طالب علمی کے ابتدائی دور میں ہی انہوں نے
ابو الکلام آزاد کی تحریرات گھول کر پی لی تھیں، ہم اِس عمر میں جن کتابوں
کو بھاری پتھر سمجھ کر چوم کے واپس اپنی جگہ رکھ دیتے ہیں، انہوں نے اپنی
حواشی کے ساتھ اس زمانے میں انہیں حرف حرف پڑھ ڈالا ہوتا ہے۔ طالب علمی میں
صبح ناشتہ کے پیسے، عیدی یا انعام میں ملنے والی رقم سے وہ کچھ اور خریدنے
کی بجائے کتابوں کی دکان پر کھڑے نظر آتے۔
وہ خاندان میں حبیب اللہ، مدرسہ میں حبیب حسین اور ‘‘فیس بک ڈائجسٹ‘‘ میں
محمد الفیصل کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ درس نظامی کی ابتدا انہوں نے جامعہ
عثمانیہ پشاور سے کی- متوسطہ، اولیٰ اور ثانیہ پڑھنے کے بعد کراچی، اپنی
جائے پیدائش کے لیے رخت سفر باندھا۔ ثالثہ بنوری ٹاون کی شاخ معارف العلوم
میں پڑھا۔ رابعہ تا دورہ حدیث اور پھر تخصص فی الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
سے کیا۔ فاتحہ فراغ کے بعد تقریباً دس سال جامعہ فاروقیہ کراچی میں جلالین
تک کتب کی تدریس کے ساتھ رفیق شعبہ تصنیف وتالیف بھی رہے۔شیخ الحدیث مولانا
سلیم اللہ خان کی "کشف الباری عما فی صحیح البخاری" کی ایک جلد ان کی
تحقیقات وتعلیقات کے ساتھ شائع ہوئی- دوسال سے جامعہ دارالھدیٰ گلشن اقبال
کراچی میں مدرس کے منصب پہ فائز ہیں۔
عربی و اردو ادب میں حصول کمال کا شوق ان کو زمانہ طلب علم ہی سے تھا- اور
لب پر یہی دعا ہوتی۔ ان کا کہنا ہے انسان کی اپنی سوچ ہی اس کی تقدیر ہے۔
حدیث ‘‘أنا عند ظن عبدي بي‘‘ کے مطابق گویا انسان اپنے ہاتھ سے اپنی تقدیر
تراشتا ہے۔ یوں رب نے ان کی تراشی ہوئی تقدیر جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے
ہی پوری کی۔ درجہ خامسہ کے سال وہ عربی اور اردو کے معیاری مجلات میں شائع
ہونے لگے، اٹھارہ برس کی عمر میں عبد الفتاح ابو غدہ کی کتاب "الرسول
المعلم و أساليبه في التعلیم" کا اردو میں "حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
بطور معلم" کے نام سے ترجمہ کیا- وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ترجمان
رسالہ ‘‘وفاق‘‘ میں طویل عرصہ تک تبصرہ کتب کی نازک ذمہ داری بہ خوبی
نبھائی، جامعہ فاروقیہ کے ‘‘الفاروق‘‘ عربی میگزین کے مدیر ہونے کا اعزاز
ملا- شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان حفظہ اللہ کے لیے کئی کالم لکھے جو
مختلف روزناموں کی زینت بنے۔
انہوں نے سب سے زیادہ ابو الکلام آزاد کو پڑھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے
لکھنا شروع کیا تو آزاد کے رنگ کی جھلک ان کی تحریر میں نظر آئی۔ وہ کہتے
ہیں آزاد کو لوگ غبار خاطر یا تذکرہ میں تلاشتے ہیں- وہ حقیقت میں داعئ
قرآن تھے- جس وقت دنیا پر جنگ عظیم دوم کے بادل چھاے ہوے تھے،سلطنت عثمانیہ
زوال پذیر تھی،برصغیر میں انگریز استعمار کے خلاف تحریکیں زوروں پر تھیں،تب
مولانا آزاد نے درس قرآن کے حلقے قائم کرکے عوام میں فہم قرآن کا ذوق بیدار
کیا- "ترجمان القرآن‘‘ میں وہ ایک داعی الی اللہ کے رنگ میں نظر آتے ہیں
اور یہی ان کی شخصیت کا جوہر ہے، جسے لوگ نظر انداز کرتے ہیں- ‘‘مسئلہ
خلافت‘‘ میں حدیث پر ان کی عمیق نگاہ کا پتا چلتا ہے، ‘‘خطوط آزاد‘‘ سے
