تشدد کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور
ہوگی؟جو شوہر جیل سے نکلتے ساتھ ہی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے وہ یقینا
بیوقوف تو نہیں ہوگاکہ بلاوجہ بیوی پر تشدد کر ڈالے۔اگر بیوقوف ہوتا تو
لڑتا،جھگڑتا،بحث کرتا اور اپنی عزت کے کھو جانے پر غم کرتا۔خیرمرد کا عورت
پر تشدد انتہائی بزدلانا عمل ہے میں ذاتی طور پر مرد کے عورت پرہاتھ
اُٹھانے کو شدت سے بُرا سمجھتا ہوں لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر خاتون گھر
بسانا چاہتی تھی تو اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ گھریلو ناچاقی پر اپنے
شوہر کو جیل بھجوائے اور فخر محسوس کرے یا اپنے شوہر کو معاشرے میں ہنگامی
رونق بنا کر پیش کرے۔اس لحاظ سے حقوق نسواں بل عورتوں کی لئے عین اُسی طرح
ہے جیسے چھ دہائیوں سے سیاستدان قوم کو یقین دلا رہے ہیں کہ ہم اوپر جا رہے
ہیں جبکہ اوپر تو دور ہم آئے دن تہہ در تہہ قرضوں میں ڈوبتے جا رہے
ہیں۔ہمارے معاشرہ میں بسنے والے شادی شدہ جوڑوں کی اکثریت کم پڑھے لکھوں کی
ہے جبکہ یہ حقوقِ نسواں بل زیادہ پڑھے لکھے افراد کے ہاتھوں تیار کیا گیا
ہے ،جنہوں نے اسے تحریر کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچا کہ کم پڑھے لکھے گھرانوں
میں میاں بیوی اور خاندان والوں میں اونچا نیچا دیکھانے کا رواج آزادی کے
بعد سے اب تک موجود ہے جسے اس قسم کے بل سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔اس
لحاظ سے ضرورت اس بات کی ہے کہ دیہاتوں اور کم پڑھے لکھے گھرانوں میں میڈیا
کی مدد سے یہ تعلیم دی جائے کہ عورت پر ہاتھ نہ اُٹھایا جائے بلکہ پیار
اورصلح جوئی سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔
اگر حقوقِ نسواں بل کو من وعن تسلیم کر لیا گیا تو یہ عورت کے تحفظ کی
بجائے عورت کے لئے پریشانی کا باعث بنے گا۔جن کے ہاں بچیاں پیدائش کے
بعدچاندی کے چمچ سے گُرتی لیتی ہیں اُنہیں اس بل کی موجودگی اور غیر
موجودگی سے غرض نہیں کیونکہ اُن کے پاس اندھا دھن پیسے کی حمایت ہوتی ہے۔وہ
طلاق یافتہ بھی ہوں تب بھی اُنہیں شادی کے لئے بے شمار کنوارے مل جاتے
ہیں۔جبکہ کسی غریب کی بیٹی کو طلاق ہو جائے تو اُسے بیاہنے کے لئے نہ جانے
کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔حقوق نسواں بل سے پہلے پاکستانی معاشرے میں
عورت کی تربیت اس لحاظ سے بہت ضروری ہے کہ اپنے حقوق کے بل کا صحیح استعمال
کس طرح کرنا چاہئے۔ورنہ یہ جان لیجئے کہ بندر کے ہاتھ ماچس آجائے تو وہ
اپنے گھر یعنی جنگل کو آگ لگا بیٹھتا ہے۔ |