اﷲ تعالیٰ کا انسانوں کو رزق دینے کا طریقہ کیا ہے۔؟

ہمارے ہاں رزق بارے عقیدہ ہے کہ رزق اﷲ کے ہاتھ میں ہے ۔ سعی اور کوشش سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ دراصل تقدیر کے غلط تصور کی وجہ سے ہے حضرت عمر ؓ کا یہ قول اﷲ کے سسٹم کی تفصیل بتاتا ہے۔" آپ ؓ نے فرمایا، اے لوگو تم میں سے کوئی رزق کی طلب اورجستجو سے فارغ ہو کر نہ بیٹھے اور یہ کہتا رہے کہ اے اﷲ مجھے رزق دے۔یاد رکھو آسمان سے کوئی دولت نہیں برستی۔ اﷲ ایک انسان کو دوسرے کے ہاتھوں رزق پہنچاتا ہے"۔ اسی طرح ایک دفعہ فرمایا کہ" متوکل وہ ہے جو زمین میں دانہ ڈالتا ہے اور پھر خدا پر بھروسہ کرتا ہے۔"
سورہ یاسن کی آیت نمبر ۴۷ ،۴۸ میں اﷲ تعالی ہمیں کیسے ہدایات دیتا ہے۔
36-47And never came an Ayah from among the Ayat of their Lord to them, but they did turn away from it.36-48. And when it is said to them: "Spend of that with which Allah has provided you," those who disbelieve say to those who believe: "Shall we feed those whom, if Allah willed, He (Himself) would have fed? You are only in a plain error."
۔۳۶۔۴۸۔و قیل لھم انفقوا مما رزقکم اﷲ، قال الذین کفروا للذین آمنو۔ جن ان سے کہا جاتا ہے کہ جو رزق اﷲ نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرو، تو کافر مومنین کو کہتے ہیں، انطعم من لو یشاء اﷲ اطعمہ، اگر خدا کو منظور ہوتا کہ یہ بھوکے نہ رہیں تو وہ خود ان کو کھلاتا۔تو قرآن یہ جواب دیتا ہے کہ ان انتم الا فی ضلال مبین، تم واضح گمراہی میں ہو
۔ یعنی تمہیں خود پتہ ہے کہ خدا خود آکر رزق تقسیم نہیں کرتا یا آکر روٹی کھلاتا بلکہ رزق کی پروڈکش اور تقسیم انسانوں کے ذریعے کرتا ہے۔کافروں کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو بھوکے ہیں تو اﷲ ان کو خود بھوکا رکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے تم ہم سے ایسی باتیں نہ کرو۔جو کہ اﷲ کی مرضی ، منشاء کے بر خلاف ہے۔ تو اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ تم غلط سوچ رہے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں اﷲ خود آ کر روزی نہیں دیتا۔ یہاں اس نے جہاں ہر چیز کے اسباب و ذرائع رکھے ہوئے ہیں ۔اس نے رزق کے سامان رکھ دئے ہیں لیکن اس کی پروڈکشن اور تقسیم انسانوں کے ہاتھ میں رکھی ہے اس طرح وہ غریبوں مسکینوں کا رزق کا بندوبست دوسروں کے ذریعے کرتا ہے۔ کسی بھی ملک میں اس رزق پہنچانے کی آخری ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔کہ وہ انتظام کرے کہ کوئی بھوکا نہ رہے یا پھر معاشرے کی ذمہ داری بنتی ہے اگر حکومت نہ کرے۔ سویڈن میں اگر کوئی بھوکا رہے تو اس پر خود کشی کا مقدمہ بن جاتا ہے کہ حکومت سے مدد کیوں نہیں لی جبکہ حکومت نے اتنا اچھا انتظام کر رکھا ہے
اﷲ تعالی محتاجوں کا رزق بھی انسانوں کے ذریعے کیسے دلایا کرتا ہے۔؛۔
