سعودی عرب کی جانب سے غزہ کے مظلموں کیلئے 31.8ملین ڈالر امداد

مملکت سعودی عرب اس سال اپنے بجٹ میں خسارہ کے باوجود عالمی سطح پر جس طرح فلسطین اور دیگر ممالک کے عوام کیلئے کسی بھی مصیبت کے موقع پر امداد فراہم کرتا ہے اس سال بھی سعودی عرب نے اپنے خسارہ بجٹ کے باوجود فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں دو سال قبل اسرائیل کی مسلط کردہ خطرناک فضائی حملوں کے نتیجے میں تباہ ہونے والے مکانات کی تعمیر نوکے لیے 31.8 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ امداد اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی کے ذریعے خرچ کی جائے گی۔ فلسطینی مرکزاطلاعات کے مطابق غزہ کی پٹی میں فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کیلئے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی اونروا کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حال ہی میں اونروا اور اقوام متحدہ کے امدادی ادارے یو این ڈی پی کے درمیان ایک یاداشت پر دستخط کیے گئے۔ مفاہمتی یاداشت میں کہا گیا ہے کہ اونروا اور یو این کا ترقیاتی ادارہ مل کر سعودی عرب کی جانب سے فراہم کردہ31.8 ملین ڈالر کی امداد سے غزہ میں جنگ سے تباہ ہونے والے مکانات کی دوبارہ تعمیر کریں گے ، سعودی عرب کی جانب سے فراہم کردہ امداد سے غزہ کی پٹی میں جنگ سے تباہ ہونے والے 5 ہزار مکانات کی تعمیر میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ سعودی امداد سے غزہ میں تین اسکولس بھی تعمیر کیے جائیں گے۔غزہ کے مظلموں کے لئے سعودی عرب کی جانب سے جو امداد دی گئی ہے اس کا صحیح طرح استعمال بے حد ضروری ہے کیونکہ غزہ کی پٹی میں پہنچائی جانے والی امداد اسرائیلی مقبوضہ راستوں سے گزرتی ہے اور اسرائیلی حکومت اور اسرائیلی فوج ان امدادی سازو سامان اور دیگر اشیاء ترسیل میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں یا ان پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے ان امدادی ادارے اور خود سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کی جانب سے ایک بااثر کمیٹی بنائی جائے تاکہ فلسطین اور غزہ کی پٹی کے لئے بھیجی جانے والی امداد مستحقین اور مظلموں تک پہنچ سکے۔

یمن کے شہر تعز میں خوراک اور امداد، فوجی سازو سامان کی ترسیل
سعودی عرب نے یمن کے اقتدار کو بحال رکھنے اور حوثی باغیوں کی جانب سے سنی مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے جو اقدامات کئے اور باغیوں کو کمزورکرکے متاثرہ شہریوں تک خوراک اور امدادی ساز و سامان پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ یمن کے جنگ زدہ شہر تعز میں متاثرہ شہریوں کے لیے خوراک اور امدادی سامان کے ساتھ ساتھ بھاری مقدار میں فوجی سازو سامان کی کھیپ بھی پہنچا دی گئی ہے جسے حکومتی فوج اور اس کی حامی ملیشیا، حوثی باغیوں کے خلاف لڑائی میں استعمال کر سکے گی۔ سعودی خبر رساں ادارے کے مطابق عرب اتحادی ممالک کی جانب سے تعز میں مزید فوجی ساز و سامان ارسال کیا گیا ہے تاکہ شہر کے مشرقی علاقوں الحوبان اورالجند سمیت دیگر مقامات پر لڑائی کے دوران حکومتی فورسز کی مدد کی جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تعز کا محاصرہ توڑنے کے بعد عدن اور تعز اور صنعا اور تعز کے درمیان اب گورنری کے راستے رابطہ سڑکیں بحال کر دی گئی ہیں۔ یمن میں باغی کسی نہ کسی مقام پر حکومتی فوج سے ٹکراؤ پر ہے۔ادھر تعز شہر کے مشرقی حصے میں شاہراہ 60 پرحکومتی فوج اور باغیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ کی اطلاعات ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یمن کی نیشنل آرمی اور مزاحمت کاروں نے منگل کے روز حملوں میں حوثی باغیوں کے 22 جنگجو ہلاک کر دئے۔مشرقی تعز میں جہاں یمنی فوج زمینی پیش قدمی کر رہی ہے عرب اتحادی طیاروں کے ذریعے بھی باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی ہے۔ گذشتہ دنوں مشرقی تعز میں تب السلاسل، قصر الشعب، المتکامل اور صالہ ڈاریکٹوریٹ کے مقامات پر باغیوں کے ٹھکانوں پر عرب اتحادی طیاروں نے بمباری کر کے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری یا۰۰۰
