بابا جی اور پیر صاحب
(Khawaja Wajahat Siddiqui, )
نرم مزاج ،دھیمہ لہجہ اور سب سے مختلف وہ
بہت سیدھے سادھے سے انسان ہیں، میں ایک عرصہ سے انہیں جانتا ہوں،آتے جاتے
کہیں نہ کہیں سرراہے میری اس سے میل ملن ملاقاتوں کا سلسلہ رہتا ہے،اشفاق
احمد مرحوم بابا جی کے تو وہ دیوانے تھے، ان کو ہی پڑھا کرتے اور ان ہی کے
رہنما اصولوں پر خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ،ہمیشہ کہتے کہ میرے ایک عمل
کی درستگی سے اگر بہت سے دوسرے لوگوں کا بھلا ہوتا ہے تو وہ اسے اپنے من کی
راحت سمجھتے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ہر شخص اسی طرح اپنا عمل ٹھیک
کر لے یعنی خود کا محاسبہ کر کے اپنے آپ کو ٹھیک کر لے اور دوسروں کیلئے
نفع کا سبب بنے تو یہ دنیا آج ہی جنت بن جائے،ان کا فرمانا ہے کہ دوسرے
ہمارا احساس کریں ایسا ہو نہیں سکتا اور نہ ہی ایسے عمل اور سوچ سے محبت
پروآن چڑھتی ہے بلکہ نفرت اپنے ڈیرے ڈالتی ہے جو کہ ایمان،انسان اور
انسانیت کیلئے کسی بھی طرح سے خیر کا سبب نہیں،میں ہمیشہ ان کی باتیں دھیان
سے سنتا اور اکثر انہیں بھی بابا جی ہی کہہ کر متوجہ کرتا،بابا جی وطن عزیز
کے نوجوانوں کیلئے اکثرو بیشتر فکر مند ہی دکھائی دیتے رہتے ہیں ان کا یہ
بھی کہنا ہوتا کہ ہماری آج کی نوجوان نسل ہر وہ کام بلا خوف و خطر سرانجام
دیتی ہے جو ہماری اقدار کیخلاف ہو،آج ہمارا اوڑھنا بچھوڑھنا کھانا پینا ،رہن
سہن،حتیٰ کہ بات چیت بھی مغربی تہذیب کی عکاسی کرتی ہے ،جسکی بنیادی وجہ
دین اسلام سے دوری ہے،دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کی بدولت نبی کریمﷺ کو
صحابہ کرام کی ایک منظم جماعت میسر تھی جنہوں نے اپنے عمل سے دوسروں کے
دلوں پر راج کیا اور قلب و روح پر اثر انداز ہوتے ہوئے انقلاب برپا کیا
جبکہ آج ہم بے حد خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں،وہ اکثر کہتے ہیں کہ بزرگوں
کی محفل میں بیٹھا کروان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور اﷲ والوں کی
باتیں قلب و روح پر اثر انداز ہو کر آپ کو نور ایمانی سے منور کرتی ہیں،ان
کی یہ باتیں پتھر پر لکیر اور ایسی سچائی ہے جس سے قطعی انکار ممکن نہیں
مجھے ان کی ان ہی تلخ مگر سچی باتوں نے ان کا گرویدہ بنا رکھا ہے ۔ایک دن
وہ دھیمے قدموں سے چل رہے تھے ،گم سم تھے پر مسکرا رہے تھے ،چہرہ پررونق
اور خوشی کی کرنیں بکھیر رہے تھے ،میں نے اس سے پہلے انہیں اتنا خوش کبھی
نہیں دیکھا تھا ،اس روز میں انہیں دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ ان کا چہرے کی
تمازت و شگفتگی بتا رہی تھی کہ جیسے ان کی برسوں کی تمنا پوری ہو گئی
ہو،میرے قریب آتے ہی وہ جھٹ پٹ بولے کہ میں آج بہت خوش ہوں ایسے لگتا ہے
جیسے میرا انگ انگ جھوم رہا ہو،موسم تو خزاں کا ہے پر ہر سو بہار معلوم ہو
رہی ہے میرے پوچھنے پر بابا جی نے بتایا کہ آج ان کی من کی کیفیت اس لیے
بدلی بدلی سی ہے کہ آج ان کی ملاقات حضرت علامہ پیر علاؤالدین صدیقی صاحب
