میرے لوگ مر رہے ہیں
(Shah Faisal Naeem, Karachi)
یہ ستمبر ۲۰۱۵ء کا واقعہ ہے اُن دنوں ترکی
میں ہونے والی ریلی میں خود کش دھماکہ ہواتھا۔ یونیورسٹی آف زغرب کروشیا
میں میری پہلی کلاس تھی ٹیچر نے کلاس میں آتے ہی کہا:
"ترکی سیاحتی حوالے سے ایک اہم مقام ہے مگر وہاں ہونے والے دہشتگردی کے
واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ترکی اب محفوظ نہیں رہا۔ اس لیے وہاں جانا اب خطرے
سے خالی نہیں"۔
کلاس میں سو سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے سٹوڈنٹس موجود تھے۔ ٹیچر نے
جب کلاس میں ترکی کے حوالے سے بات کی تو اُس نے ترکی کے محفوظ نا ہونے کا
پیغام سو سے زائد ممالک کے باشندوں تک پہنچا دیا ۔ اُن کے دماغ میں ڈر کا
بیج بو دیا جو ترکی کے ہر مسافر تک یہ پیغام پہنچائیں گے۔
اس کے بعد کلاس میں کافی دیر تک دہشتگردی کی وجوہات پر بحث ہوتی رہی۔ آدھی
سے زائدکلاس اس کا ذمہ دار امریکہ اور اسرائیل کو ٹھہرا رہی تھی۔ اُن کا
کہنا تھا کہ دہشتگردی ایک بزنس کا روپ دھار چکی ہے جس کے سر پر ہاتھ امن کے
سب سے بڑے علمبردار کا ہے۔
میں سوچ رہا تھا کہ ترکی میں ایک واقعہ ہوا ہے اور لوگوں نے ترکی کو غیر
محفوظ کہنا شروع کر دیا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان ہے جہاں شاید ہی کوئی دن
ایسا گزرتا ہو جب دہشتگردی کا کوئی چھوٹا یا بڑا واقعہ پیش نا آتا ہو، جب
میڈیا زیادہ ریٹنگ حاصل کرنے کے لیے اس لہر کو دنیا بھر میں نا پھیلاتا ہو،
حکمران خاموش تماشائی کا کردار ادا نا کرتے ہوں اور امن کی باتیں کرنے
والوں کو مسلمان انسان دکھائی نا دیتے ہوں۔جب اقوام ِ عالم یہ واقعات
دیکھتے ہیں ان کو کیا تاثر ملتا ہو گا ؟پاکستا ن میں کون آنا پسند کرے گا؟
ملکی معیشت کا کیا ہو گا؟اس کی کیا گارنٹی ہے کہ دنیا میں چلتے پھرتے ہر
پاکستانی کو مشکوک نگاہوں سے نہیں دیکھا جائے گا؟
گلشن اقبال پارک میں قیامتِ صغریٰ کے مناظر دیکھنے کے بعد مجھے مختلف ممالک
سے دوستوں کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں:
ـ"Shah! I heard about blast in Lahore. Are you safe there"?
"Shah! I heard about blast in Lahore. Hope you and your family is safe
there"?
میں تمہیں کیا بتاؤں یارو! میرے لوگ مر رہے ہیں۔ میرے شہر جل رہے ہیں۔میں
پاکستان ہوں اس دھرتی کے ہر باسی سے میرارشتہ وفا کا ہے ۔ میں اُجڑے گھر
دیکھوں، لٹتے سہوگ دیکھوں،پتھرائی آنکھیں دیکھوں یا آسمانِ عالم سے پلٹ آنے
والی نامراد دعاؤں دیکھوں؟ اور پھر کہوں کہ ہاں میں اور میری فیملی ٹھیک
ہوں۔یہ ہو نہیں سکتا ۔
لوگو! امیر ِ شہر کی بے حسی دیکھوجس کا کہنا ہے کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں،
پہلے ہر روز لوگ مرتے تھے اب ۶ماہ بعد مرتے ہیں اور جو کہتا ہے کہ اتنے
لوگوں کا مر جانا تو عام ہے۔
میں کیا لکھوں ؟ بے ربط الفاظ ہیں، رقتِ قلب سے محروم دعائیں ہیں اور پھر
اُن کے مقبول ٹھہرنے کی تمنائیں ہیں ۔ ایسا ہو نہیں سکتا۔ |
|