گھر ایک جنت ہے

تحریر: ثوبیہ اجمل

اس حقیقت سے تو سب ہی آشنا ہیں کہ گھر کا نظام مرد ور عورت یعنی میاں بیوی سے مل کر چلتا ہے۔ مرد بیرونی کام دیکھتا ہے جبکہ بیوی گھر کے کام کاج کرتی ہے۔ خاوند جہاں گھر کے اخراجات کے لئے سارا سارا دن باہر رہتا ہے، کہیں نا کہیں ملازمت کرتا ہے وہیں خواتین بھی گھر میں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتی ہیں۔

ایک خاتون خانہ کے ذمہ میاں کے علاوہ گھر کی دیگر اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جب میں بچوں کو سنبھالنا، خانہ داری، کچن دیکھنا اور صفائی ستھرائی شامل ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ مرد جب بھی اپنے آفس یا جہاں بھی وہ کام کرتے ہیں وہاں سے واپس آتے ہیں تو اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بیوی کو ہی آواز دیتے ہیں اور ہر چیز ان کو بیٹھے بٹھائے چاہیے ہوتی ہے۔ وہ اس بات کو بھی فراموش کو دیتے ہیں کہ بیوی بھی صبح سے کاموں میں مصروف ہے لیکن وہ خود اٹھ کر پانی بھی پینے کے روادار نہیں ہوتے۔ حالانکہ حق تو یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہے ہمیں خود اپنے کام کرنے چاہئیں۔ ہم بچوں کو بھی تلقین کرتے ہیں کہ اپنا کام خود کریں لیکن خود ان کے سامنے مثال نہیں بنتے اور بچے بھی بڑوں کے دیکھا دیکھی اپنے تمام کام اپنی ماں سے کروانے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو عورت پر کام کا بوجھ کتنا زیادہ ہو جاتا ہے۔

اس عادت میں مرد کی سوچ یہ نظر آتی ہے کے وہ خود کو عورت سے برتر سمجھتا ہے۔ حالانکہ مرد میں عورت کی بانسبت جسمانی طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنا تھوڑا بہت کم خود کر لینے اور بیوی کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بتا دینے تو اس گھر کا ماحول بھی بہت خوشگوار ہو سکتا ہے۔اور اگر مرد صرف بیٹھ کر حکم ہی چلاتا رہے گا تو بیوی ذہنی طور پر بھی تھکن کا شکار ہو گی اور جسمانی طور پر بھی۔ کام تو وہ کرہی دے گی لیکن یہاں پر یہ بات اہم ہے کہ وہ ایک انسان ہے مشین نہیں ہے۔

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ معاشی حالات کی وجہ سے کبھی عورت کو ملاذمت بھی کرنا پڑتی ہے اور گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے جس سے عورت پر ذمہ داریوں کا بوجھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ نوکری سے آئیں تو کچن منتظر ہوا، وہاں سے فارغ ہوئیں تو بچوں کی ذمہ داریاں پھر شوہر کے معاملات ایسے میں ناجانے ایک عورت ربوٹ کی ماند ہوکر رہے جاتی ہے۔ اس طرح رات گئے تک اسے کام کرنا پڑتا ہے۔ مگر میاں کو ہر چیز ٹائم پر چاہیے ہوتی ہے۔ ایسے میں شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کا خیال رکھے اور جہاں تک ممکن ہو نہ صرف اسے کام کا کہے بلکہ خود بھی اس کے ساتھ کام کاج میں ہاٹھ بٹائے۔

اسی طرح اگر بڑا خاندان ہو تو گھر کے تمام افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے طور جس قدر ممکن ہو اپنے کام خود کریں۔ تا کہ گھر کا ما حول خوشگوا ر رہے۔ اس طرح ایک دوسرے کا احساس کرنے سے محبت بھی بڑھ جائے گی۔ ایک دوسرے کا چھوٹی چھوٹی باتوں میں خیال رکھنا سیکھئے کیوں کہ ہمارا گھر ہماری جنت ہے اور یہ جنت ہمیں ہی خود سجانی ہے۔
Arif Jatoi
About the Author: Arif Jatoi Read More Articles by Arif Jatoi: 81 Articles with 69468 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.