کہانی اپنے ہندوستان کی:قسط (9) ہندی ،ہندو، ہندوستان
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
ہمارا ملک ہند وستا ن اپنے روزِ اول ہی سے
نقادوں،نکتہ چینوں اور حرف گیروں کے سوالات کی زد میں رہا ہے، چنانچہ کسی
کو یہ خیال ہوا کہ جب ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، تو اس کا نام بھی جمہوری
ہی ہونا چاہیے ، نہ کہ ہندؤوں کے نام پر’ہندوستان‘،تو کوئی نادان یہ سمجھ
بیٹھا کہ ہندوستان ہندوراشٹر تھا اور ہے ، اسی لیے تو اس کو ہندوستان کہا
جاتا ہے نہ کہ’ مسلمانستان‘ بلکہ بعض برادرانِ وطن کو اس کا وہم ہوچلا ہے
اوروہ بسا اوقات اپنے قول وعمل سے اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ’’ہندی
ہندو ہندوستان ملا بھاگو پاکستان‘‘،جبکہ محققینِ لسانیات اور مؤرخین کی
اپنی ایک الگ داستان ہے ، تاہم یہاں ایک سوال ہمارے ذہن ودماغ کے پردوں پر
ضرور ابھرتا ہے کہ تاریخ کے پنوں میں ہندوستان کو جن ناموں سے بھی موسوم
کیا گیا ہے ، کیا ان کے پیچھے کسی مذہب، کسی مکان ومقام یا کسی قوم و
برادری کی طرف نسبت کا کوئی اثر ہے، یایونہی جس کو جب موقع ملا اس نے اس پر
اپنی وجود کا مہر ثبت کرنے کی ناکام کوشش کی؟ تودستورِ ہند کی دفعہ
ایک"India, that is Bharat, shall be a Union of States." میں ہندوستان کے
لیے صرف دوہی نام ’بھارت اور انڈیا‘ مذکورہے ، تاہم تاریخ کے مختلف مواقع
اور مختلف ادوار میں اس ملک کو’بھارت ورشا‘ (Bharat Varsha)’ جمبودویپا
‘(Jambu Dweepa) ’اجانبھا ورشا‘(AjaNabha Varsha) ’اریاورتا‘(Aryavarta)
اور سونے کی چڑیا جیسے ناموں سے بھی تعبیر کیا گیا ہے اور ان اسما کا پس
منظر در اصل کوئی خاص شخص، خاص جگہ، خاص وصف ہیں، جن سے اس ملک کو موسوم
کیاگیااور کبھی عالمِ انسانی میں اس ملک کی تہذیب وثقافت کی برتری اجاگر
کرنے کے لیے اس کو ایک الگ نام سے بھی پکاراگیا ہے،مثلاًاس ملک کا ایک نام
’بھارت ‘ بھی ہے، تو وشنو پران (2, 1, 31)کے مطابق’ رشابھا‘ (Rishabha)
نبھی راج کے بیٹے تھے اور ’بھرت‘ رشابھاکے بیٹے تھے اور انہیں کے نام پر اس
ملک کا نام بھارت اوربھارت ورشا پڑا‘‘جبکہ ایک دوسری تحقیق کے مطابق
’بھارت‘ دراصل دو مختلف المعانی الفاظ ’بھا ‘اور’ رت‘ سے مرکب ہے ،جن
میں’بھا‘ کا مطلب علم اور روشنی اور’ رت‘کا معنی روشنی کا طالب ہے، چونکہ
یہ ملک صدیوں سے رشیوں ، اوتاروں اور خداترس لوگوں کا رہا ہے ،جنہیں اپنے
اپنے وقت میں اس سرزمین پر خدا کی معرفت حاصل ہوئی اوربے شمار علم وہدایت
کے پیاسے ان کی جوئے علم سے اپنی علمی تشنہ کامیاں دور کیں،اسی لیے اس ملک
