محبت کتنا عظیم جذبہ ہے کہ انسان اگر وجود
کائنات سے لے کر اپنے اردگرد موجود تمام اشیاء کو صرف چند سیکنڈ کے لیے ہی
غور سے دیکھے تو اسے پتا لگ جائے گا کہ اس جیسا عظیم جذبہ اس پوری کائنات
میں نہیں ہے محبت زندگی بھی ہے اور راہ نجات بھی ہے مگر میں جب موجودہ
زمانے میں کی جانے والی محبت کو کشید کرتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں ، ہوس،
لالچ ، منافقت، جھوٹ ، بے ایمانی اور خود غرضی کے مرکب کو محبت کا نام دے
دیا جاتا ہے حالاں کہ ان عوامل سے دور دور تک محبت جیسے جذبہ کا تعلق ہی
نہیں ہے ۔ جب ان عوامل کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور محبت کو دوسرے پلڑے
میں رکھا جاتا ہے تو محبت ہار ہی جاتی ہے پھر محبت نے بدنام ہی ہونا ہے
کیوں کہ محبت کا نام ہوس، لالچ ، منافقت، جھوٹ ، بے ایمانی اور خودغرضی جو
بن گیا ہے ۔ میں تو حیران ہوں اس محبت پر کہ جیسے ہی دونوں کے درمیان تعلق
ختم ہوا تو گالیوں او ربددعاؤں کا وہ سلسلہ دونوں طرف سے شروع ہوتا ہے کہ
گھمان دشمنی کا ہوتا ہے ۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو شاید کچھ بہترتھا مگر بات
آگے جاتے جاتے تصاویر اور ویڈیو بلیک میلنگ تک چلی جاتی ہے۔اس جذبہ کو
انسان نے اتنا قبیح بنا دیا ہے کہ سوشل میڈیا اس کا ثبوت دینے کے لیے کافی
ہے ۔۔۔یہ محبت ہے ۔۔۔واہ کیا عجیب محبت ہے ۔۔۔ہاں جس محبت میں ہوس، لالچ،
منافقت ، جھوٹ ، بے ایمانی اور خودغرضی کا حصول ہو تو وہ محبت ختم ہو ہی
جاتی ہے ورنہ محبت تو کبھی نہ ختم ہونے والا جذبہ ہے ۔موجودہ لالچ کو جو
محبت کا نام دے دیا گیا ہے کے بارے میں جب سوچا جاتا ہے تو ذہن متنفر سا ہو
جاتا ہے مگر جب تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو ہمیں دور نبوی ﷺ سے ایسے
واقعات ملتے ہیں جن سے محبت کی عظمت کا ادراک ہوتا ہے ۔ احاطہ کیجیے
طائف کے بازار اور گلیاں گواہ ہیں کہ وجۂ کائنات پر جب پتھر برسائے جاتے تو
تکلیف کی شدت سے یہ عظیم ہستی جب بیٹھتی تو طائف کے اوباش اور بازاری لڑکے
بازو پکڑ کر اس ہستی کو اٹھاتے او رپھر پتھر برسانہ شروع کردیتے اور ساتھ
ساتھ قہقہے لگاتے اس عظیم ہستی کا عاشق ساتھ موجود ہے وہ جب ان اوباش لڑکوں
سے اس عظیم ہستی کو بچاتا تو اسے بھی پتھر ایسے لگتے کہ اس عاشق کا سر بھی
زخمی ہو جاتا ہے ۔جب جسم زخمی زخمی ہو گیا اور تھکاوٹ سے برا حال ہوا تو
ایک باغ میں سستانے کے لیے بیٹھ گئے مگر ان لوگوں کے لیے بددعا کا ایک لفظ
بھی منہ سے نہ نکالاجنھوں نے ان کے جسم پتھروں سے خون خون کر دیے۔اس عظیم
ہستی کی یہ حالت دیکھ کر فوراً فرشتہ آیا اور اس عظیم ہستی سے کہا کہ اگر
آپ کہیں تو مکہ اور طائف کے پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں جس سے تما م لوگ پس
جائیں مگر ۔۔۔مگر قربان جائیں اس عظیم ہستی کے کہ جنھوں نے ان کے لیے بددعا
نہ کی اور فوراً ملک الجبال کو کہا کہ نہیں ایسا نہیں کرو۔۔۔۔۔اتنی محبت
۔۔۔۔اتنی محبت
اُحد کے میدان میں حق و باطل کے درمیان جنگ و جدل عروج پر تھی کہ اسی اثنا
ء میں ایک پتھر رحمت عالم حضو ر ﷺ کے چہرہ مبارک پر لگتا ہے جس کی وجہ سے
آپﷺ پیچھے گڑھے میں گِر جاتے ہیں ۔اس موقعہ پر صحابہ کرام ؓ یہ سمجھے کہ آپ
ﷺ شہید ہوگئے ہیں اس خبر کی وجہ سے میدانِ اُحد میں ایک بھونچال سا پیدا ہو
جاتا ہے صحابہ کرام ؓ روتے اور چیختے چلاتے ہوئے تلواریں اور تیر چلا رہے
تھے کہ اتنے میں حضور ﷺ اس گڑھے سے باہرنکلتے ہیں ۔ آپ ﷺ کو زندہ دیکھ کر
صحابہ کرام ؓ کے چہرے خوشی سے تلملا اٹھے اور سب اس انتظار میں تھے کہ ابھی
آپ ﷺ ان کفار کے لیے بددعا کریں گے اور ان کا کام تمام ہوجائے گا مگر ۔۔۔مگر
آپ ﷺکہ ہاتھ اٹھے اور دعا فرمائی ان کے لیے جنھوں نے آپ ﷺ کے دندان مبارک
شہید کردیے جنھوں نے آپ ﷺ کو تکلیف دی ،کہ اے میرے اﷲ ان کو معاف فرما دے
یہ مجھے جانتے نہیں ۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔۔ایسی محبت !