ایک طرح سعودی عرب شام، یمن ، فلسطین میں مظلموں کی امداد کے لئے حتی المقدور کوشش کررہا ہے تو دوسری جانب ایران بھی شیعہ حکمرانوں اور شیعہ ملیشیاء کو مستحکم کرنے اور سنی حکمرانوں اور سنی عوام کے خلاف بغاوت اور دہشت گرد کارروائیاں انجام دینے والوں کی امداد کرنے کا الزام ہے اور یہ الزام ہی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی اطلاعات ہے جس کے سلسلہ میں سعودی عرب، امریکہ اور دیگر ممالک نے شواہد کی روشنی میں ایران کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔شام میں بشارالاسد کی حکومت کو بچائے رکھنے کے لئے ایران نے جس طرح ساتھ دیا اور یمن و عراق میں بھی ایران کے تعاون کی خبریں ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طرف سعودی عرب اور دیگر اتحادی ممالک مل کر دہشت گردی پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری جانب ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت اور حکمراں و باغیوں کی امداد دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے رکاوٹ بن رہی ہے۔ ایران بعض ممالک میں اپنی اجارہ داری چاہتا ہے اور اس سلسلہ میں وہ کسی نہ کسی طرح پیش قدمی بھی کرتاہے گذشتہ دنوں اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب غلام علی خوشرو نے افغانستان کے ساتھ پوری دنیا کے اقتصادی تعاون کی ضرورت پرزور دیا ہے۔ انہوں نے افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لینے کی غرض سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تشکیل پانے والے اجلاس میں کہا کہ ایران ہمیشہ افغانستان میں امن و استحکام اور اقتصادی ترقی کا خواہاں رہا ہے۔ غلام علی خوشرو نے کہا کہ ایران کا خیال ہے کہ افغانستان کو دہشت گرد گروہوں خاص طور سے طالبان اور داعش کے خلاف مہم اور اسی طرح اقتصادی طور پر کافی مسائل و مشکلات کا سامنا رہا ہے اس لئے عالمی برادری کا فرض بنتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف مہم اوراقتصادی مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لئے افغانستان کی حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔ انھوں نے کہا کہ ایران، افغانستان میں تمام دہشت گردانہ اقدامات کی مذمت اور اس ملک کے امن عمل کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ ایران کی جانب سے افغانستان کے مسئلہ پر اقوام متحدہ میں بات چیت سے ظاہر ہوتا ہیکہ ایران کسی نہ کسی طرح ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرے اور اپنی شناخت باقی رکھنے کے لئے دیگر اسلامی ممالک کے حالات کا جائزہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے سامنے پیش کرے۔

مصر کی حکومت غزہ کی پٹی کے شہریوں کو حج و عمرہ کی راہیں فراہم کریں
موجودہ الفتاح السیسی کی مصری حکومت کی جانب سے فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کی واحد بین الاقوامی رابطے کی گزرگاہ رفح کی بندش کے نتیجے میں دو سال سے غزہ کی پٹی کے شہری عمرہ کی ادائیگی سے محروم ہیں۔ فلسطین کے علاقہ غزہ کی پٹی کو دنیا سے براہ راست زمینی راستے سے ملانے والی واحد گزرگاہ رفح ہے جو مصر سے ملتی ہے۔2013میں مصر میں جمہوری منتخبہ صدر محمد مرسی کا تختہ فوجی بغاوت نے تختہ الٹنے کے بعد قاہرہ میں فوجی حکومت کے قیام کے بعد غزہ کے عوام کو بھی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا ۔ اخوان المسلمون کے ہزاروں احتجاجیوں کو جس طرح عبدالفتاح السیسی کی اقتدار میں قتل کیا گیا اور انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑرہی یہی نہیں سینکڑوں افراد کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے ۔ 2013کے بعد سے غزہ کے شہری حج و عمرہ کی سعادت سے محروم ہوچکے ہیں۔ فلسطینی مرکزاطلاعات کے مطابق غزہ میں حج وعمرہ سرویسز فراہم کرنے والی ٹورآپریٹرز کے چیئرمین عوض ابو مذکور نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ2014 کو مصری حکام نے غزہ کی پٹی سے متصل گزرگاہ بند کردی تھی جس کے بعدسے اب تک غزہ کی پٹی کے شہری عمرہ کی ادائیگی کیلئے حجاز مقدس نہیں جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ رفح گزرگاہ کی بندش حج و عمرہ پرپابندی کے مترادف ہے۔ایک سوال کے جواب میں عوض ابو مذکور کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزارت اوقاف اور حج وعمرہ سے رابطہ کیا تو وزارت حج کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ حکومت دو ہفتوں میں غزہ کے 1100 عازمین عمرہ کو بیرون ملک روانہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ گیارہ سو افراد نے اپنی رجسٹرڈ بھی کرادی ہے مگر رفح گذرگاہ کی بندش کے باعث ہم بے بس ہیں۔ابو مذکور کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور مصر کی جانب سے غزہ کی پٹی کے عوام کے بیرون ملک سفر پر عائد پابندیوں کے باعث فوری طورپر عمرہ سروسز کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمرہ سروسز کے معطل ہونے کے نتیجے میں سیکڑوں افراد بیروزگار ہوچکے ہیں۔فلسطینی حکومت کو چاہیے کہ وہ مصر کی حکومت اور سعودی عرب کی حکومت سے رابطہ کرکے ان عازمین حج و عمرہ کے مسئلہ کو حل کریں تاکہ اقوام عالم کے مسلمان جس طرح حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں غزہ کے مسلمان بھی آسانی سے حرمین شریفین تک پہنچ سکیں۔

اردنی پارلیمنٹ نے البترا صوبے میں یہودی املاک پرقبضے کا دعویٰ مسترد کیا
اسرائیل فلسطین پر ناجائز قبضہ جمانے کے بعد اردنی سیاحتی صوبہ البترا میں قابض ہونا چاہتے ہیں جس کے لئے اردنی ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت نے ملک کے جنوب میں واقع سیاحتی صوبہ البترا میں موجود املاک پر یہودیوں کے قبضے کا دعوی مسترد کردیا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ حکومت اسرائیلیوں کو اس بنا پرالبترا میں داخلے کی اجازت نہ دے کہ وہاں پران کی املاک موجود ہیں۔ البترا میں یہودیوں کی املاک کا کوئی وجود نہیں ہے۔خیال رہے کہ اردنی پارلیمنٹ کی جانب سے البترا میں یہودیوں کی املاک کے حوالے سے یہ موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں دو اسرائیلی یہودیوں کو البترا میں املاک حاصل کرنے سے روکا گیا تھا۔ اس پر رکن پارلیمنٹ نے ایوان کی انتظامی کمیٹی کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا اور انہوں نے سوال کیا تھا کہ آیا البترا میں یہودیوں کی تاریخی املاک موجود ہیں یا نہیں۔ عمان کے جنوب میں260 کلو میٹر کی دوری پر واقع صوبہ البتراکے تاریخی مقامات کو سنہ 2007 میں ساتواں عالمی عجوبہ قرار دیا گیا تھا جس کے بعد اسرائیل نے ان تاریخی مقامات کی ملکیت کا دعوی کردیا تھا۔اسرائیلیوں کا دعویٰ اردن میں شائد کامیاب نہ ہو لیکن اسرائیلی یہودی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ وہ اپنے دعویٰ میں کامیابی حاصل کریں ۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہاگر یہودیوں کو اردن میں قبضہ کے مواقع فراہم کئے گئے تو اردن کا حشر بھی فلسطین کی طرح ہوسکتا ہے اس لئے اردنی حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی بھی طرح یہودیوں کو جمنے نہ دیں۔
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 256132 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.