اولاد کی تربیت کیسے کی جائے؟

دور ِ حاضر کے اکثر مسلمان گھرانوں میں اولاد کی تربیت پر ایسی توجہ نہیں دی جاتی، جیسا کہ دین اسلام تقاضہ کرتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ والدین کی ان باتوں سے لا علمی بھی ہے جو اولاد کی صحیح تربیت کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ لہٰذا ذیل میں ہم مختصراَ َ اِن باتوں کی نشاندہی کر رہے ہیں، امید ہے کہ آپ حضرات و خواتین کو ان پر ضرور عمل کریں گے۔

ا۔ سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ اولاد کی تربیت صحیح اسلامی عقیدہ پر ہونی چاہیے۔ یعنی عقیدہ توحید (لاالٰہ الاللہ محمد رسول اللہ) کے معنی اور مفہوم کی مکمل سمجھ۔ یہ تربیت کا سب سے اہم مرحلہ ہے اور یہی اساس ہے۔ عقیدہ توحید کی ساری اقسام یعنی توحید رُبوبیت(اللہ تعالیٰ کو اپنا اور ساری کائنات کا اکیلا رب ماننا، سارے اختیارات اسی کے پاس ہیں، وہی رزق دیتا ہے، وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے۔ اسی کا حکم اور مرضی ساری دنیا اور آسمانوں پر چلتی ہے)، توحید الوہیت (جب اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا یکتا مالک ہے تو پھر عبادت بھی صرف اور صرف اسی ایک اﷲ کی کی جائے گی، اور اس کی عبادت میں کسی کو ہر گز شریک نہیں کیا جائے گا۔ نہ ہی کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ مدد کے لیے پکارا جائے گا اور نہ ہی اللہ کے علاوہ کسی دوسرے سے رزق اور اولاد کے لیے سوال کیا جائے گا۔ اللہ کے علاوہ نہ کسی کے سامنے سجدہ کیا جائے گا اور نہ ہی اللہ کے گھر بیت اللہ کے علاوہ کسی قبر یا درخت یا مزار کا طواف کیا جائے گا۔ اپنی ساری کی ساری منتیں، مرادیں اللہ ہی کے لیے مانی جائیں گی اور تمام عبادات صرف اور صرف اسی ایک وحدہ ُ لا شریک کے لیے کی جائیں گی)، توحید اسماء و صفات( یعنی اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے صفاتی نام ہیں، جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کو ان ناموں سے پکارا جائے اور ان ناموں میں کج روی نہ کی جائے) پر کامل ایمان رکھا جائے۔ مزید برآں شرک کی پہچان اور اس سے بچنے کے طریقوں پر بھی تفصیلی روشنی ڈالنی نہایت ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اولاد کی تربیت کرتے وقت، سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو بھی واضح کیا جائے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور آپ کی حدیثوں کی حیثیت اور ہماری زندگیوں میں اس کا مقام کیا ہونا چاہیےاسے واضح کیا جائے۔

ب۔ بچوں کی تربیت میں دوسری اہم بات عبادات پر ان کی تربیت ہے۔ مثلاً نمازِ پنجگانہ کو قائم کرنے کی اہمیت، اسے پڑھنے کا صحیح مسنون طریقہ، اِسی طرح روزہ اور دوسری عبادات کی ہماری زندگیوں اہمیت اور انھیں ادا کرنے کا صحیح طریقہ۔ یہ مرحلہ بھی انتہائی اہم ہے اور اس لئے والدین اپنی اولاد کو ان عبادات کو ادا کرنے کی ترغیب اور حکم دیں اور انھیں نہ ادا کرنے پر اُن پر سختی کریں، کیونکہ اس میں کوتاہی کی قطعی کوئی گنجائش نہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین فرض نماز تو دور کی بات، تہجد کے لیے بھی بچوں کو اٹھاتے تھے (صحیح بخاری)۔

ج۔ اس سلسلے کی آخری اور تیسری بات بچوں کو اخلاقیات کی تربیت دینا ہے اور انہیں ایک اچھا انسان اور ایک باایمان مسلمان بنانا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں گالی، جھوٹ بری عادتوں، غیبت، چوری اور دھوکہ بازی وغیرہ سے بچنے کی تربیت دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اِن اخلاقی برائیوں اور گناہوں کے بارے میں اپنی اولاد کے دلوں میں ڈر پیدا کرنا ہے۔ مزید براں، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے حقوق، کھانے پینے اور دوسرے کام کاج کے آداب، اور اللہ کا ڈر اور تقویٰ بھی اُن کے دلوں میں پیدا کرنا ہے۔

اولاد کی تربیت میں کی جانے والے چند بڑی بڑی غلطیاں

تربیت میں پہلی غلطی۔
محبت کو تربیت پر غلبہ دینا۔ یعنی بچوں کی غلطی پر انہیں محبت کی وجہ سے سزا نہ دی جائے۔ یہ غلط بات ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن کے منہ سے صدقہ کی کھجور کو نکال لیا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور اُن کے خاندان پر صدقہ حلال نہیں۔ لہٰذا اچھی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ محبت کو تربیت پر غلبہ نہ دیں۔

تربیت میں دوسری غلطی۔
ماں اور باپ بچوں میں عدل سے کام نہیں لیتے اور برابری کا رویہ اختیار نہیں کرتے۔ کسی بچے کو دوسرے بچے پر اور کسی بہو کو دوسری بہو پر فوقیت دیتے ہیں۔ حالانکہ یہاں پر انصاف سے کام لینا چاہیے اور سب بچوں سے ایک جیسی محبت اور انصاف کا معاملہ کرنا چاہیے۔

تربیت میں تیسری غلطی۔
دینی تعلیم اور عقیدہ کو پختہ کرنے کے بجائے دنیاوی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ دیناوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

تربیت میں چوتھی غلطی۔
بچوں کو بدعائیں اور گالیاں دینا اور لعن طعن کرنا، حالانکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے۔

تربیت میں پانچویں غلطی۔
لڑکیوں کی پیدائش پر ناراض ہونا، اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری کرنا۔

تربیت میں چھٹی غلطی۔
اولاد کے سامنے بُرے کاموں کا ارتکاب کرنا، یعنی والدہ کا فلمیں اور ڈرامے دیکھنا، غیبت کرنا، والد کا سگریٹ پینا اور جھوٹ بولنا وغیرہ وغیرہ۔
Mohammed Ammar Ashraf
About the Author: Mohammed Ammar Ashraf Read More Articles by Mohammed Ammar Ashraf: 9 Articles with 19992 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.