تخت لاہور سے بغاوت!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
بلاول زرداری نے تخت لاہور کے خلاف بغاوت
کا اعلان کردیا ہے، یہ انقلابی فیصلہ انہوں نے جنوبی پنجاب کے آخری ضلع
رحیم یار خان میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ․․․
جنوبی پنجاب کو ہر صورت میں صوبہ بنا یا جائے گا، قوم تخت لاہور والوں سے
ان کے مظالم کا حساب لے گی ․․․ بغاوت کے انجام کی بھی مجھے خبر ہے ․․․
وزیراعظم کا کسان پیکیج پٹواریوں کی نذر ہو چکا ہے ․․ پی پی نے اس خطہ میں
ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے ․․ یہاں سے صدر ، وزیراعظم، وزیر خارجہ، وزیر
خزانہ، سپیکر قومی اسمبلی، گورنر اور وزیراعلیٰ دیئے ․․․ اورنج ٹرین اور
میٹرو بس پر استعمال ہونے والا بجٹ پورے جنوبی پنجاب کے بجٹ سے زیادہ ہے
․․․ خطے کی محرومیاں بی بی کا بیٹا ہی ختم کرے گا ․․ قربانی دینا صرف بھٹو
جانتا ہے․․․‘‘۔ لکھی ہوئی تقریر کو پون گھنٹہ تک گرج برس کے کرنا (پڑھنا)
کافی مشکل کام ہے، جو انہوں نے اپنی روایتی تربیت کی بنا پر خوب نبھایا۔
جنوبی پنجا میں مخدوم احمد محمود کی مالی پوزیشن کی طرح سیاسی پوزیشن بھی
کافی مستحکم ہے۔ ایک طرف تو ان کے ایک کزن سندھ سے آئے اور ان کے لئے
کروڑوں کا محل بنایا گیا، جہاں انہوں نے قیام کیا اور اپنے مریدوں کو درشن
کروائے۔ پیرپگاڑا کے دورے کے چند ہی روز بعد مخدوم صاحب نے اپنی پارٹی کے
چیئرمین بلاول زرداری کے لئے جلسہ سجایا تو ان کے دوسرے کزن یوسف رضا
گیلانی نے ان کے ساتھ بھرپور معاونت کی۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے دو چار
حلقے مخدوم صاحب کی مٹھی میں ہوتے ہیں، مشرف دور میں جہانگیر ترین بھی یہیں
سے ہی ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ اس لئے جنوبی پنجاب میں ایک بہتر جلسہ
کرنے کے لئے جمال دین والی (رحیم یار خان) بہترین جگہ تھی۔ اپنے چیئرمین کے
ساتھ پارٹی قیادت بھی موجود تھی، خصوصی طیارے اور بہت سی سکیورٹی اور بلٹ
پروف گاڑیاں بھی۔ بلاول اگرچہ باہر کے پڑھے لکھے ہیں، مگر ان کو سیاسی
تربیت دینے والوں نے انہیں اسی رنگ میں رنگ لیا ہے، جس میں مقامی عوام خوش
ہوتے ہیں۔ لوگوں کو منصوبہ بندیوں، سلیقہ شعاریوں، اصول پرستیوں وغیرہ کی
بجائے بڑھکیں، دوسروں کو للکارنا، الزامات کی بوچھاڑ کرنا، پگڑیاں اچھالنا
اور دوسروں پر چھینٹے اڑانا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ اگر وہ عوام کو زبان کی
بجائے عمل کی سیاست کی طرف لاتے تو حالات مختلف ہوتے۔ سندھ حکومت میں وہ
انقلابی تبدیلیاں کرسکتے تھے۔ مغرب میں پڑھنے اور دنیا کو دیکھنے کے نتیجے
میں حاصل ہونے والی اچھی باتوں کو سندھ حکومت میں نافذ کرسکتے تھے، مگر
وائے ناکامی ․․․!
جنوبی پنجاب کی محرومیوں کی داستان بہت طویل ہے، یہ بھی شک نہیں کہ پی پی
کے دور میں مندرجہ بالا اعلیٰ ترین حکومتی عہدے جنوبی پنجاب کے حصے میں آتے
رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی یہاں سے گورنر دیئے ہیں، جن میں سے
ایک اب بھی موجود ہیں، اول تو یہ عہدہ نمائشی ہے، اس کے پاس اختیارات نہیں،
دوسری بات یہ کہ اگر صدر اور وزیراعظم بھی جنوبی پنجاب سے رہے ہیں اور پھر
بھی خطہ محروم ہے، تو کچھ غور کرنا چاہیے کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ گیلانی کے
دور میں جنوبی پنجاب کے بجٹ کا بڑا حصہ ملتان شہر پر لگا دیا گیا تھا۔ یہی
کچھ موجودہ پنجاب حکومت کر رہی ہے، کہ سارا بجٹ لاہور پر لگ رہا ہے، جنوبی
پنجاب کے حصے میں ’پھوک‘ ہی آرہا ہے۔ جہاں تک جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا
تعلق ہے، اس ضمن میں مسلم لیگ ن اور پی پی دونوں سیاست ہی کر رہی ہیں، یعنی
سیاسی بیان ہی دے رہی ہیں۔ چند برس قبل تک بہاول پور صوبہ کی بحالی کی
تحریک چلتی رہی ہے، جس میں ایک اہم فریق مخدوم احمد محمود بھی تھے، دوسرے
محمد علی درانی اور تیسرے نواب آف بہاول پور۔ مگر قومی الیکشن میں عوام نے
ان تینوں فریقوں کو اہمیت نہیں دی۔ احمد محمود اس سے پہلے ہی گورنر بن چکے
تھے اور دوسرے دونوں خاموشی کی بُکل مار کر مراکبے میں چلے گئے تھے۔ پی پی
کا حکومتی دور گزر چکا ہے، انہوں نے صوبہ بحال نہیں کیا، ن لیگ کا اب دور
ہے، صوبہ بحال نہیں ہورہا، اس کا مطلب یہی ہوا کہ یہ دونوں چاہتے ہی نہیں۔
رہ گئی بغاوت تو یہ اپنے کارکنوں کے جذبات بڑھکانے کی حد تک ایک کوشش
ہوسکتی ہے، مگر عمل سے اس نعرے کا بھی دور کا تعلق نہیں۔ آخری بات یہ کہ
خطے کی محرومیاں بی بی کا بیٹا دور کرے گا تو ماضی کچھ اور بتا رہا ہے، خود
بی بی کی بھی دو مرتبہ حکومت رہ چکی ہے، ایک مرتبہ گیلانی سرکار بھی، اگر
محرومیاں تب دور نہیں ہوئیں تو اب کونسی گیدڑ سنگھی آزمائی جائے گی؟ |
|