بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اہلِ ایمان کے ساتھ نصرت وتائید،
اور اسلام دشمن طاقتوں کے مکر وسازش کو اہلِ ایمان سے دفاع کا وعدہ کیا،
اور بے شمار درود سلام کا نذرانہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے
ساتھیوں پر جو اس دین کے ذریعہ فتح وکامرانی سے ہمکنار ہوئے، اور ان کے
ذریعہ دین کو کامیابی ملی، یہاں تک کہ وہ ہر دین پر غالب ہوگیا۔
عزیز دوستوں! عزت وشرف اور غلبہ و انتصار اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دین پر
عمل نہ کیا جائے، اور جب تک کتاب وسنت کو حکم اور فیصل مان کر دنیا کے تمام
نظام اور قانون پر ان دونوں کو مقدم نہ کیا جائے، اس لئے کہ نظام ِ اسلام
سے زیادہ درست کوئی نظام نہیں، اور نہ اس کے حکم سے بہتر کوئی حکم ہے، اس
لئے کہ یہ نظام اللہ علیم وحکیم اور رحمٰن کی طرف سے نازل شدہ ہے، اسے
زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ اور جاری کیا جائے، چاہے اس کا تعلق سیاست
ومعیشت ، سماج ومعاشرہ سے ہو، یا شخصی حقوق اور حدود وتعزیرات سے ہو، تمام
احوال میں اس کا نفاذ ہی امن ِ عالم کی ضمانت ہے۔
قرونِ اولیٰ کے مسلمان:
اور جب تک امت مسلمہ اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہی، اپنے آپ کو اس کے
احکام کے تابع رکھا، اور شریعت کو زندگی کے تمام میدان میں نافذ کیا، تو
اللہ کی نصرت وتائید ان کے قدم چومتی رہی، اس وقت کی بڑی سے بڑی سلطنت کو
انہوں نے اپنے سامنے جھُکنے پر مجبور کردیا، اور دشمنوں کے دلوں پر ان کا
رُعب طاری ہوگیا۔
لیکن جب خواہشات نفسانی نے جنم لیا، آرا٫ مختلف ہوئیں تو دشمنوں کے دلوں سے
ان کی ہیبت جاتی رہی، ہر چہار جانب سے ان پر دشمن مسلط کردئیے گئے، اور پھر
دشمنوں نے انہیں ہر طرح سے تباہ و برباد کیا، قانون اور نظام بدل دئیے گئے،
تہذیب وثقافت کی عمارت مسمار کردی گئی، مسلمانوں پر ضُعف اور اضمحلال طاری
ہوگیا، اور اقوام عالم انہیں اپنا لقمہ تر سمجھنے لگیں، اور ان کی حیثیت
سمندر کے جھاگ کے مانند ہوگئی، اس وقت سے لے کر آج تک صلیبی قوتیں ہمیں
مٹانے کے درپے ہیں ۔
دوستوں !امت مسلمہ کے آخری لوگوں کی اصلاح اسی سے ہوسکتی ہے جس سے ان کے
پہلوں کی اصلاح ہوئی ہے، اور کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ اس وقت تک نہیں
بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی اصلاح کی کوشش نہ کریں، اور نہ ہی اسباب کو
اپنائے بغیر اللہ کی مدد نازل ہوتی ہے۔
نصرت ِ الہی کے اسباب:
نصرت ِ الہی کے متعدد اسباب ہیں ،جنہیں اپنا کر ہی امت مسلمہ بحکم الہی
اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کرسکتی ہے،وہ اسباب مندرجہ ذیل ہیں :
[1] اللہ تعالیٰ پر ایمان اور عمل صالح:
اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے ساتھ نصر مبین کا وعدہ کیا ہے، وہ اس طرح کہ
دین کو غالب کرے گا اور دشمنوں کو ہلاک کردے گا،گرچہ ایک طویل مدت کے بعد
ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا
فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ،يَوْمَ لَا
يَنفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ
الدَّارِ}[غافر52،51]
(یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگائی دنیا میں بھی
کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے،جس دن ظالموں کو ان
کی( عذر)معذرت کچھ نفع نہ دے گی ان کےلئے لعنت ہی ہوگی اور ان کےلئے بُرا
گھر ہوگا)
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے {وَكَانَ حَقّاً عَلَيْنَا نَصْرُ
الْمُؤْمِنِينَ}[الروم47:]
(ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے)
نیز ارشاد ہے: {وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا
الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ
الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي
ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً
يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ
فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ}[النور55]
(تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ
تعالیٰ وعدہ فرماچکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان
لوگوں کو خلیفہ بنا یا تھا جو ان سے پہلے تھےاور یقیناً ان کے لئے ان کے اس
دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وہ پسند فرما چکا
ہے، اور ان کے اس خوف وخطر کو وہ امن وامان سے بدل دے گا، (اسلئے چاہئے کہ
