ہادیانِ قوم کے لیے اُسوۂ حسنہ شفاف آئینہ
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
جب خالقِ ارض وسمانے اس دنیا ئے آب وگل میں
’’انی جاعل فی الارض خلیفہ ‘‘کا بگل بجایاِ تو ساتھ ہی ساتھ آفتاب ہدایت کے
نیر تاباں سے اس انجمن کو جلا بخشا؛تاکہ پر وانہ ہائے انجمن اس مشعل ہدایت
کی ضومیں اپنی زیست کے راستوں کو بہ آسانی طے کرسکیں، چنانچہ سب سے پہلے
سیدنا حضرت آدم علیہ السلام نے اس مشعل ہدایت کو افق عالم پر بلند کیا اور
جب دور آیا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو وہ فاران کی چوٹی سے اس
مشعل کو لے کر طلوع ہوئے اور’’ قولو ا لاالہ الا اللہ تفلحوا‘‘ کی صدائے
بازگشت سے وادی حجاز میں دھوم مچادی، بعض خوش بخت ہستیوں نے اس آواز پر
لبیک کہا اور صادقین اولین کے زمرے میں شامل ہوگئے اور بعض نے اس کی طر ف
خشمگیں نگاہیں بلند کیں اور اس آواز کو دبانے کی ہر ممکن تگ ودو سے باز
نہیں آئے ،مگر تاریخ نے ان کو خائب وخاسر ثابت کیا یہی نہیں ؛بلکہ وہ جس
روشنی کو دبانے چلے تھے وہ اور زیادہ پھیل گئی اور بے شمار پروانے اس سے
اپنا خرمن دل روشن کرتے رہے او راس نورہدایت سے اپنی زندگی کی تاریکیوں کو
تابناکی عطا کرتے رہے ،یہی محمد عربی ﷺ کاوہ نور نبوت تھا جس نے عالمِ
کفرستان کو چکا چوندکردیا اور پوری انسانیت کو وحدانیت ویگانگت اُخوت
ومروّت اوراسلامی تہذیب وتمدن کا مقدس درس دیا اور قیامت تک آنے والی تمام
نسلِ انسانی کے لیے آپﷺ نے اپنی بعثت کے ۲۳؍سالہ قلیل عرصے میں تمام مکارم
اخلاق، طرز اطاعت وعبادت، حالات خلوت وجلوت، اعمال واقوال ، تعلقات
اورمعاملات زندگی کے حوالے سے ہر قوم،ہرطبقہ ،ہر جماعت او رہر فرد کے لیے
وہ انمول نمونہ پیش کیا جو زمان ومکان ا وراشخاص کی تمام ترحد بندیوں سے بے
نیاز اور عالم والوں کے لیے یکساں طور پر نجات دارین کا حقیقی او رسچا ضامن
ہے۔
منتہائے بشریت :آپﷺ کی ذات والا صفات تمام ترخوبیوں اور رعنایؤں سے مرصع
ومزین تھی آپﷺ تعریف وتوصیف کے درجۂ منتہا پر فائز تھے ،اخلاق حسنہ آپﷺ کے
لیے طرۂ افتخار ، صفات حمیدہ آپﷺ کے لیے طغرائے امتیاز اور آپﷺ بلاشبہ ہر
نوع کے کمال کی معراج پر فائز تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
:’’آپﷺ سب سے زیادہ علم وحکمت کو جاننے والے، سب سے زیادہ محترم ،سب سے
زیادہ منصف وحلیم، سب سے زیادہ عفیف وپاکباز، لوگوں کو سب سے زیادہ نفع
پہنچانے والے او رلوگوں کی ضرر رسانی پر سب سے زیادہ صبر کرنے والے
تھے‘‘۔دنیا نے آج تک آپ جیسا نہ کوئی شفیق رہبر اور نہ ہی کو ئی مہربان آقا
دیکھا ہے اور نہ ہی دیکھے گی ، روزِ ازل سے لے کر آج تک سورج آپ سے بہترین