سے ہوئی ہے،ٹیلی وژن پر تو انہیں پہلے بھی کئی بار دیکھ اور سن رکھا بلکہ
اکثر ان کو سنتے سنتے کہیں گم ہو جاتا ہوں اور وجد کی سی کیفیت طاری ہو
جاتی ہے،بیان کے اختتام پر(اﷲ ہُو) کا بآواز بلند ذکر روح اور ایمان کو
تروتازہ کر جاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے ذکر کی بدولت تمام گناہ دھل سے گئے
ہوں،ARYٹی وی چینل پر اکثر اُن کا پروگرام دیکھتا ہوں اور ان کی زبان کی
مٹھاس سے اپنے دل و دماغ کو خوب معطر رکھتا ہوں،حضرت صاحب کا بیان بے حد
پرتاثیر اور روحانیت سے بھرپور ہوتا ہے،بابا جی کہتے ہیں دل ہی دل میں ان
سے محبت ہونے لگی اور دل انہیں دیکھنے اور سننے کیلئے بے تاب رہنے لگا ،اﷲ
تبارک تعالیٰ اور رسول اکرمﷺ کے نام اور پاک کلام سے تو ویسے بھی ہر قلب کو
اطمینان نصیب ہوتا ہے پر کچھ لوگ خاص ہوتے ہیں اور یہی خاصیت کی دلیل ہے کہ
ان کی زبان کے پرتاثیر جملے سیدھے دل پر اثر انداز ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ
جسے دیکھ کر تمہیں اﷲ یاد آ جائے تو سمجھ لو کہ وہی اﷲ کا ولی ہے ،ولیوں کی
کرامات و امت محمدی سے محبت اور دین اسلام کیلئے خدمات کی تاریخ اسلام گواہ
ہے ،اﷲ تعالیٰ کے ولیوں کے سامنے جب باطل قو ت آ کر ٹکر لیتی ہے تو اﷲ اپنے
ولیوں کو سچا کرنے کے لیے ان سے ایسی طاقت کا اظہار کرواتا ہے جس سے باطل
عاجز ہوجا تا ہے،تو یہ کرامت بن جاتی ہے، کرامت اﷲ تعالیٰ کی عنائیتوں میں
سے ہے،اﷲ کے نیک بندوں سے محبت کرنا اور ان کی محبت اختیار کرنا کسی بھی
طرح سے فائدہ سے خالی نہیں ،کسی نے کیا خوب کہا کہ آپ جب کسی عطر والے کے
پاس بیٹھیں گے تو آپ سے عطر کی خوشبو آئے گی،اسی طرح جب آپ اﷲ والوں کیصحبت
اختیار کرتے ہیں تو آپ سے محبت اورخیر کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں اور آپ
معاشرے کیلئے سراپا نفع ہی نفع ہوتے ہیں،پھر ایسی شخصیات سے محبت کرنا یا
نہ کرنا کہاں اپنے اختیار میں رہتا ہے ،اس دن بابا جی کی خوشی دیکھنے لائق
تھی ،کہنے لگے کافی دنوں سے بہت بے چین ساتھا،کہیں بھی سکون نہیں آتا،ہر
وقت دل اداس رہتا بلکہ اداسی تو معمول بن گئی تھی،کیونکہ جب بھی اپنے ارد
گرد نظر دوڑاتا تو ہر طرف وہی پریشانیاں ،منافقتیں،بیماریاں حق
تلفیاں،جھوٹ،مکر فریب،جیسی غلاظتوں کو دیکھ کر نظریں تھک ہار جاتی اور
اداسی کا بھنور مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ،اسی دوران حضرت پیر علاؤالدین
صاحب کی آمد کی نوید سنائی دی اور اداسی کے بادل چھٹ گئے ،ایسا لگاجیسے
طویل اندھیری رات کے بعد سوایرا ہوا ہو،ان کے آنے میں ابھی تین دن باقی
تھے،یہ تین دن تھے کہ گزرتے ہی نہیں اور رات تو جیسے قسم کھائے ہو کہ سویرا
نہ ہونے دوں گی،خیر جیسے تیسے تین دن تو گزر گئے مگر اب فکر لاحق ہو گئی کہ
ان سے ملاقات کا وسیلہ کون بنے گا،جہاں وہ ٹھہرے ہیں وہاں ہی جا کر دیکھوں
گا ،یہ سوچ کر خاموش ہو گیا ،یہی محبت اور لگن بابا جی کو اس دن منزل مقصود
تک لے گئی ،اس دن وہ صبح آٹھ بجے ملاقات کی غرض سے گھر سے نکلے ،چند منٹوں
