گوگل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت

 قدرت نے انسان کو اپنی بہترین تخلیق کے طور پر پیدا کیا ہے۔ اس میں بے شمار صلاحیتوں کی لا متناہی استطاعت رکھی ہے۔ انسان وہ ہستی ہے جس نے اپنی پیدائش کے روز ہی میدان مار لیا اور اس کی تخلیق کو غیر ضروری کہنے والے ملائکہ کو بھرے دربار میں نظریں نیچی کرنے پر مجبور کر دیا۔اور اس طرح نائبِ خدا ہونے کا پہلا ثبوت کائنات کے سامنے رکھ دیا۔ انسان نے دنیا میں آ کر اپنی ودیعت کی گئی صلا حیتوں کا ہمیشہ نا صرف اظہار کیا بلکہ ان کا لوہا بھی منوایا ہے۔ ان صلا حیتوں کو مذید نکھارنے اور فروغ دینے کے لئے انسان نے ہمیشہ معلوم اور میسر سہولتوں کا استعمال کیا ۔ جیسے جیسے ایجادوں اور دریافتوں میں اضافہ ہوتا گیا انسان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا گیا ۔ انسان کی آج تک کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسان نے ماضی کے کندھوں پر قدم رکھ کر ہی مستقبل میں جھانکا ہے۔ سہولتوں سے فائدہ اٹھانا کسی طرح بھی برا نہیں اگر ان کے استعمال میں احتیاط کی جائے تو۔

یہ بات ایک قابلِ مشاہدہ حقیقت ہے کہ اکثر نابینا انسانوں کی یا دداشت بہت مضبوط ہوتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یاد اداشت کی مضبوطی کے لئے آنکھیں نکلوا لی جائیں۔ ایسا سوچنا یا کر نا نری حماقت ہے۔ آنکھوں کی افادیت اور ضرورت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ اضافی بات ہے کہ آنکھوں سے محروم لوگوں کو فطرت کچھ اور صلاحیتوں سے بھی نواز دیتی ہے۔ لیکن اس سے آنکھوں کی اپنی اہمیت پر سوال نہیں اٹھتا۔

انسان نے آج سے صدیوں پہلے جب حروفِ تہجی ایجاد کئے تو اس وقت بھی بہت سے لوگوں کی یہ رائے بنی ہو گی کہ اس سے حافظہ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو زد پہنچے گی۔ تو کیا ایسا ہوا ؟ ہرگز نہیں انسان اپنے لکھنے پڑھنے کی صلا حیت کے ساتھ ساتھ اپنی یاد اداشت کو بھی مضبوط کر تا چلا گیا۔ اگرچہ ایسے لوگ ہمارے آس پاس بھی موجود ہیں جو کہ ان پڑھ ہیں لیکن ان کے حافظے کا فی مضبوط ہیں۔ لیکن پڑھے لکھے لوگوں کے حافظوں کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں۔ بے شمار الفاظ، واقعات، مثالیں، حوالے اور طرح طرح کی باتیں ایسی یاد کرتے ہیں کہ سننے والے دھنگ رہ جاتے ہیں۔اسی بنا پر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ گوگل جیسی سہولت انسان کی یاداداشت کو ختم نہیں بلکہ فروغ دیتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے استعمال میں توازن برتا جائے تو۔

جب پرنٹنگ پریس بنا اور دھڑا دھڑ کتابیں انسان کے ہاتھ لگیں، تو انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جانی چاہئے تھی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہوا۔انسان نے کتابوں سے حقائق اور معلومات لے کر مذید کی تگ و دو میں اپنی توانائی اور وقت کو صرف کرنا سیکھ لیا۔اخبارات ، رسائل اور اسی طرح کا اور تحریری مواد انسان کی ذہنی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اس سے انسان کی ذہنی صلاحیتوں کو زنگ لگتا ہے تو یہ بات مطلقاً غلط ہے ۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوتا ہوتا توآج کا انسان اپنی یاد داشت بھول چکا ہوتا۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔ او نہ ہو گا۔ اسی بات کاگوگل پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔

اگر یاداشت پر ان معاونات کا اتنا ہی برا اثر پڑتا ہوتا تو ڈائریاں کھنے والے کچھ سالوں پر ڈائریوں میں لکھے ہوئے اشاروں سے کچھ بھی سمجھ نا پاتے کہ اس وقت کیا ہوا تھا۔ جب کہ اکثر لوگ ان اشاروں اور حوالوں سے کئی سال بعد کتابیں لکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ در اصل یہ معاونات انسان کے مددگار ہیں اور اسے اپنا کام کرنے میں سہولت اور بہتری فراہم کرتے ہیں۔یہی حال گوگل کا بھی ہے۔ اگر چہ گوگل کا حد سے زیادہ استعمال کرنے والوں پر اس کا برا اثر پڑنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے اور ایسا ہر سہولت استعمال کرنے والے پر ہوتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں سہولت کو نہیں بلکہ اسے استعمال کرنے والے کو مورودِ الزام ٹھہرایا جائے گا۔

موجودہ زمانے میں گوگل یا نیٹ کی افادیت اور سہولت سے کوئی با شعور انسان انکار نہیں کر سکتا۔بلکہ آج کے دور میں گوگل سے دور یا بے خبر رہنے والا انسان ان پڑھوں میں شمار ہو گا۔ آج گوگل ایک حقیقت ہے جس کا اقرار کرنا ہی پڑے گا ۔ گوگل کے بے تہاشا استعما ل سے اگر کسی کی یادادشت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر برا اثر پڑتا ہے تو یہ اس شخص کے گوگل کو نا مناسب طور پر استعمال کرنے کے باعث ہو گا ۔ اور اس کا الزام ایک بار پھر گوگل پر نہیں بلکہ اس پر آئے گا جس نے اس کے استعمال میں توازن نہیں برتا۔ توازن کے بغیر تو عبادت جیسی اچھی چیز بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اگر گوگل ہو جاتا ہے تو کون سی نئی بات ہے۔اگر سائنس نے انسان کو اتنی معلومات دی ہیں تو اس میں قصور انسان کا ہے اگر وہ ان معلومات کا استعمال غلط طور پر کرتا ہے تو۔ اور اگر اس علم کو انسان کی بہتری کے لئے استعمال کیا جائے تو انسان کے لئے نعمت سے کم نہیں ہے جبکہ اس کا برا استعمال اس کو انسان کے لئے زحمت بھی بنا دیتا ہے۔

گوگل جس آسانی سے ہمیں معلومات تک رسائی دیتا ہے وہ ایک عجوبے سے کم نہیں ہے۔ یہ سائنس کے عجوبات میں سے ہے۔ جس طرح باقی سائنسی چیزیں حقائق ہیں اور ان کی افادیت مسلمہ ہے اسی طرح نیٹ یا گوگل کی افادیت بھی آج کی مستحکم حقیقتوں میں سے ہے۔ اس کا فائدہ یا نقصان اس کے استعمال اور استعمال کرنے والے پر منحصر ہے۔

آج اگر گوگل کا استعمال ترک کر دیا جائے تو ہم صدیاں پیچھے چلے جائیں گے اور پھر کبھی آگے بھی نہیں آ سکیں گے۔ اس لئے اس دور میں گوگل کے خلاف باتیں کرنا انسان کو غار کے زمانے میں واپس لے جانے والی بات ہے، جس پر اب کوئی بھی تیار نہیں ہو سکتا۔
 
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 312967 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More