انسان پر کبھی طلوع نہیں ہوا، چاند کی چاندنی میں بھی داغ اور دھبہ ہے، مگر
آپ کی ذات والا صفات آئینہ کی طرح صاف وشفاف ہے، نبوت اور نبوت سے پہلے کی
آپ کی ۴۰ سالہ زندگی بھی اسی قدر بے غبار اور برف کی طرح بالکل شفاف تھی،
آپ سے ملنے والا ہر شخص یہی تصور لے کر گھر جاتا کہ محمد رسول اللہ مجھ سے
سب سے زیادہ محبت فرماتے ہیں اور میں ہی ان کا سب سے چہیتا اور قریبی ہوں ،
ایسا کیوں نہ ہوتا آپ نے اپنی پوری حیاتِ مبارکہ میں نہ تو کسی کو گالی دی
اور نہ ہی کسی کے ساتھ تند خوئی سے پیش آئے، نہ ہی کسی سے جھگڑا کیا اور نہ
ہی کسی سے وعدہ خلافی کی ۔اس واقعہ سے تو ہرشخص بخوبی واقف ہے کہ بعثت سے
قبل حضرت عبداللہ کے انتظار میں تین دن ایک ہی جگہ پر کھڑے رہے اور جب تین
بعد عبداللہ سے ملاقات ہوئی تو آپﷺ نے بجز اس کے کہ تم نے مجھے بہت تکلیف
دی ہے ، کوئی بھی طنزیہ جملہ نہیں کہا(ابوداؤد) ۔ ایفائے عہد صاف وشفاف
معاملات ہی کی وجہ سے تقریباً پورے مکہ کے لوگوں کی امانتیں آپ کے پاس
ہوتیں، نبوت کے بعد بھی لوگ ہر چند کہ آپ کے مخالف ہوگئے تھے، مگرپھر بھی
ان کی امانتیں آپ ہی کے پاس رکھی رہیں اور سب اس پر خوش بھی رہے۔
رفق وتواضع:آپﷺ کی ذات والا صفات چونکہ رفعت وبلندی کے بام عروج پر کمند
ڈالے ہوئے تھی اور کعبہ کا تقدس بھی آپﷺ کی عزت وشرافت او رپاکیزگی پر
نازاں تھا، بڑے سے بڑیاعہدہ بردار اور ظالم وجابربھی آپ سے مرعوب ہوئے بغیر
نہیں رہتا، فی الحقیقت آپ کی طبیعت میں انتہائی نرمی تھی، مگررعب کا یہ
عالم تھا کہ رستمِ وقت بھی آپ کے سامنے شکست خوردہ معلوم ہوتا تھا، اس کے
باوجود آپﷺ نے کبھی بھی نخوت وتکبر کو اپنے پاس بھٹکنے بھی نہیں دیا ؛بلکہ
تا دمِ حیات رفق وتواضع اور صبر وتحمل کاپیکر بنے رہے، ہر کس وناکس جب
چاہتا او رجس وقت چاہتا آپ ﷺ کو اپنا مخاطب بنالیتا، نیز آپﷺ نے اپنے قیام
ا ورہائش او رنشست وبرخاست کے لیے کبھی بھی کوئی ایسی جگہ متعین نہیں
فرمائی جہاں گاؤ تکیہ لگائے آپ ﷺ جلوہ گرہوں اور محافظ آلات حرب سے آراستہ
آپﷺ کے دروازے کی نگہ داشت کررہا ہو اور آمدورفت کرنے والے اس کی اجازت کے
محتاج ہوں جیسا کہ شاہان عجم کا دستور تھا ،آپﷺ کا دروازہ ہمہ وقت ہر شخص
کے لیے کھلا رہتا آپﷺ کا تخت کھجور کی چھالوں کی چٹائی او رمحافظ وہی اصحاب
صفہ او ردیگر صحابہ کرام تھے جو آپﷺ کی زندگی کے سفر میں آپﷺ کے ہم رکاب
ہوکر دامے درمے سخنے ہر طرح سے آپ کی معاونت کرتے رہے اور آپﷺ کے بعد آپ کے
کمالات علمیہ کے سچے نمائندے ہوئے، آپﷺ نے ہمیشہ ان کے ساتھ رفق وتواضع کا
معاملہ فرمایا کبھی کسی کو ڈانٹ ڈپٹ او رکسی پر نکتہ چینی نہیں کی بلکہ
تمام کے ساتھ خلق کریمانہ کا مظاہرہ فرمایا ہمیشہ ان کے ساتھ نر م خوئی سے
