قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور ہمارا عمل

محترم قارئین السلامُ علیکم
جمعہ کی نماز کے بعد جب میں گھر پُہنچا تو ایک بچے نے اطلاع دی کہ لاہور کی مسجد میں بم دھماکے ہُوئے ہیں پہلی نظر میں مجھے بھی یہی محسوس ہُوا کہ کِسی مسجد میں بم دھماکے ہوئے ہیں یا کسی مسجد میں دھشتگرد گُھس گئے ہیں لیکن خبریں سُننے کے بعد یہ انکشاف ہُوا کہ یہ دھماکے کسی مسجد میں نہیں بلکہ قادیانیوں کی عبادت گاہ میں ہُوئے ہیں۔

سب لوگ خبریں سننے میں مُنہمک تھے لیکن میرا ذہن کہیں اور اُلجھا ہُوا تھا اول تو یہ کہ خبر دینے والے بچے نے یہ کیوں کہا کہ مسجد میں دھماکے ہُوئے ہیں چلیں اُسے چھوڑیں وہ تو بچّہ تھا لیکن مجھے پہلی نظر میں ایسا کیوں محسوس ہُوا کہ یہ تخریب کاری واقعی کسی مسجد شریف میں وقوع پزیر ہُوئی ہے ظاہر ہے مجھے اور مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کو یہ غلط فہمی صرف اِس وجہ سے ہُوئی کہ احمدیوں کی یہ عبادت گاہ دیکھنے میں بالکل مسجد کی طرح لگتی ہے۔

محترم قارئین مساجد اللہ کے گھر ہیں اور شعائر اسلام ہیں۔ اور اسلامی شعائر مسلمانوں کو دوسرے مذاہب سے ممتاز بناتے ہیں اس لئے کسی اقلیت یا غیر مسلم فرقے کو اسلامی شعائر سے مُشابِہت کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی جیسے ایک گرجا گھر کو دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کی عیسائیوں کی عبادت گاہ ہے کسی مندر کو دیکھ کر ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ ہندوؤں کی دھرم شالہ ہے اسی طرح مساجد مسلمانوں کی پہچان ہیں اور کوئی مذہب کسی مذہبی عبادتگاہ کی نقل نہیں کرتا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو وہ کس طرح شعائر اسلام کو استعمال کرسکتے ہیں جب کہ پاکستان کے آئین میں بھی قادیانیوں کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ نہ وہ خود کو مسلم کہیں گے نہ خُود کو مسلم لکھیں گے نہ ہی اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہیں گے اور نہ ہی اُنہیں مساجد کی مُشابِہت پر تعمیر کریں گے نہ ہی اعلانیہ تبلیغ کریں گے کہ جس سے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو۔

لیکن گزشتہ کئی دھائیوں سے ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ قادیانی ان تمام احکام کی دھجیاں اُڑاتے چلے آرہے ہیں جسکی وجہ سے مُلک پاکستان کے اکثر شہروں میں تصادُم کی نوبت آجاتی ہے لیکن حیرت بالائے حیرت ہے کہ گُزشتہ کئی دھائیوں کی سول نافرمانی کے باوجود کسی بھی حکمران نے قادیانی لابی کی اِن حرکتوں کا نوٹس نہیں لیا اور جب کبھی ایسا کوئی ایشو اُٹھایا جاتا ہے تو حکومت میں موجود قادیانی لابی اور اُنکے مفادات کے نگران نمک خوار ایسی تیزی دِکھاتے ہیں جس سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کا نِقاب پِہنا کر واقعہ کا رُخ ہی دوسری جانب موڑ دیا جاتا ہے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گُزرا جب سندھ کے مشہور شہر کُنری (جو ایشیا کی سب سے بڑی مرچ منڈی) بھی کہلاتی ہے، میں اِن بدبختوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی کالے آئل سے روڈ پر لکھ کر بے حُرمتی کی تھی کُنری شہر کے مسلمان اِن کی کُھلی تبلیغی سرگرمیوں سے پہلے ہی عاجز تھے اس واقعہ نے ناصرف اُنکے مذہبی جذبات کو ٹھیس پُہنچائی بلکہ جہاں جہاں تک یہ خبر پُہنچی مسلمان آبدیدہ و مشتعل ہوگئے کافی احتجاج کئے گئے لیکن مظبوط قادیانی لابی فوراً سرگرم ہوگئی اور بات کو دبا لیا گیا۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک اسلامی مُلک جو صرف اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا جس کی اکثریت آبادی مسلم ہے اس اسلامی مملکت میں کب تک مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جاتا رہے گا اور کب تک ہمارے سیاستدان چند ووٹوں کی خاطر اِن کی طرفداری کرتے رہیں گے۔

کل جب محشر کا میدان سجے گا اور سب کو اپنے اعمال کا حساب دینا پڑے گا تو کس طرح یہ لوگ شافع محشر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے آخر کیا جواز پیش کریں گے اپنے کریم آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں۔

لیکن قارئین محترم کل جو واقعہ لاہور میں پیش آیا ہے مجھے اس طریقہ کی بھی مُذمت کرنی ہے کیونکہ جو طریقہ ان دھشگردوں نے اختیار کیا ہے وہ کسی بھی طرح اسلامی تعلیمات کے مُطابق نہیں ہے اور اِسکی وجہ سے تمام اقوام عالم میں پاکستان کا امیج مزید مُتاثر ہوگا اور قادیانیوں کو اقوامِ عالم کی ہمدردی حاصل ہوگی اسلامی ریاست میں سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ناکہ عوام کی اگر اس طرح لوگ قانون کو ہاتھ میں لیکر سزائیں دینے لگے تو پورے مُلک میں افراتفری کا بازار گرم ہوجائے گا اور کسی کی عبادت گاہ پر حملہ کی ویسے بھی اسلام میں مانعت ہے۔

اور مملکت پاکستان کے عُلماء کرام مُتفقہ طور پر ان قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے چُکے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے علماء کرام کی پیروی کرتے ہوئے ان کیساتھ اقلیت جیسا برتاؤ کرنا چاہیے اور جب چُنّاؤ کا وقت آئے تو اپنے حکمران ایسے لوگوں کو بنانا چاہیے جن میں ناصرف سیاسی سوجھ بوجھ ہُو بلکہ جنہیں دین اسلام کی بھی سمجھ بوجھ ہو اور جنکے قلوب عشق مصطفٰے(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) سے جگمگا رہے ہُوں تاکہ آئندہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور ہمارے وہ حُکمران اقلیت کے حُقوق کیساتھ ساتھ اُن کی منفی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھ سکیں۔
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1060082 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More