بلجیم کے دارالحکومت برسلزمیں دھماکوں کے بعد قیامتِ صغری

بلجیم کے دارالحکومت برسلزمیں دھماکوں کے بعد قیامتِ صغریٰ،یورپی ممالک اور اُمتِ مسلمہ آج یورپی دنیا طالبان اور داعش جیسے اپنے ہی پیداکردہ دہشت گردوں کی لگائی ہوئی آگ او رحملوں کی زد میں ہے کیوں؟؟؟
آج دہشت گرد ساری دنیا میں ناگوار بُوکی طرح پھیل چکے ہیں ،اَب اِن حالات میں کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہاجاسکتاہے کہ دنیا سے دہشت گردی کے خطرات ختم کردیئے گئے ہیں ،موجودہ صورتِ حال میں اِس قسم کا دعویٰ جو بھی کرے گا اور کہیں سے بھی آئے گاتویہ اندھے کا خواب ہوگا۔

ہاں ، البتہ یہ ضرور ہے کہ ہر دہشت گردی کے واقع کے بعد ہائی الرٹ رہ کر سیکورٹی کے سخت اقدامات کرکے کچھ عرصہ تو ضرور محفوظ رہاجاسکتاہے مگر دنیاکے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور واقعات کے پیشِ نظر اِس کا بھی یقین کرلینالازمی ہوگاکہ دہشت گرد پہلے سے زیادہ جدیداور منظم انداز سے دہشت گردی پھیلارہے ہیں اور دہشت گردی جدیدخطوط سے کرکے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کررہے ہیں بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں 7بم دھماکے اِس کی ایک تازہ مثال ہیں جس میں دہشت گردوں نے انتہائی مہارت کے ساتھ ائیرپورٹ پر امریکی کاونٹر کے قریب2دھماکے کئے پھر ایک گھنٹے بعد میڑواسٹیشن پر 4دھماکے، صدارتی محل کے قریب بھی ایک بم پھٹا، خبر ہے کہ دھماکوں کے بعد بھگڈرمچ گئی تھی اور جائے واقعات قیامتِ صغریٰ کے مناظر پیش کررہے تھے اِن واقعات میں کم ازکم 40افراد ہلاک اور225کے قریب افراد زخمی ہوئے وزیراعظم بلجیم نے 22مارچ 2016کو سیاہ ترین دن قرار دیاہے، تاہم بلجیم میں ہونے والے دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں اور زخمی ہونے والے افراد سے عالمی برادری نے جہاں اظہاریکجہتی کی ہے تو وہیں دنیانے بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں دہشت گردی سے ہونے والے نقصانات پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کی پُرزور مذمت کی ہے اور ایسے واقعات کو دنیا کے امن اور سکون کو تباہ کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے دہشت گردوں اور دہشت گردی کے تدارک کے لئے بھی سخت ترین اقدامات کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

اگرچہ اِس صورتِ حال میں کہ جب ساری دنیا دہشت گردی کا شکار بن رہی ہے ایسے میں اگر ایک لمحے کوذرایہ سوچیں جوظلم پہ لعنت نہ کرے وہ آپ لعین ہوتاہے مگر جس نے یعنی امریکااور برطانیہ اور اِن کے ہم خیال ممالک نے اپنے مفادات کے حصول کے خاطر زمینِ خداپر فسادات برپا کرنے کے لئے(دہشت گرد ون جن میں بالخصوص طالبان اور داعش جیسے دیگرعناصراور) ظالموں کو پیداکیا ہواور اِن کی دوسرے ممالک کے اِنسانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے دامِ دھرمِ اور سُخنِ یعنی اپنیتن من دھن سے مدد بھی کی ہوبتائیں ایسے لوگوں پر کتنابڑا عذاب ہوگا؟؟۔

آج اِ س میں کوئی شک نہیں ہے کہ یورپی دنیا طالبان اور داعش جیسے اپنے ہی پیداکردہ دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہے،اِس کی خاص وجہ یہ ہے کہ پہلے مغرب نے دنیا کے اسلامی اور دیگر ممالک میں تباہی پھیلانے کے لئے دہشت گرد پیداکئے اور اِن دہشت گردوں کی ہر طرح حتی کہ اِنہیں مہلک ہتھیار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اِن کی مالی معاونت بھی کی مگر آج جب مغرب کے اپنے ہی پیداکردہ یہ دہشت گرد اِس کی اپنی ہی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یورپ میں حملہ آور ہیں توان حملوں میں یقینی طور پر وہ لوگ بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جنہوں نے طالبان اور داعش جیسے دہشت گردوں کو پیداکیا ہے یعنی کہ آج تک امریکا، لندن اور پیرس کے بعد بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں طالبان اور داعش والوں نے جتنی بھی دہشت گردی کی ہے جہاں اِن دہشت گرد واقعات کے درپردہ ذمہ دارطالبان اور داعش ہیں تو وہیں اُتنے ہی ذمہ دار امریکا اور لندن بھی ہیں کیونکہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکانے طالبان دہشت گرد بنائے ہیں اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر تو پہلے ہی یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ’’ عراق تنازع کے معاملے میں داعش دہشت گردوں کو پیداکرنے میں یہ خود ذمہ دار ہیں‘‘ ۔

