کہتے ہیں کہ صبح کا بھولا اگر رات کو گھر
واپس آئے تو اسے بُھولا نہیں کہتے لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ Once a thief is
Always a thief))کہنے کا مطلب یہ ہے ہم کبھی کھبار تصویر کا ایک رُح دیکھتے
ہیں اور دوسرا روح دیکھنا ہی نہیں چاہتیـ‘اسی وجہ سے ہماری قوم بہک جاتی
ہیں اور اپنا کاندیکھنے بجائے کُتے کی پیچھے دوڑنا شروع کر دیتی ہیں‘گزشتہ
کئی دنوں سے مصطفی کمال صاحب کی ملک واپسی اور نئی پارٹی بنانے کی خبریں
گردش کررہی تھیں‘مصطفی کمال کراچی کے سابق ناظم اور تعلق ایم کیو ایم سے
تھا‘اسی سال انہوں نے ایم کیو ایم چھوڑ دیا اور ایک الگ جماعت بنانے کا
اعلان کیا‘سیاسی جماعت کا نام رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے
کہا کہ ہم کراچی میں کوئی سیاسی قوت یا کسی اقتدار چھینے نہیں بلکہ پاکستان
اور حصوصـّاکراچی کی خدمت کرنے آئے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ موصوف یہ
بھول گیاکہ ملک اور کراچی کی خدمت پارٹی بنانے کی بغیربھی کیا جا سکتا ہے
لیکن بلّی خُدا کیلئے چوہے کو تھوڑی نہ مارتا ہے‘انہوں نے عوام کوراغب کرنے
کیلئے طرح طرح کے سیاسی حربے استعمال کرنا شروع کئے اور انہیں کافی حد تک
کامیابی بھی ملی‘نئی پارٹی بنانے کی وجہ صاف ظاہرہے کہ موصوف سوچتا ہے کہ
ایم کیو ایم کو چھوڑنے سے اسکی ساری کیسیں بند ہوسکتی ہیں ‘موصوف آج کل
لوگوں کی نظروں میں ہیرو بنتا جا رہا ہے اور یہ ہماری لئے کوئی نئی بات
نہیں کیونکہ جب ہماری قوم کی نظروں میں فیصل رضا عابدی (جسکی ماضی سے سب
واقف ہیں) ایک تقریر کیوجہ سے ہیرو بن سکتا ہے تو کمال صاحب کیوں نہیں بن
سکتا ہے؟
اب شرمین عبید کی طرف آتا ہوں‘شرمین عبید چنائے1978ء کو کراچی میں پیدا
ہوئی‘انہوں نے اپنی پہلی فلم "Saving Face"کی وجہ سے مقبولیت حاصل کی‘اس
فلم کیلئے انہوں نے 2012ء میں آسکر ایوارڈ جیتا تھا‘پھر اسکی دوسری فلم "A
girl in the river"جو کافی مشہور ہوا اور انہیں اس فلم کیلئے بھی آسکر
ایوارڈ دیا گیا‘انہوں نے اس فلم میں ـغیرت کے نام پرقتل کا مسئلہ اُجاگر
کیا ہے‘میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ ایک پاکستانی عورت
نے دو مرتبہ آسکر ایوارڈجیتا اور پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم صاحب نے بھی
انہیں دوسری مرتبہ آسکر ایوارڈ جیتنے پر مبارکباد دی‘حیرت اس بات پر ہو رہی
تھی کہ کیوں کبھی کسی نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور جنرل راحیل شریف جو کہ
پوری دُنیا میں چرچا رکھنے والا بہادر جرنیل ہے کو نہیں دیا‘پھر مجھے فلم
دیکھنے کی آرزو ہوگئی اور فلم دیکھنے کیبعد مجھے جتنا غصہ آیا ‘ لفظوں میں
بیان کرنے سے قاصر ہوں‘اور غصہ کیوں نہ آتا ‘ انہوں نے فلم میں جسطرح ملک
کی عزت کا جنازہ نکالا ہے شائد کوئی نکال سکے‘لیکن پاکستانی میڈیا نے
آنکھوں پر پٹی لگا کر شرمین صاحبہ کو آسمان تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی‘افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام کیساتھ ساتھ پاکستانی صدر اور وزیر اعظم
صاحب نے بھی فلم کو سراہا۔
اب کرکٹ کی طرف آتا ہوں‘جب سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف نے ملک کیساتھ
غداری کی تو ہماری قوم نے انہیں بُہت گالیاں دی تھی‘کچھ لوگوں کا خیال تھا
کہ کامران اکمل بھی اس غداری میں ملوث تھا لیکن کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
کہ
رشوت لیتے ہوئے پکڑے گئے ہو
رشوت دیکر چوٹ جا!!!!!!
اب عمر اکمل، احمد شہزاد اور شعیب ملک کی ملک سے غداری کی خبریں گردش میں
ہیں اور انہیں بھی قوم کی طرف سے گالیاں مل رہی ہیں لیکن بہت جلد لوگ ان کی
غداری کو بھی بھول جائینگے کیونکہ جب ہم نے آج کل ایک غدار محمد عامر کو
اپنا ہیرو بنایا ہے تو اس کی کیا گارنٹی ہے کہ کل ہم پھر سے ان تینوں کو
اپنا ہیرو نہیں بنائینگے؟؟میرا خیال ہے کہ سلمان بٹ جیسا غداربہت جلد ٹیم
میں آکر کپتان بن جائے گا اور ہم کچھ نہیں کر پائینگے بلکہ انہیں سپورٹ بھی
کرینگے اور اپنا ہیرو بھی بنائینگے کیونکہ ہم قوم نہیں ہجوم ہیں‘اب اگر
محمد عامر، مصطفی کمال، فیصل رضا عابدی اور شرمین عُبید جیسے لوگ ہماری قوم
کی ہیرو ہیں توسمجھئے کہ ہمارا مستقبل بہت روشن ہے۔ |