کا نام بھارت رکھا گیا۔’بھارت ورشا‘ (Bharat Varsha)کے بارے میں کچھ لوگوں
کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ورشا‘چونکہ قوم اور ملک کے معنی ہے اورسرزمینِ
ہندوستان پر راجا بھرت نے حکومت کی تھی ، اس لیے اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے
اس کو’بھارت ورشا‘کہا گیا،یعنی بھرت کی قوم اور بھرت کا ملک۔ جمبودویپا (Jambudvipa)
یہ ہندوستان کا ایک ویدِک نام ہے ، دراصل یہ جامن تھا اورجامن استوئی خط کا
ایک سدا بہار درخت ہے جو ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش وغیرہ میں کثرت سے
پایا جاتاہے اور’ دویپا‘ہندوستان میں ایک جزیرہ کا نام تھا، اس لیے ا ن کی
طرف نسبت کرتے ہوئے لوگ اس ملک کو جمبودویپا بلاتے تھے، جیسا کہ دریائے
اندس کی طرف منسوب کرکے اس ملک کا نام ’ ہندوستان اور انڈیا‘ رکھا گیا اور
چونکہ ایک زمانے تک اس ملک پر آریا سماج کا تسلط رہا ہے، اس لیے ان لوگوں
نے اس کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے ’اریاورتا‘(Aryavarta)بھی کہا ، لیکن یہ
ایک لاریب حقیقت ہے کہ اس ملک کا نام کبھی بھی کسی مذہب اور مکتبۂ فکر سے
متأثرہوکر نہیں رکھا گیا اور جہاں کہیں بھی اس طرح کی نسبتیں ملتی ہیں ، وہ
صرف نسبت ہی کی حد تک ہے اسما کی فہرست میں ان کا کوئی بھی ذکر نہیں ہے اور
جہاں تک ’’ ہندوستان ‘ کو’ ہندو‘ جوسناتن دھرم کاایک نیا ورژن ہے سے ماخوذ
ماننے کا سوال ہے، تو یہ بالکل بھی قابل تسلیم نہیں، کیونکہ اس کی نہ تو
کوئی دلیل ہے اور نہ ہی سناتن دھرم کی کسی کتاب میں متبعین کو ’ہندو ‘ سے
مخاطب کیا گیاہے ، تو پھرہم بلادلیل کیسے ہندوستان کو ہندو سے ماخوذ مان
لیں؟ البتہ ملک کے مذکورہ بالا ناموں میں ’بھارت‘ہی ایک ایسا نام ہے ، جس
کاذکر سناتن دھرم کی مقدس کتابوں میں ملتا ہے، چنانچہ وشنو پران (2, 1, 32)
میں یہ قصہ مذکور ہے کہ ’’جب سے باپ نے اپنے بیٹے بھرت کو اپنی بادشاہت
سپرد کی، تو اسی وقت سے اس ملک کا نام بھارت پڑ گیا اوروہ خود جنگلوں میں
ریاضت ومجاہدہ کے لیے نکل پڑے‘‘۔
درحقیقت ہندوستان دو مختلف المعانی فارسی الفاظ’ ہندو‘ اور’ ستان‘ سے مرکب
ہے اور یہ لاحقہ’ ستان‘ مرکزی ایشیاکے تقریباً تماممالک کے ناموں کے ساتھ
لگاہوا ہے۔’ستان‘ کا حقیقی معنی توزمین ہے، لیکن اگر یہ کسی اسم و ظرف کے
ساتھ مرکب استعمال ہوتو نسبت واضافت کا معنی پیدا کرتا ہے ۔ لفظِ’ہندو ‘
دراصل سنسکرت لفظ’ سندھو‘ سے ماخوذ ہے اور دریائے اندس کاسنسکرت نام سندھو
ہے، چونکہ مرکزی ایشیا کے تمام ممالک فارسی زبان وادب اور اس کی تہذیب