اس اُمت کا کفار کے ساتھ معاملہ تو ایک طرف، آج مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس
پیارے نبی ﷺ کی اُمت پر کہ جس کا ایک فرد کسی دوسرے کی ذرا سی غلطی کمی
کوتاہی پر کس حد تک گزر جاتا ہے، بڑی بڑی محبت کے دعوے دار، جینامرنا ساتھ
کے وعدے کرنے والوں کو بھی جب کوئی غلط فہمی ہوتی ہے، جب کوئی شک ہوتا ہے
یا کسی بات پر اختلاف ہو جاتاہے تو بددعاؤں کا وہ سلسلہ دونوں طرف سے جاری
ہوتاہے کہ محبت اور نفرت کو الگ کرنے والی ہزاروں میل چوڑی دیوار یک لخت گر
جاتی ہے اور دوست اور دشمن میں تفریق کرنا بھی مشکل ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔تمھیں
دنیا میں بھی سکون نہ ملے ، تمھاری قبر تباہ ہو، تم برباد ہو، اﷲ ہی تمھیں
پوچھے گا، میرا معاملہ اب تم سے ختم ہے تم جانواور اﷲ جانے ، میرا بدلہ اﷲ
لے گا، تمھاری رات کی نیندیں حرام ہوں، تمھاری اولاد تباہ و برباد ہو،
تمھارا گھر تباہ ہووغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔یہ کچھ بددعائیں ہیں ورنہ معاملات اتنے
سنگین اور بددعائیں اتنی شدید کہ ڈر کی وجہ سے میرے جیسے کم زور اور گناہ
گار شخص کی تو نیندیں یہ بددعائیں سن کر ہی اُڑ جاتی ہیں۔بہن بہن کو ،بہن
بھائی کو، بھائی بھائی کو،یعنی کے خون کے رشتے محبت ترک کر کے نفرت کی آگ
میں اتنا جھلس جاتے ہیں اور اس حد تک حدیں توڑ جاتے ہیں کہ انسانیت شرما
جاتی ہے ۔مجھے تو اس بات پر بھی حیرت ہے کہ نیند آدھی موت ہے اور لوگ نیند
میں جانے سے پہلے بھی ایک دوسرے سے خفا ہو کربدلے کی آگ میں ایسے جھلستے
ہیں کہ بددعائیں دے کر اور معاف نہ کر کے اس آدھی موت یعنی نیند کے خمار
میں جاتے ہیں ۔پتا نہیں کیسے انھیں سکون کی نیند آتی ہوگی اور پتا نہیں
کیسے یہ سوچتے ہوں گے کہ ہم قیامت والے دن اس ہستی سے شفاعت حاصل کریں گے
کہ جو محبت کا پیکر ہے یہ عظیم ہستی طائف میں پتھر کھا کر بھی کفار
کودعائیں دیتی تھی او راُحد کے میدان میں دندان مبارک شہید کروا کر بھی
کفار کودعائیں دیتی تھی ۔
نفرت کی آگ میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ دوسروں کو تعویز ،گنڈوں ، عملیات
، جسمانی، روحانی اور ذہنی اتنی تکلیف دی جاتی ہے کہ اگلا بندہ مرنے مارنے
تک پہنچ جاتا ہے پھر تکلیف دینے والا تکلیف دے کر راحت محسوس کرتا ہے ہر
وقت دل و دماغ میں دوسرے کو تکلیف پہنچانے کے شیطانی طریقہ کار چھائے رہتے
ہیں ۔۔۔یہ کروں۔۔۔وہ کروں۔۔۔ایسا کہتا تو مزا آتا۔۔۔اب یہ کہوں گا۔۔۔ایسے
ماروں گا ۔۔۔ایسے بدلہ لوں گا۔۔۔دل ہی دل میں بدلے کی آگ میں جھلستا رہتا
ہے کڑتا رہتا ہے لیکن معاف کر کے دل کو سکون نہیں دے گا اور پھر جب خود کسی
مصیبت، دکھ ،تکلیف اور درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو زبان سے ایک شکوہ ایک
گلہ اور ایک ہی درد بھری آہ نکلتی ہے۔۔۔۔۔پتا نہیں میرے ساتھ ایسا کیوں
ہورہا ہے ۔ |