کی مسافت کے بعد وہ اس رہائشگاہ تک پہنچ گئے جہاں منزل مقصود موجود تھی،اب
بابا جی کہتے ہیں میں وہاں تک تو پہنچ گیا پر وسیلہ کوئی نہ ملا دل میں یہ
ڈر پیدا ہو گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملاقات نہ ہو سکے اور میں پریشانی
میں کبھی ایک سے اور کبھی دوسرے سے ان کے مسکن کا پتہ پوچھنے لگا،پھر اچانک
ایک جاننے والے پہ نظر پڑی ،منزل مقصود نے اسی کے گھر پر اپنا بسیرا کیا
ہوا تھا ،میں بھاگم بھاگ اس کے پاس گیا اور گزارش کی کہ حضرت صاحب سے میری
ملاقات کروا دو،اس نے یقین دھانی کروائی اور مجھے اپنے پیچھے چلنے کو کہا ،چند
قدم چلنے کے بعد جہاں منزل موجود تھی اس گھر کے دروازے سے اندر داخل ہوا ،پہلی
نظر منزل مقصود پر پڑتے ہی میں ان کا چہرہ مبارک دیکھتا رہ گیا،وہ بہت
خوبصورت اور روحانی شخصیت ،ٹی وی سکرین پر تو دیکھا تھا پر آمنے سامنے کا
منظر بلا کا خوبصورت تھا،خوشی و سکون ،اطمینان کا ٹھاٹیں مارتا سمندر دل
میں امڈ آیا ،یقین نہیں آرہا تھا کہ جس ہستی کو ملنے کیلئے میں اتنا بے تاب
تھا آج وہ میرے سامنے موجود ہیں،میں دھیمے دھیمے چلتے قدموں سے ان کی جانب
بڑھنے لگا اور انتہائی مؤدبانہ انداز میں گھٹنوں کے بل دراز ہو کر ان کے
ہاتھ کو چوما تو ایسے لگا جیسے سارا وجود مہک سا گیا ہو ،پھر ان کے چہرے پر
نظر ایسے پڑی کہ نظر کہیں پلٹ کے جاتی ہی نہ تھی،انہوں نے میرے سر پر ہاتھ
پھیرا اور کہا ماشاء اﷲ ،،،ان کے پیار اور مٹھاس بھرے یہ الفاظ میرے کانوں
میں ایسے رس گھولتے چلے گئے کہ کہ وہ آج بھی ایسے ہی میرے کانوں میں پردہ
سماعت سے چپکے ہوئے ہیں،،اسی دوران وہ کھڑے ہوئے اور اپنی چادر (شال) مجھے
پکڑا دی،ان کی چادر(شال) اتنی شاندار اور میرے لیے کسی بھی تبرک سے کم نہ
تھی،وہ بہت خوش لباس ،مسحور کن اور دھیمی طبیعت کے مالک بڑی پراثر شخصیت
تھے،نورانی چہرے کیساتھ وہ خوبصورت تو تھے ہی مگر دھوپ کی کرنوں نے ان کی
رنگت اور ان کے پرنور چہرے کو مزید نکھار بخش رکھا تھا،میں ان کی چادر(شال)
کو تھامے چند قدم ان کیساتھ چلااور دل مچل رہا تھا کہ ان سے کلام کا کچھ
بہانہ بن جائے مگر ایسا اس لیے بھی ممکن نہ ہوسکا کہ زبان خوشی کے مارے
جسیے شل ہو چکی تھی،بس میں انہیں دیکھتا رہا اور دیکھتا ہی رہ گیا،اسی
اثناء میں کچھ اور بھی ان کے چاہنے والے وہاں آ گئے جو انہیں سٹیج تک لے
گئے،جب ان کا بیان،خطاب شروع ہوا تو مجھے یوں لگ رہا تھا کہ ان کی زبان سے
لفظ نہیں موتی بکھر رہے ہوں اور ان کے جملے نہیں بلکہ خوشبو چاروں سُو پھیل
رہی ہو،دل کو چیر کر اپنی جگہ بنانے والی ان کی پرتاثیر باتوں نے ان کی
شخصیت کو مزید نکھار رکھا تھا اور میں ان کے خطاب کے آخر تک ان کے پاس ان
کے سامنے بیٹھا رہا اور اپنی قسمت پر رشک کرتے پھولے نہیں سما رہا تھا کہ
خالق کائنات نے میرے دل کا ارمان پورا کر دیا اور مجھے اپنے حضرت پیر
علاؤالدین صدیقی صاحب کی قربت کیسے نصیب کر دی ،یقینا یہ میرے دل کی آواز
اور میرے دل سے نکلنے والی ہی وہ دعا تھی جس نے عرش تک کا سفر قبولیت کے
درجے کیساتھ طے کیا۔ |
|