پیش آئے ؛بلکہ اکثر اوقات سختی سے پیش آنے والے کے ساتھ بھی رحم وکرم کا
معاملہ فرماتے۔
صبر وتحمل کاعظیم پیکر :چنانچہ جب آپ نے حق کی صدا بلند کی تو بجائے اس کے
کہ مکہ والے آپﷺ کی بات سنتے آپﷺ پر طرح طرح کے آلام ومصائب کے پہاڑ ڈھانے
لگے اور جب وہ ظلم زیادتی کی تمام حدود یں پارکرگئے اور ایذا رسانی میں
کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، تو آپﷺ نے ان سے مایوس ہو کر طائف کا عزم سفر کیا
مگر وہاں کا انجام بھی اس سے مختلف نہ تھا؛بلکہ وہاں کے لوگ تو ان سے بھی
زیادہ تند خوثابت ہوئے کہ جب آپﷺ نے وہاں اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو نہ
صرف یہ کہ انہوں نے اس کا انکار کیا بلکہ چھوٹے چھوٹے اوباش قسم کے بچوں کو
آپﷺ کے پیچھے لگا دیا کہ وہ آپ(ﷺ )کا استہزاء کریں اور آپﷺ پر سنگ باری
کرتے رہیں ، تاآنکہ آپ ﷺ ان کی خباثتوں سے اکتا کر واپس چلے جائیں ؛چنانچہ
ان اوباشوں نے آپﷺ پر اس قدر سنگ باری کی کہ پاؤں مبارک خون سے لہو لہان
ہوگیا او رقدم مبارک سے اسقد ر خون رس رہا تھا کہ نعلین مبارک تلوؤں سے چپک
گئے آپﷺ شدت الم کی تاب نہ لاکر زمین پر گرگئے آپﷺ کی اس حالت زار پر پوری
کائنات سوگوار تھی اہل آسماں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے سبھوں کے صبر کا
پیمانہ چھلک اٹھا بالآخر حضرت جبرئیل تشریف لے ہی آئے اور ارشاد فرمایا کہ
’’اگر آپ ﷺ کا حکم ہو تو ان دونوں پہاڑوں کے بیچ میں ان کو پیس کر رکھ دوں
‘‘مگر قربان جائیے اس محسن انسانیت پر جس نے اس موقع پر ایک تاریخی جملہ
ارشاد فرمایا کہ ’’میں اس قوم کے لیے تباہی وبربادی کا کیوں کر امیدو ار
ہوں جس کی نسلوں میںآئندہ کوئی ایمان والا پیدا ہو،اللہ اکبر!
آپﷺ کے اسی طریقے کے حلم وبردباری کو دیکھ کر ایک بڑھیا مشرف بہ اسلام
ہوگئی جوراہ گذرتے آپﷺ پر گھر کے فضلات پھینکا کرتی تھی، خلاف عادت جب ایک
مرتبہ یہ نوبت نہیں آئی تو آپ ﷺ اس کے احوال دریافت کرنے اس کے گھر تشریف
لے گئے اور جب آپﷺ کو اس کے بیمار ہونے کی خبر ملی تو آپ نے اس کی عیادت
فرمائی جس سے وہ حددرجہ متأثر ہوئی اور مشرف بہ اسلام ہوگئی ،رضی اللہ عنہا
۔
صحابہ کرام کے ساتھ آپﷺ کا حسن سلوک:گالیاں سن کر اور پتھر یں کھاکربھی جب
دعائیں دنیا آپ ﷺ کا شیوہ تھا تووہ جو آپ پر اپنا تن ومن اور مال ومتاع
نچھا وڑ کرتے ہوں ان کے ساتھ آپﷺ کا کس شان کا معالہ رہا ہوگا ، سنت الہیہ
بھی یہی ہے کہ اللہ تعالی ہرنبی کے لیے ان کی قوم میں سے چند نفوس قدسیہ کو
منتخب فرمادیتے ہیں جو اشاعت دین میں ان کی مدد کرتے ہیں چنانچہ صحابۂ کرام
کی جماعت صرف آپﷺ کی حواری ہی نہیں تھی؛بلکہ یہ آپ کو اولاد سے زیادہ عزیز