وثقافت سے بہت متاثر تھے ،اس لیے دریائے اندس کے پرے رہنے والے تمام
باشندوں کو ہندو اور بذاتِ خود اس سرزمین کو ہندوستان سے تعبیر کیا جاتا
تھا اور پھر یہی لفظ عربی میں ’الہند‘، یونان میں ’اندوس ‘ اور تقریباً
سترہویں صدی عیسوی میں انگریزی میں انڈیامستعمل ہوا،اردوزبان چونکہ فارسی
اور عربی سے بہت زیادہ متاثر ہے، بلکہ اردوزبان مختلف زبانوں کا ایک سنگم
ہے، اس لیے ملک انڈیا کو اردو میں عموماً ہندوستان ہی سے تعبیر کرتے ہیں ،
چنانچہ اردو زبان وادب کی شاہ کار لغت ’فیروز اللغات‘ میں بھی لفظ ’ہندو
‘کی تعریف میں ہندوستان کا باشندہ اور ہندوستانی ہی مذکور ہے اور اس تعریف
کے مطابق ہم ہر ہندوستانی کو ہندو کہہ سکتے ہیں، خواہ وہ جس مذہب ومشرب سے
تعلق رکھتا ہو اور اس کو سناتنی کے ساتھ خاص کرنابالکل بھی درست نہیں
ہوگا،کیونکہ ہندو اگر واقعی سناتن دھرم سے ماخوذ ہوتا ، تو آج ہندوستان کے
ناموں میں مسلمانستان کا بھی ذکر ہوتا، اس لیے کہ اس سرزمین پر مسلمانوں نے
بھی تقریباً آٹھ سو سال تک حکومتیں کی ہیں اور اس کی واضح مثال یہ ہے کہ
پوری دنیا بالخصوص عرب ممالک میں ہر ہندوستانی کو بلا قیدِ فکرونظر اور
مذہب وملت ’ہندی‘ اور انگلش ممالک انڈین بلاتے ہیں اور جہاں تک اس بات کا
سوال ہے کہ مسلمان پھر اپنے آپ کو ہندو کیوں نہیں کہتے، تووہ صرف مشابہت سے
اجتناب کرنا ہے نہ کہ حقیقت کا انکار،کیونکہ برادرانِ وطن نے اس لفظ کو
اپنے لیے خاص کرلیا ہے ،خواہ زبردستی ہی سہی، تاہم حقیقی اعتبار سے
ہندوستان میں رہنے والا ہرشخص ہندو ہے اور ہم نے بارہا سناتن دھرم کے
پجاریوں اور رہنماؤں سے اپنے آپ کو سناتنی کہتے ہوئے سنا ہے اوروہ سناتنی
ہی ہیں، نہ کہ ہندو، مگر سوال یہ ہے کہ آخر ان لوگوں نے اپنے لیے ہندو نام
کیوں چنا ؟ تو اس بات کی کوئی حتمی تاریخ نہیں ملتی کہ سب سے پہلے کس
سناتنی نے اپنے آپ کو ہندو کہا اور یہ سناتن دھرم کب ہندو میں تبدیل ہوا،
تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ تبدیلی اس خواب کی پہلی سیڑھی تھی، جس کو
بھگوائی آج شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتے ہیں؛ دراصل آزادی کے بعد سے ہی اس ملک
کو ایک خاص نظریہ کا پابند بنانے کی کوشش کی گئی ، بلکہ آج مکمل زوروشور کے
ساتھ اس کی تیاریاں چل رہی ہیں کہ بزورِ شمشیر ہر ہندوستانی کو سناتنی
بنادیا جائے اور انہوں نے اپنے لیے ہندو نام کا انتخاب کرلیا تاکہ اس ملک
پر صرف انہی کا حق باقی رہے، مگر تاریخ سے بغاوت اور حقیقت سے چشم پوشی
کرنے والوں کا انجام ہمیشہ ہی برا ہوتاہے ۔ |
|