سو آج جہاں یورپی ممالک اپنے یہاں ہونے والی ہرقسم کی دہشت گردی کا ذمہ دار طالبان اور داعش کو قرار دے رہے ہیں اورگاہے بگاہے اپنے یہاں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار طالبان اور داعش کو قرار دیتے ہیں اور وہیں دہشت گردوں کے خلاف سخت ترین اقدامات کوبھی یقینی بناتے ہیں تو ایسے میں یورپی دنیا کواِن دہشت گردوں کو پیداکرنے والے ممالک کے ذمہ داران کے خلاف بھی سخت ترین اقدامات اور سزائیں ضرور مرتب کرنی ہوں گیں جن کی وجہ سے دنیامیں طالبان اور داعش جیسے خطرناک دہشت گرد پیداہوئے ہیں اَب یہ فیصلہ دنیا بالخصوص اِن دِنوں طالبان اور داعش دہشت گردوں کے ہولناک حملوں کی زد میں آئی یورپی دنیا کو چاہئے کہ وہ یہ سوچے اور فیصلہ کرے کہ اَب اپنی بقا ء اور سالمیت کے خاطر اُسے کیا کرناہے اور کس کس کے خلاف حقیقی معنوں میں کیا کچھ کرناہے؟؟۔

آج بیشک، طالبان اور داعش کو پیداکرنے والے ترقی یافتہ ممالک نے دہشت گردی کو ایک عالمی مسئلہ بنادیاہے ، اِس صورتِ حال میں ہر قدم اور ہر سانس پرخطرات سے دو چاردنیا چاہے جتنی بھی ترقی کیوں نہ کرلے؟؟ مگر اَب جب تک عالمی طاقتیں باہم و متحد اور منظم ہوکرسرزمینِ خداکے ایک ایک انچ سے دہشت گرد اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں کرلیتی ہے ہر لمحہ اِس کی بقا ء و سا لمیت اور استحکام پرسُرخ اور بڑاسوالیہ نشان لگاہی رہے گاکیونکہ آج دہشت گردی دنیا کے ترقی پذیر اور غربت جیسے مسائل و پریشانیوں اور بحرانوں سے گھیرے ممالک سے نکل کر ترقی یافتہ اور ایٹمی ممالک تک میں پھیل چکی ہے ایسے میں یقینی طور پر دنیا کا کوئی ملک اور کوئی کونابھی ایسانہیں ہے جِسے دہشت گردوں کی دہشت گردی سے کسی بھی صورت محفوظ قرار دیاجاسکے،۔

اَب چونکہ دہشت گردی عالمی مسئلے کی شکل اختیارکرچکی ہے اِیسے میں دیکھنا یہ ہے کہ دنیا دہشت گردی جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لئے کتنی سنجیدہ ہے؟؟ اور یہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کس حد تک کیسے اقدامات کرسکتی ہے؟؟ آیاکہ آنے والے وقتوں میں کیا عالمی برادری صرف ترقی یافتہ ممالک سے ہی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سنجیدہ ہوگی ؟؟یا یہ پوری دنیابشمول ترقی پزیراور غربت کی دلدل میں دھنسے ممالک سے بھی دہشت گردوں اور دہشت گردی کے جڑ سے خاتمے کے لئے عالمی سطح پر دیر پااقدامات اُٹھائے گی؟؟یاامریکااور لندن سمیت ساری یورپی دنیا اورمغرب کے ممالک طالبان اور داعش کے دہشت گردو ں کو چھوڑچھاڑ کرہمیشہ کی طرح اِس بار بھی اپنا سارانزلہ مسلم ممالک پر گرادیں گے؟؟ مسلم اُمہ کے خلاف سازشی جال پھیلاکر اُمتِ مسلمہ کی ترقی و خوشحالی پر پابندی لگاکرزمین تنگ کردیں گیں؟؟دیکھتے ہیں کہ آگے کیا کچھ ہوتاہے ؟؟اور کون کس کے خلاف کیا کرتاہے؟؟؟۔

بہرحال،جب 13نومبر2015کو پیرس میں دہشت گردوں کے ہونے والے حملے میں لگ بھگ 130افراد کی ہلاکت ہوئی تھی اِس واقع کے بعددہشت گردی کے خطرات بدستور برقرار تھے، اگرچہ یورپی دنیا میں سیکورٹی کے فول پروف اقدامات ضرور کئے گئے تھے مگر پھر بھی22مارچ 2016بروز منگل بلجیم کے دارالحکومت برسلزمیں مختلف اور اہم ترین مقامات جن میں نیٹو اور یورپی یونین کے ہیڈکوارٹرز کے قریب واقع میٹرواسٹیشن اور ائیر پورٹ شامل ہیں یہاں پردہشت گرد حملوں اور بم دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم 40افراد ہلاک اور225کے قریب افراد زخمی ہوئے،جس کے بعد برسلز میں ہنوز خوف و ہراس کی فضا برقرار ہے اور فوج طلب کرلی گئی ہے، ائیرپورٹ اور تمام میٹرواسٹیشن سمیت ٹرانسپورٹ بند اور پروازیں پوری طرح سے معطل ہیں اور ہر قسم کے معاملات زندگی مفلوج ہوکررہ گئے ہیں اگرچہ بلجیم کے دارالحکومت میں برپاہونے والی اِس قیامتِ صغریٰ کی ذمہ داری شدت پسندتنظیم داعش نے قبول کرلی ہے تو اَب اِس پر امریکااور لندن کو داعش کے خلاف ہی قدم اُٹھانالازمی ہوگیاہے جس کے لئے ساری دنیابشمول مسلم ممالک بھی یورپی دنیاکا ساتھ دیں گے مگر اِس کے باوجود بھی یورپی ممالک نے ساری اُمتِ مسلمہ کو ہی قصوروار گردانااور دہشت گردوں کو چھوڑ کرعالمِ اسلام کے خلاف کوئی ایسے ویسے اقدامات کئے توپھرعالمِ اسلام کے لئے یورپی دنیاکا یہ عمل کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ہوگااِس کی اُمتِ مسلمہ ہر طرح سے پُرزور مذمت کرے گی۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972320 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.