26 اکتوبر 2009 کو ایک عجیب واقعہ ہوا جس کے ذریعے اﷲ تعالی نے مجھے ایسا علم عطا فرمایا جس نے اﷲ سبحانہ تعالی کی ذات پر میرا یقین پختہ کر دیا کہ وہی ہمارا مال، پروردگار، قائم رکھنے والا، حفاظت کرنے والا، ہر ضرورت مہیا کرنے والا ہے ۔ لوگ تو صرف ذریعہ بنتے ہیں کیونکہ اس نے خود آکر تو رزق نہیں دینا۔ اﷲ تعالی نے مجھے ایک واقعہ سے اس کی سمجھ عطا فرمائی ۔میں کہیں گیا ہوا تھا واپسی کے لئے میں نے کار کا ڈور ہینڈل اٹھایا تو مجھے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی اور ہینڈل وہی پھنس گیا۔پہلے کوفت ہوئی کہ یہ کیا مصیبت ہے، بیٹھے بٹھائے مشکل آ گئی ہے۔ پھر ذہن میں آیا کہ چل کر فورا ٹھیک کروا نا پڑے گا کیونکہ میں نے شہر جانا تھا ۔ڈرائیور سیٹ کا ہینڈل ہے شیشہ کھلا رکھنا پڑ ے گا تا کہ اندر سے کھول سکیں۔ اسی لئے واپسی کے راستے میں ایک جگہ رکا تو مکینک نے کہا کہ اس کے پاس پہلے ہی کام ہے فوری نہیں کر سکتا ۔دوسرے گراج سے بھی یہی جواب ملا۔ تیسری جگہ مکینک نے فوری ٹھیک کرنے کی حامی بھر لی اور میں کار کے باہر کرسی پر بیٹھ گیا۔اس کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ نوجوان لڑکا بہت ہی غریب ہے۔غربت مایوس چہرے سے نظر آ رہی تھی۔اس نے جب لاک ٹھیک کرنا شروع کیا تو کہنے لگا کہ یہ پن کیسے گر سکتی ہے ایک طرف گاڑی کی باڈی ہے دوسری طرف پلاسٹک کاکور۔ تو میں نے کہا کہ گر گئی ہے کیسے مجھے پتہ نہیں مگر گری توہے تبھی تمہارے پاس آیا ہوں ۔
میں بیٹھا دیکھ رہا تھا تو اﷲ تعالیٰ نے ذہن میں فوراً یہ بات ڈال دی کہ کہ بھئی اس لڑکے کو ہم نے رزق دینا تھا اورتمھیں ذریعہ بنانا تھا۔اس لئے تمھاری گاڑی کا ہینڈل خراب ہوا۔ واقعی جب میں نے ہینڈل کا سسٹم دیکھا تو ہینڈل کی سپرنگ میں سے پن کو نکلنا نہیں چاہیے تھاکیوں یہ پن نکلی یہ اﷲ کی مرضی، حکم کے تحت نکلی تاکہ میں ٹھیک کروانے کے بہانے اس لڑکے کے پاس جاؤں۔حالانکہ میں کسی اور جگہ جا سکتا تھا اور گیا بھی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔اس لڑکے کی ضرورت پوری کرنے کیلئے ہی اﷲ تعالیٰ نے مجھے بھیجا۔بلکہ میرا یہ ذاتی تجربہ بھی ہے کہ جب میری جیب میں پیسے ہوں تو کوئی خرچہ نکل آتا ہے۔ زندگی میں پہلی دفعہ اس کی آج سمجھ آئی تو اﷲ تعالیٰ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔کہ وہ میرے ذریعے میرے رزق میں سے دوسروں کو دلا کر مجھے یہ چانس دے رہا ہے ورنہ پہلے کبھی کبھار کوفت ہوتی تھی کہ میرا خواہ مخواہ کا نقصان ہو جاتا ہے۔ آج سمجھ آئے۔
26 اکتوبر 2009 کے واقع نے مجھے دورے رزق بارے یعنی پانی، پھیل فروٹ سوچنے پر مجبور کیا اسی سوچ کے نتائج شیئر کرنا ضروری ہیں۔ ہم سائنس میں پڑھتے ہیں کہ کس طرح اﷲ تعالیٰ نے دنیا میں ہر جگہ پانی کی سپلائی نظام قائم کیا ہوا ہے کیونکہ تمام جان دار مخلوقات کی زندگی کا دارمدار پانی پر ہے کیونکہ سب کی پیدائش بھی پانی سے ہی ہوئی ہے۔ ۔ سمندروں سے بخارات کے ذریعے پانی اڑ کر بادل بنتے ہیں پھر وہ اس جگہ جا کر برستے ہیں جہاں زمین ، انسان ، حیانات، نباتا ت کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ پانی زمین کے اندر بھی چلا جاتا ہے، جو کہ سٹوریج کے کام آتا ہے اور پھر سارا سال لوگ زیر زمین سے صاف پانی نکال کر پیتے ہیں ۔ کچھ پانی بہہ کر ندیوں، دریاؤں کے ذریعے پھر سمندر میں واپس پہنچ جاتا ہے اور پورے راستے میں ارد گرد کے علاقوں کے زیر زمین پانی کو پھر سے بھر دیتا ہے۔ پہاڑوں پر سردیوں میں برف پڑتی ہے جو گرمیوں میں پگھل کر دریاؤں اور نہروں کو پانی سپلائی کرتا ہے۔ اسی طرح نباتات کا سسٹم ہے۔ کہ کچھ پانی زمین کے اندر کچھ فاصلے تک وتر کے طور رہتا ہے جو کہ نباتات کی جڑوں کے ذریعے اوپر پتوں تک جاتا ہے اور درخت پھل فروٹ دیتے ہیں ۔ گھاس سر سبز رہتی ہے۔ یہ بات ہر جگہ آپ کو نظر آئے گی۔اسی طرح لوگوں کی ایندھن کی ضروریات کے لئے درخت۔ پٹرل پیدا کئے ہیں ۔ ایندھن جلانے سے آگ پیدا ہو کر حرارت چیزوں کو گرم کرتی ہے۔ حرارت سے مشینیں چلتی ہیں اور مکینیکل انرجی بھی تبدیل ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
35-27. See you not that Allah sends down water (rain) from the sky, and We produce therewith fruits of varying colours, and among the mountains are streaks white and red, of varying colours and (others) very black.
28. And of men and Ad-Dawab (moving living creatures, beasts, etc.), and cattle, in like manner of various colours. It is only those who have knowledge among His slaves that fear Allah. Verily, Allah is All-Mighty, Oft-Forgiving.
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پانی پہنچانے کی ذمہ داری کے لئے اﷲ تعالی نے قوانین فطرت کے تحت سمندر کے کھارے پانی کی وجہ سے میٹھے پانی پہنچانے کا کیسا خوبصورت نظام چلایا ہوا ہے۔ اسی طرح ecological balance میں بھی اﷲ تعالی نے مختلف جانداروں کے ذریعے بندو بست کیا ہے۔ فضا میں آکسیجن کی مقدار کی فراہمی کے لئے درختوں اور نباتا ت کا کیا ہی پرفیکٹ نظام بنایا ہے، اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے رزق پہنچانے کا سسٹم قائم کیا ہوا ہے کہ کس کو کس کے ذریعے، کب رزق پہنچانا ہے وہی جانتا ہے۔ یہی دو سو روپے جو میں نے اس لڑکے کو دئیے وہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرے گا تو کسی اور کی رزق کی ضرورت کو پوری کرے گا۔ جب وہ کہتا ہے کہ میں جس کو چاہوں بے حد و حساب رزق دے دوں کسی کو ناپ تول کر دیتا ہے۔ اور تمھیں پتا بھی نہیں چلتا کہ تمھیں رزق کہاں سے پہنچتا ہے۔ یا زمین پر کوئی بھی ایسی جاندار چیز نہیں جس کو رزق نہ پہنچتا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ، رزق کا فیصلہ آسمانوں میں ہوتا ہے پہنچتا زمین پر کسی انسان کے ذریعے ہی ہے۔
علم بھی اس کے رزق میں سے ایک رزق اور نعمت ہے ۔اس کی کائنات اور قدرت کا علم بھی تب ہی ملتا ہے اور اس کی سمجھ بھی تبھی آتی ہے جب اس کی مرضی ہوتی ہے۔ اس کا بھی ایک سسٹم ہے ۔ کہ انسانوں تک اس کا علم کس سسٹم کے تحت پہنچتا ہے۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ آیت الکرسی میں فرماتا ہے ولا یحیطون بشیء امن العلم الا بما شاء ۔میرے علم میں سے کوئی کسی شے کا احاطہ نہیں کر سکتا جب تک میں نہ چاہوں گا۔ اسی طرح کس نے کیا پیشہ اختیار کرنا ہے، اس کا فیصلہ بھی والدین کرتے ہیں یا خود بچے کو اسی کا شوق بھی دیتا ہے اور اسی کا عکم حاصل کیا جاتا ہے۔ الحمد اﷲ کہ اس نے مجھے تمام قسم کے رزق کے سسٹم کو سمجھنے کا علم عطا فرمایا کہ مالی توازن کیسے قائم ہو رہا ہے اس دنیا میں۔یہ میں آپ کے ساتھ اس لئے شیئر کر رہاں کہ رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ نعمت کا شکر یہ بھی ہے کہ اسے پھیلایا جائے۔