تھی آپﷺ نے اولا د سے بڑھ کر ان کی تعلیم وتربیت فرمائی بول وبراز سے لے کر
امور خانگی تک کے تمام مسائل میں آپ ﷺنے قدم قدم پر ان کی رہنمائی فرماکر
عالم انسانیت کے لیے ان کو امام ومقتدی بنایا اور’’ا صحابی کالنجوم‘‘ کے
سنہرے لقب سے ان کو ملقب فرمایا آپ ﷺ نے ہمیشہ ان کی خیر خواہی کی کبھی کسی
کو سخت وسست نہیں کہا :حضرت انسفرماتے ہیں کہ میں نے دس سال تک آپﷺ کی خدمت
کی مگر کبھی بھی آپﷺ نے مجھے ڈانٹا اور ڈپٹا نہیں اور نہیں کسی امر کے
متعلق یہ پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟او رنہیں کیا تو کیوں نہیں کیا ؟
ازواج مطہرات کے حقوق کی رعایت :۔آپ ﷺ جس قدر بیرون خانہ امت کی فلاح
وبہبود میں کوشاں رہتے او رایک پل بھی ان کی غم خواری وخیر خواہی سے غافل
نہیں رہتے اسی طرح اپنی حیات طیبہ کے چند لمحات اندرون خانہ ازواج مطہرات
کی تعلیم وتربیت میں بھی صرف کرتے آپ ہمیشہ ان کے ساتھ نرم خوئی سے پیش آتے
اور ان کی ضرورتوں کاپورا خیال رکھتے ، ہرروز عصر کی نماز کے بعد یکے بعد
دیگرے ازواج مطہرات کے گھر تشریف لے جاتے اور ان سے ملاقات فرماتے ایسے تو
شب باشی کے لیے آپﷺ نے ازواج مطہرات کے درمیان باری مقرر کررکھی تھی اور اس
میں آپﷺ بہت زیادہ محتاط تھے حتی کہ مرض الوفات میں بھی آپﷺنے اس کا خیال
رکھا مگر جب تکلیف کی شدت بڑھ گئی تو آپ تمام ازواج مطہرات کی اجازت سے
حضرت عائشہ کے حجرہ مبارکہ میں منتقل ہوگئے۔
الغرض آپ کی ذات والا صفات کسی ایک قوم وفرد کی رہبری وحق نمائی کے لیے
مختص نہیں تھی بلکہ آپ نے آداب معاشرت ومعاملات سے لے کر ماکولات مشروبات
او رملبوسات تک ،امور خانہ سے لے کر بین الاقوامی سطح تک، امن وآشتی سے لے
کر میدان کا راز تک، اپنوں سے لے کر غیروں تک او رظالموں سے لے کر مظلوموں
تک، محبت واخلاص ، خیر خوا ہی وحسن سلوکی ، عزتِ نفس اور جودوسخا کا وہ
انمول نمونہ پیش کیا کہ آج کی یہ علمی دنیا بھی آپ ﷺکی تعریف میں رطب
اللسان نظرآتی ہے، یقیناًآپ نے پوری انسانیت کے لیے ایک ایسا ضابطۂ حیات
پیش کیا ہے جو محض نظریاتی ہی نہیں بلکہ معمول بہ بھی ہے۔ آپﷺ کے اصول اور
اسلامی نظامِ سے ہٹ کر کوئی بھی طریقہ اور راستہ انسانیت کو گمراہی نہیں
بچا سکتے، آج پورے عالم پرجو جو بے چینی اور اضطرابی کی کیفیت طاری ہے اس
کی وجہ بھی اسی پیغمبرانہ راستہ ہٹ جانا ہے، اگر آج بھی پوری انسانیت اسلام
اور پیغمبرِ آعظمﷺ کے بتائے ہوئے ڈگر پر اُتر آئے، تو دنیا پھرسے امن وسکون
کا گہوارہ بن جائیگی؛ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے:
خلافِ پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بہ منزل نہ خواہدرسید |
|