ظلم سے بجتی امیدوں کا چراغ
(shafiq ahmad dinar khan, peshawar pakistan)
بے بس نوجوان کی کہانی |
|
احمد٠٠٠٠گھر سے نکلتے ہوئے٠٠٠ارے
اماں ٠٠٠اب بس بھی کرونہ٠٠٠
اچھا ! رونا بند کرو٠٠٠میں تھوڑی نہ ہمیشہ کیلیے جا رہا ہوں۔ بس دو مہینے
کے بعد عید کی چٹھیاں ہو رہی ہے٠٠٠آجاؤں گا٠٠٠۔
احمد ؛ مسکراتے ہوئے٠٠٠
پھر بہت جلد اپنی جان سے پیا ری اما کے ہاتھوں سے بنا ے گئے روٹی اور سالن
کھاوں گا۔ کیونکہ ہاسٹل کی دال روٹی سے ویسے بھی تنگ آگیا ہوں۔
امی؛ آنسو بھرے ٍآنکھوں میں٠٠٠
میری جاں آپ پر فداہو،
صدا تمھا رے چہرے پر خوشی یونہی کھلتی رہے۔
اچھا بیٹا،
خدا حا فظ٠٠٠اپنا خیا ل رکھنا٠٠٠
احمد اللہ حا فظ امی جاں
احمد؛ بیچلر کا طا لب علم تھا۔ موسم بہا ر کی چھٹیاں گزارنے گھر آیا ہوا
تھا۔ بہت ہی خوش اخلاق اور زہین نوجوان تھا۔
گھر میں صرف ان کے بوڑے ماں باپ تھے۔جو کہ زندگی کی پہیے کو چلانے کیلیے
سخت محنت کرتے تھے۔اور سارا بوجھ اپنے کندھوں پر لے کے احمد کو تعلیم
دلوانا چاہتے تھے۔ تاکہ ان کا بیٹا ایک اچھا انسان بن کے ان کی زندگی
سنوارےاور انسانیت کی خدمت میں اپنا کردار ادا کریں٠٠٠غرض بوڑے والدیں کو
اپنے بیٹے سے بہت سی امیدٰیں اور توقعا ت وابستہ تھی۔
کیونکہ احمد ہی انکے بڑھاپے کی لاٹھی، انکی امیدوں کا چراغ ، اور ان کا
اکلوتا سہاراتھا۔
احمد اڈے میں٠٠٠
شکریہ بھا ئی صاحب٠٠٠٠(ٹکٹ لیتے ہوئے)
احمد بس میں بیٹھ گیا۔چونکہ مسافت زیادہ تھی، تھوڑا کچھ نظا رہ کرنے کے
بعدجیب سے مو بائل نکا لا اور ائیر فون لگا کہ انجوائے کرنے لگا پھر جب جی
بھر گیا۔تھوڑی دیر فیس بک کیا اور اسکی بعد تکیہ لگا کہ تماشا کرنے لگا۔
کچھ دیر خا موش رہنے کے بعدآحمد سوچوں میں ڈوب گیا۔
‘‘اپنے سپنوں کی دنیا میں کھو ئے آحمدکو ان کی والدیں کی یاد اور امیدٰیں
تڑپا رہی تھی،کہ میرے والدین نے اپنی خوشیوں کی قربا نی دے کر مجھے اس
اسٹیج تک لایا۔
تو اب میرا کیا کردار ہو گا؟میں کیا کر سکتا ہوں؟
کیونکہ آجکل ملک میں بھی وسائل کم اور مسائل زیادہ ہے٠٠٠
بہر حال خود کو مطمئن کرتے ہوےانشاء اللہ میں اپنے والدین کی امیدوں پر
پورا اتروں گا، اور حقیقی معنوں میں سچا انساں بن کہ اپنی حقیقی ہونے کا
ثبوت دوں گا۔
اپنی نشیمن سے دور ہمیشہ سفر پہ رہا،
زندگی کے اتاچھراو سے واقف ہوتا رہا،
مقصدیت سے آشنا ہوااور اب یہ میرا فرض بنتا ہے ک محبت کے ساتھ اپنا فرض اور
اپنی زمہ داری ادا کروں٠٠٠
بس کیا تھا، یونہی خیا لات میں خود سے محو گفتگو تھا، کہ اچانک بس کلنڈر نے
آواز دی ۔
چلو چلو اترو بھائیو٠٠٠٠شاباش٠٠٠پہنچ گئے ٠٠٠
احمد بیگ لے بس سے اترنے ہی والے تھےکہ اچانک زور دار دھماکہ ہوا٠٠٠٠
ایمر جنسی نا فذ کر دی گئی،ایمبولیسوں کی آوازیں آنے لگیں،سیکو ریٹی اہلکا
روں نے جگہ کو گھیرے میں لے لیا۔
(پتہ نہیں کہ ہمیں تحفظ فراہم کرنے والے یہ سیکو رٹی نا خوشگوار واقعہ ہونے
سے پہلے کہاں ہوتے ہے؟)
بس کیا تھا٠٠٠٠
نوجوان احمد زمیں پر پڑا تھا، بے بس امیدوں کے ساتھ، سسکتے سسکتے اہوں میں،
پر ارماں خواب لیے، ادھوری احساس کے ساتھ ، ڈوبتے سورج سے شکوہ کرتے ہوے،
لب پہ اما جاں، ابا کے ترانے لیے اپنی خالقق حقیقی سے جا ملے٠٠٠
نکلے تھے سفر پہ یہ زاد لاہ ٠٠٠٠پر کھو چکے نشیمن |
|