)وہ میری عبادت کریں میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں، اس کے بعد بھی
جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں) اس وعدۀ الہی کا حصول دو
شرطوں کے ساتھ مشروط ہے،اول یہ کہ وہ اللہ کی توحید ایمان وعمل وصالح کو
اپنائیں،دوم یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى
الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً}[النساء141]
(اور اللہ تعالیٰ کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راہ نہ دےگا،یعنی غلبہ نہ
دےگا)
اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں :
(1) اہلِ اسلام کا یہ غلبہ قیامت والے دن ہوگا۔
(2) حجت اور دلائل کے اعتبار سے کافر مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتے۔
(3) کافروں کا ایسا غلبہ نہیں ہوگا کہ مسلمانوں کی دولت وشوکت کا بالکل ہی
خاتمہ ہو جائے۔ ایک صحیح حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے
(4) جب تک مسلمان اپنے دین پرعامل ، باطل سے نالاں اور منکرات سے روکنے
والے رہیں گے کافر ان پرغالب نہ آسکیں گے،امام ابن العربی فرماتے ہیں کہ
"یہی معنی سب سے عُمدہ ہے"کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{وَمَا
أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن
كَثِيرٍ }[الشورى30](اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے، سو تمہارے اپنے
فعلوں کی وجہ سے اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے)، گویا کہ
مسلمانوں کی مغلوبیت ان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔
اللہ کے ولی کون ہیں ؟:
متقی وپرہیزگار ایمان والے ہی اللہ کے ولی اور اس کے دوست ہیں، اور اللہ
تعالیٰ اپنے اولیا٫ کی نصرت وتائید ، ان کی حفاظت اور ان کی طرف سے دفاع
کرےگا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {اللّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُواْ يُخْرِجُهُم
مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوُرِ }[البقرة257]
(ایمان لانے والے والوں کا کارساز اللہ تعالیٰ خود ہے، وہ انہیں اندھیروں
سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے)
نیز ارشاد ہے: {ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ
الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ }[محمد11]
(وہ اس لئے کہ ایمان والوں کا کارساز خود اللہ تعالیٰ ہےاور اس لئےکہ
کافروں کا کوئی کارساز نہیں )
نیز ارشادہے: {إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا}[الحج38]
(سن رکھو!یقیناً سچے مومنوں کے دشمنوں کو خود اللہ تعالیٰ ہٹا دیتا ہے)
اور حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:" من عادى لي وليا فقد
آذنته بالحرب"(بخاری)
" کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان ِ جنگ ہے"
[2] اللہ کے دین کی مدد کرنا،اور اعتقاد وعمل کے ساتھ دین کی دعوت دینا،
مدد کے اہم اسباب میں سے ہے:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا
اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ،وَالَّذِينَ كَفَرُوا
فَتَعْساً لَّهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ }[محمد8،7]
(اے ایمان والو!اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا
اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا، اور جو لوگ کافر ہوئے انہیں ہلاکی ہو، اللہ ان
کے اعمال غارت کردے گا)
اللہ کے اس اہم وعدہ میں دو اہم باتوں کی ضمانت ہے:
1) میدان ِ جنگ میں نصرت ومعونت۔
2) اعدا٫ اسلام کی ذلت ورسوائی ، اور ان کے اعمال کی بربادی۔
مومنوں کے ساتھ اللہ کا وعدہ مشروط ہے:
اللہ نے اہلِ ایمان سے ان دو چیزوں کا وعدہ کیا ہے لیکن شرط یہ ہےکہ وہ
اللہ کی مدد کریں ،پھر اور اللہ کی مدد کا کیا معنی ہے؟ ، اللہ نے دوسری
آیت میں اس کو واضح کیا ہے۔
ارشاد الہی ہے: {وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ
لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ،الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا
الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ
الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ}[الحج41،40]
(اور جو اللہ کی مدد کرے گا، اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا،بے شک اللہ
تعالیٰ بڑی قوتوں والا ، بڑے غلبے والا ہے، یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین
میں ان کے پاﺆں جمادیں تو پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوتیں دیں
اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور بُرے کاموں سے منع کریں ،اور تمام کاموں کا
انجام اللہ کے اختیار میں ہے)
اس آیت کریمہ میں اللہ کی مدد حاصل کرنےکےلئے چار اوصاف بتلائے گئے ہیں :
1/ اقامت ِ نماز۔
2/ زکٰوۃ دینا۔
3/ بھلی باتوں کا حکم دینا۔( )
4/ بُری باتوں سے منع کرنا۔( )
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى
الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ
وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ } [آل عمران104]
(تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئیے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک
کاموں کا حکم کرے اور بُرے کاموں سے روکے، او ر یہی لوگ فلاح ونجات پانے
والے ہیں )
نیز ارشاد ہے: {لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى
لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُواْ
يَعْتَدُونَ ، كَانُواْ لاَ يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ
مَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ }[المائدة79،78]
(بنی اسرائیل کے کافروں پر (حضرت)داؤد(علیہ السلام)اور (حضرت)عیسی بن مریم
(علیہ السلام)کی زبانی لعنت کی گئی، اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے
تھےاور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے،آپس میں ایک دوسرے کو بُرے کاموں سے جو وہ
کرتے تھے روکتے نہ تھے،جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وہ بہت بُرا تھا)
سورۀ حج کی مذکورہ دونوں آیتوں میں اسلامی حکومت کے بنیادی اہداف ومقاصد
بیان کئے گئے ہیں ،جنہیں خلافتِ راشدہ اور قرنِ اول کی دیگر اسلامی حکومتوں
میں بروئے کار لایا گیا اور انہوں نے اپنی ترجیحات میں ان کو سرِ فہرست
رکھا، تو ان کی بدولت ان حکومتوں میں امن وسکون بھی رہا،رفاہیت وخوشحالی
بھی رہی اور مسلمان سر بلند اور سرفراز بھی رہے۔( )
[3] وسائل وذرائع کو اپنانے کے ساتھ ساتھ اللہ پر مکمل بھروسہ کرنا،اور
اسلامی فوج کی تیاری میں ذمہ داروں کے مابین مشورہ کرنا:
اللہ پر توکل و اعتماد ہر صورت میں لازم ہے،واضح رہے کہ توکل کی بنیاد دو
بڑے ستون پر قائم ہے:
1- اللہ پر کامل بھروسہ ، اور نصرت ِ الہی پر مکمل یقین واعتماد۔
2- جائز ومفید وسائل وذرائع کو اپنانا۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم
مِّن قُوَّةٍ }[الأنفال60]
) ہر وہ چیز جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے وہ بھلی باتیں ہیں،
اور ان میں سب سے بنیادی چیز توحید ہے۔
) ہر وہ چیز جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے،بُری باتیں ہیں، اور
ان میں سب سے خطرناک شرک ہے۔
) آج بھی سعودی عرب کی حکومت میں بحمد للہ ان چیزوں کا اہتمام ہے، تو اس کی
برکت سے وہ اب بھی امن وخوشحالی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اور مثالی
مملکت ہے۔
آج کل اسلامی ملکوں میں (سوائے سعودی عرب کے)فلاحی مملکت کے قیام کا بڑا
غلغلہ اور شور ہے، اور ہر آنے جانے والا حکمراں اس کے دعوے کرتا ہے، لیکن
ہر اسلامی ملک میں (سوائے سعودی عرب کے)بد امنی، فساد ، قتل و غارت دن بدن
بڑھتی جارہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سب اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کو
اختیار کرنے کے بجائے مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کے ذریعہ سے فلاح
وکامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو آسمان میں تھگلی (پیوند)لگانے اور ہوا کو
مٹھی میں لینے کے مترادف ہے۔ جب تک مسلمان مملکتیں قرآن کے بتلائے ہوئے
اصول کے مطابق اقامت صلاۃ وزکوۃ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا اہتمام
نہیں کریں گی،اور اپنی ترجیحات میں اس کو سرِ فہرست نہیں رکھیں گی ، وہ
فلاحی مملکت کے قیام میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔
(تم ان کے مقابلے کےلئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو)
اور فرمان ہے:{إِن يَنصُرْكُمُ اللّهُ فَلاَ غَالِبَ لَكُمْ وَإِن
يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ وَعَلَى اللّهِ
فَلْيَتَوَكِّلِ الْمُؤْمِنُونَ }[آل عمران160]
(اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ
تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے؟ایمان والوں کو اللہ
تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئیے)
ایک اور جگہ ارشاد ہے: { فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّ
اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ }[آل عمران159]
(پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں بے شک اللہ
تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمال عقل اور درست رائے کے باوجود اللہ کے حکم
کی اتباع کرتے ہوئے ،اور اپنے ساتھیوں کا دل رکھنے کی خاطر ان سے مشورہ
کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ }[آل عمران159]
(اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں)
[4] دشمن سے ملاقات کے وقت ثابت قدمی:
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا لَقِيتُمْ
فِئَةً فَاثْبُتُواْ وَاذْكُرُواْ اللّهَ كَثِيراً لَّعَلَّكُمْ
تُفْلَحُونَ} [الأنفال45]
(اے ایمان والو!جب تم مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہواور بکثرت اللہ
کو یاد کروتاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو)
عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:"أيها الناس،لا تتمنوا لقاء العدو وسلوا الله العافية، فإذا
لقيتموهم فاصبروا، واعلموا أن الجنة تحت ظلال السيوف"
(بخاري:2966ومسلم:1742)
"لوگو!دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش و تمنا دل میں نہ رکھا کرو، بلکہ اللہ
تعالیٰ سے امن وعافیت کی دعا کیا کرو، البتہ جب دشمن سے مڈ بھیڑ ہو ہی جائے
تو پھر صبر واستقامت کا ثبوت دو، یا د رکھو کہ جنت تلوار کے سائے تلے ہے"
[5] دشمن سے مڈ بھیڑ کے وقت شجاعت وبہادری اور ہمت سے کا لینا، اور یہ یقین
کرنا کہ موت کو نہ کوئی چیز آگے کرسکتی ہے اور نہ پیچھے کرسکتی ہے:
اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے بارے میں فرمایا: {يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا
مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي
بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى
مَضَاجِعِهِمْ}[آل عمران154]
(کہتے ہیں کہ اگر ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ کئے جاتے، آپ کہ
دیجئے کہ گو تم اپنے گھروں میں ہوتے پھر بھی جن کی قسمت میں قتل ہونا تھا
وہ تو مقتل کی طرف چل کھڑے ہوتے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر اور دشمن سے
ملاقات کے وقت سب سے زیادہ طاقت ور تھے۔ حضرت برا٫ بن عازب رضی اللہ عنہ کا
بیان ہے :
"اللہ کی قسم جب میدان گرم ہوتا تو ہم اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
آڑ میں بچاتے، اور ہم میں بہادر وہ ہوتا جو میدان ِ جنگ میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے برابر رہتا(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوتا)"(مسلم
ح:4616)
[6] دشمن سےمڈ بھیڑ کے وقت زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر اور دعا کرنا:
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا لَقِيتُمْ
فِئَةً فَاثْبُتُواْ وَاذْكُرُواْ اللّهَ كَثِيراً لَّعَلَّكُمْ
تُفْلَحُونَ} [الأنفال45]
(اے ایمان والو!جب تم مخالف فوج سے بھڑ جاﺆتو ثابت قدم رہواور بکثرت اللہ
کو یاد کروتاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو)
نیز ارشاد ہے: {إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي
مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُرْدِفِينَ}[الأنفال9]
(اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے،پھر اللہ تعالیٰ نے
تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے
آئیں گے)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں اپنے رب سے بکثرت دعا کرتے اور اس سے
مدد چاہتے تھے ، آپ کی عمومی دعا یہ ہوتی:
"اے اللہ !کتاب کے نازل کرنے والے،بادل بھیجنے والے،دشمن کے دستوں کو شکست
دینے والے،انہیں شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر"(بخاری:2966)
[7] اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم پکڑنا،اور آپسی اختلاف اور معصیت
سے بچنا:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ
تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ
اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ }[الأنفال46]ا
(اور اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو، اآپس میں اختلاف نہ
کرو ورنہ بزدل ہوجاﺆگے اور تمہاری ہواکھڑ جائے گی اور صبر وسہار
رکھو،یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)
[8] امیر کی اطاعت کرنا اور سے بچنا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:"من أطاعني فقد أطاع الله، ومن عصاني فقد عصى الله، ومن أطاع