ایک اور واقعہ سے اس سسٹم کی ایک اورتفصیل بتاتا ہوں۔کہ خیالات کے ذریعے اﷲ کی ذات کیسے پیغام پہنچانتی ہے اور کیسے چین ری ایکشن کے ذریعے کہاں رزق پہنچایا جاتا۔ ٹی وی پر اشفاق احمد بتارہے تھے کہ وہ ہر صبح کسی کے بھیجے ہوئے کارڈز میں سے باری باری ایک کارڈ دیکھ کر اس کو دعا دیتے ہیں کہ اس نے انکو یاد رکھا۔یعنی اپنے ساتھ بھلائی کرنے والوں کو یاد رکھنا یا ان کے لئے دعا کرنا بھی ان کی بھلائی کا جواب دینا بنتا ہے۔ اشفاق احمد کا یہ خیال بہت سے لوگوں تک پہنچا اور یہ خیال پھر کئی لوگوں کی غائبانہ مالی مدد کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اچھائی کا ذکر کروگے تو اچھائی پھیلے گی،
اخوت، این جی او کے ڈاکٹر امجدثاقب صاحب کہتے ہیں کہ ایک دن مجھے خیال آیا ہمارے ایک ٹیچر نے بڑی محبت سے پڑھایا تھا بوڑھے ہو گئے ہونگے ان کو شاید مدد کی ضرورت ہو، یہ سوچ کر ان کو ایک مناسب رقم بھیج دی۔ تو ان کا جواب آیا کہ علامہ اقبال شاعر مشرق اس لئے بنے کہ انہوں نے ایک کروڑ مرتبہ درود شریف پڑھا تھا۔ان کی طرح میں بھی دس لاکھ تک پڑھ چکا ہوں۔۔ مجھے کچھ رقم کی ضرورت تھی مگر میں کسی سے مانگنا نہیں چاہ رہا تھا ۔ مجھے یقین تھا کہ درود شریف کی برکت سے کہیں سے مدد آئے گی۔ مجھے جتنی رقم کی ضرورت تھی اتنی ہی آ پ نے بھیج دی۔ امجد صاحب کہتے ہیں کہ ان کو مدد تو کہیں سے بھی مل جانی تھی مگر میری سعادت اس وجہ سے کہ میں نے استاد کی شفقت کے جواب میں کچھ عملی قدم اٹھانے کا سوچا تھا۔ مجھے ملی۔ یا اﷲ تعالی نے مجھے نیکی کی توفیق دینی تھی تو مجھے خیال دیا۔ کیونکہ اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ اچھا کیال اس کی طرف سے آتا ہے۔
میرے ایک عزیز نے بتایا کہ وہ فروٹ خرید رہے تھے کہ ایک غریب عورت دو بچوں کے ساتھ فروٹ کی قیمتیں پوچھی جا رہی تھی اور قیمتیں سن کر ان کے چہرے کے تاثر سے مایوسی نظر آنے لگتی تھی تو انہوں نے اپنا فروٹ ان کو تحفے کے طور پر دے دیا تو بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔
میرے بیٹے نے انگلینڈ سے پی آئی اے کے اشتہار کے جواب میں درخواست بھیج دی۔ اس سے مہینہ پہلے ویسے ہی ایک تاریخ سوچ کر سیٹ بک کرا لی۔ جب انٹرویو کی کال آئی تو یہ اس تاریخ سے صرف چند دن بعد تھی جس دن وہ وہاں سے چلے تو چند گھنٹے بعد آئیس لینڈ میں آتش فشان پھٹا اور اس کی گرد انگلینڈ میں پھیل گئی اور رن وے بہت سارے دنوں کے لئے بند ہو گئے۔ چونکہ میرے بیٹے کا رزق پی آئی اے میں لکھا تھا، اس لئے اﷲ تعالی نے ہی اس تاریخ کو سیٹ بک کرنے کا ذہن میں ڈالا تھا۔ یہ چھوٹے چھوٹ واقعات اس کائنات کے مالک اور چلانے والے کی موجودی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔
محتاج کیوں ہوتے ہیں ۔ یہ واصف علی واصف ؒ کی زبانی سنیں ۔وہٖ لکھتے ہیں کہ ایک دن میں سیر کر رہا تھا کہ سامنے سے ان کی طرف ایک فقیر آتا نظر آیا۔ اسے دیکھ کر خیال آیا کہ یہ اب پیسے مانگے گا۔ فقیر پاس آیا تو انہوں نے پیسے مانگنے پر اسے جھڑکا تو فقیر کہنے لگا کہ میں تو تمہیں غنی بنانے کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔ میں نہ مانگوں تو سخی کیسے بنو گے۔ یعنی دنیا میں جب آپ سے کوئی مدد مانگتا ہے تو اﷲ تعالی آپ کو نیکی کی توفیق دینے کے لئے بھیجتا ہے۔ اﷲ آپ کی آخرت سنوارنا چاہتا ہے تا کہ وہاں کے بینک میں نیکیاں جمع ہوں ۔ اگر کوئی مستحق غیرت کی وجہ سے مانگے تو اس کی خود داری اور عزت کی حفاظت کریں اور خٖفیہ مدد کریں۔ محتاج سزا کے طور پر نہیں بنتے بلکہ سسٹم کے ڈیزائین کا حصہ ہیں ۔ ان کا حساب کتاب بھی کم ہوگا جن کو اﷲ تعالی نے وافر دولت دی ہوگی انکم ٹیکس کی طرح ان کی آمدنی اور خرچ کا حساب بھی لمبا ہوگا۔ امیر تبھی بچیں گے اگر انہوں نے محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مدد کی ہوگی کیونکہ اسی لئے ان کو دولت دے کر ٹسٹ کیا جائے گا۔
حضرت عمر ؓ کو جب خلیفہ بنا یا گیا تو اسی لئے خطبے میں یہ بھی کہا تھا کہ " اﷲ تعالی میرے ذریعے تمہاری اور تمہارے ذریعے میری آزمائش کرے گا"۔یعنی جن سے واسطہ پڑتا ہے ان کے ذریعے ایک دوسرے کی آزمائش کی جاتی ہے۔کہ رد عمل کے طور پر کیسے برتاؤ کرتے ہیں
رزق کمانے میں بالکل جھجک نہیں ہونی چاہئے دو مثالوں سے سمجھاؤں گا۔ ہماری نوکرانی کے بیٹے نے میٹرک کا امتحان دیا نتیجے کے انتظار تک فارغ تھا۔ ہم نے مشورہ دیا کہ اسے بری صحبت میں پڑنے کے ڈر سے کسی چھوٹے موٹے کام پر لگا دو۔ جب اسے ماں نے ایک کام پر لگانا چاہا تو کہنے لگا کہ میں اتنا بھاری ہوں کہ مجھے روٹی بھی نہیں دے سکتے۔ جبکہ ہمارے قریب ایک پٹھان مزدور فیملی رہتی ہے جب اسے کوئی کام کے لئے کہتے ہیں جیسے گلی صاف کر دو تو بچوں کو بھیج دیتا ہے یا پانی کی ٹینکی صاف کر د تو اپنے بچوں کوبھی ساتھ لگاتا ہے اور کام کی عادت ڈلواتا ہے
میں نے چند واقعات لکھے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ آپ خود اردگرد دیکھیں دوسروں کی باتیں سنیں اور اﷲ سبحانہ تعالی کے سسٹم
کو سمجھیں اور اگر آپ کے ذریعے اﷲ دوسروں کو رزق پہنچائے تو اسے خوش قسمتی سمجھیں ۔ جب کوئی آپ کی ضروریات کو پورا کریں تو اس کا شکریہ ادا کریں ۔ رزق میں اونچ نیچ کا فرق سمجھیں۔ کہ یہ اﷲ کا ڈیزائن کردہ ہے کہ لوگوں کو نیکی کا موقع عطا فرمائے اور ایک آدمی کودوسرے سے آزماتا ہے۔
اﷲ تعالی میں حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا شوق دے تا کہ ہمارے ہم وطنوں میں کوئی بھوکا نہ سوئے یا خود کشی پر مجبور نہ ہو نہ ہی کوئی ماں یا باپ بچے بیچنے پر مجبور ہو۔ آمین
Imtiaz Ali
About the Author: Imtiaz Ali Read More Articles by Imtiaz Ali: 37 Articles with 39338 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.