أميري فقد أطاعني، ومن عصى أميري فقد عصاني"(بخاري:7137ومسلم:1835)
"جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ اطاعت کی،اور جس نے میری نافرمانی کی اس
نے اللہ کی نافرمانی کی ،اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت
کی،اورجس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی"
[9] جہاد کی مشقتوں کو برداشت کرناخاص طور پر دشمن سے مڈ بھیڑ کے وقت:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ
وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
}[آل عمران200]
(اےایمان والو!تم ثابت قدم رہواور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لئے
تیار رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو)
اور ارشاد ہے:{وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ
كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُواْ لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَمَا
ضَعُفُواْ وَمَا اسْتَكَانُواْ وَاللّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ}[آل
عمران146]
(بہت سے نبیوں کے ہم رِکاب ہو کر بہت سے اللہ والے جہاد کرچکے ہیں ، انہیں
بھی اللہ کی راہ میں تکلیفیں پہنچیں لیکن نہ تو انہوں نے ہمت ہاری نہ سست
رہےاور نہ دبے، اور اللہ صبر کرنے والوں کو (ہی)چاہتا ہے)
اور مسند احمد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ
سے فرمایا:
"واعلم أن في الصبر على ما تكره خيراً كثيراً، وأن النصر مع الصبر وأن
الفرج مع الكرب، وأن مع العسر يسرا"(مسند أحمد:2803)
"جان لوکہ جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے اس پر صبر کرنے میں بہت زیادہ بھلائی
ہے،اور یقیناً مددصبر کے ساتھ ہے،اورآسانی پریشانی کے ساتھ ہے، اور آسانی
مشکل کے ساتھ ہے"
[10] اخلاص :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ
رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُواْ لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ
وَمَا ضَعُفُواْ وَمَا اسْتَكَانُواْ وَاللّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ}[آل
عمران146]
(بہت سے نبیوں کے ہم رِکاب ہو کر بہت سے اللہ والے جہاد کرچکے ہیں ، انہیں
بھی اللہ کی راہ میں تکلیفیں پہنچیں لیکن نہ تو انہوں نے ہمت ہاری نہ سست
رہےاور نہ دبے، اور اللہ صبر کرنے والوں کو (ہی)چاہتا ہے)
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
سےپوچھا گیا،آدمی مالِ غنیمت کےلئے قتال کرتا ہے، ایک آدمی شہرت کےلئے قتال
کرتا ہے، ایک شخص جنگ میں شرکت کرتاہے تاکہ اس کی بہادری کی دھاک بیٹھ
جائے، تو ان میں سے اللہ کےراستے میں کون لڑتاہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:"جو شخص اس ارادہ سے جنگ میں شریک ہو تاکہ اللہ ہی کا کلمہ بلند
رہے، صرف وہی اللہ کے راستہ میں لڑتا ہے"(بخاری:2810)
دوستوں!مذکورہ ان اسباب کو جب ہم اپنائیں گےتبھی جاکر اللہ کی مدد کے مستحق
ہوسکتے ہیں ،یہ اللہ کی سنت ہے اور اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی ،اللہ نے
اہلِ ایمان سے جو وعدہ کیا ہے وہ یقیناً پورا ہوگا،اگر موجودہ حالات میں
اللہ کی مدد نہیں آتی تو اس کے ذمہ دار خود مسلمان ہیں ،اگر وہ اپنا محاسبہ
کریں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ وہ اسلام سے بہت دور رہ کر زندگی بسر کررہے
ہیں ،کثرت وقلت سے مدد کا کوئی واسطہ نہیں ،آج صورت ِ حال یہ ہے کہ اکثر
اسلامی ملکوں میں شرک وبدعات کے جھنڈے نصب کئے جارہے ہیں ، حکومت کے سائے
میں شرک اور بدعت کی پرورش ہوتی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں ہزار
وں کی تعداد میں مزارات ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے!!!
ایک طرف مسلمانوں کا یہ حال ہےاور دوسری طرف ولا٫ اور برا٫ (دوستی اور
دشمنی)کا جو عقیدہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے سکھلایا تھا ہم نے اس کے
معانی بدل دئے،آج کے بعض مسلمان ان کوتو اپنا دشمن سمجھتے ہیں جو توحید کی
طرف لوگوں کو بلاتے اور شرک وبدعات سے روکتے ہیں ، اور ان کو اپنا دوست
سمجھتے ہیں جو صحابہ کرام پر لعن وطعن کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں، یہ اور ان جیسے لوگوں سے اگر دوستی کریں تو نصرت
الہی کا کیوں انتظار کریں؟
(اے اللہ ہمیں حق کو حق سمجھ کر اس پر عمل کرنے ، اور باطل کو باطل سمجھ کر
اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما) |