تراجم بخاری پہ ان کی عمیق نظر نکھر کر سامنے آتی ہے، ‘‘تذکرہ‘‘ ان کی
چونتیس پینتیس سال کی عمر میں منصہ شہود پر آئی،اس میں آپ کو تاریخ دعوت
وعزیمت اور اہل حق کے تجدیدی کارناموں پر مولانا کی گہری نظر ششدر کردیتی
ہے- تذکرہ کے زمانہ تالیف میں آزاد نظر بند تھے،ان کے پاس کوئی کتاب نہ
تھی-وہ متون ومقتبسات اپنے حافظہ کے زور پر نقل کرتے جاتے ہیں- ‘‘غبار خاطر‘‘
میں مگر وہ عمر کے اس اسٹیج پہ تھے جہاں انسان کا شعور پختہ ہوجاتا ہے، اس
کی نظر گہری ہوجاتی ہے، شخصیت میں ٹہراو آجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ غبار خاطر
میں‘‘الہلال‘‘ کی طرح جوش خطابت آپ کو نہیں ملے گا- غبار خاطر میں مولانا
کا اسلوب سلاست کے معراج پہ فائز ہے- تذکرہ میں جہاں وہ اپنی ذات سے پہلو
تہی برت رہے تھے تو غبار خاطر میں انہوں نے "کلام نفسی" سے ، فلسفیانہ
اسلوب میں اپنی شخصیت کی وہ جہتیں بھی آشکار کردیں جو مستور تھیں- مولانا
ابوالکلام آزاد کے مخالفین اتنا جان لیں کہ آزاد وہ شخصیت ہیں جن کے ہاتھ
پہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ جیسے عظیم انسان نے بیعت کی، شیخ الہند رحمہ
اللہ نے فرمایا ہم سوئے ہوئے تھے ابو الکلام نے ہمیں جگایا، مدنی رحمہ اللہ
فرماتے آزاد کے ظاہر پہ نہ جائیں ان کے کارہائے نمایاں دیکھیے۔ ‘‘الہلال‘‘
وہ اخبار تھا جس کے حصول کے لیے لوگ لمبی قطاروں میں کھڑے ہوتے، فضائل
اعمال کی طرح مساجد کے باہر، چوک وچوراہوں پہ اس کی تعلیم ہوتی۔
مولانا شبلی نعمانی کو بھی بہت پڑھا ہے، برصفیر میں اردو زبان میں تحقیق
وریسرچ اور تاریخ کی تدوین کے احیائی منصوبے کی خشت اول رکھنے والے مولانا
شبلی نعمانی اور ان کی ٹیم ہی ہے، مولانا ابو الحسن علی ندوی کی عربی واردو
کی شاید ہی کوئی کتاب ان کے زیرِ مطالعہ نہ رہی ہو۔ مولانا ابو الاعلیٰ
مودودی کی کتب بھی ان کے کتب خانہ میں موجود ہیں۔ ان کے مطابق برصغیر میں
سب سے زیادہ لٹریچر مودودی صاحب کا ہی ہے۔ ان کا قلم انتہائی سیال ہے۔
البتہ دراز نفسی سے بہت کام لیتے ہیں، ان کے کلام میں طوالت ہے جو مُمل ہے
اور بین السطور یہ باور کراتے نظر آتے ہیں کہ متقدمین کا علم ناقص تھا۔
پروفیسر رشید احمد کو شوق سے پڑھا ہے۔ تاریخ میں پروفسر خلیق احمد نظامی سے
متاثر ہیں۔ طنز ومزاح میں مشفق خواجہ، شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خان، حیدر
آباد دکن کے مجتبیٰ حسین، مشتاق احمد یوسفی اور عطاء الحق قاسمی ان کے زیرِ
مطالعہ رہے ہیں۔عرب ادباء میں شکیب ارسلان، طہ حسین، عقاد، رافعی، رشید رضا،
عبد القدوس الانصاری اور علی طنطاوی کو بہت پڑھا-
"فیس بک ڈائجسٹ" کا مطالعہ Muhammad Alfaisal روزانہ کرتے ہیں۔ محمد زاہد
(فیصل آباد والے)، طفیل ہاشمی، مولانا ولی خان المظفر ، رعایت اللہ فاروقی،
اور عمار خان ناصر کی تحریریں شوق وذوق سے پڑھتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں
ان کا کہنا تھا فیس بک ڈائجسٹ میں طویل تحریروں کا قائل نہیں ہوں اور نہ ہی
طوالت لی ہوئی تحریریں پڑھتا ہوں۔ یہ فاسٹ دور ہے، اپنی بات دو منٹ کی
تحریر میں قاری کو پیش کردینی چاہیے۔وہ کہتے ہیں پہلے لوگ ضخیم ناول پڑھتے
تھے، پھر اہل فن نے وقت کے تقاضوں کے پیش نظر شارٹ کٹ اسٹوری یعنی افسانہ
کی بنیاد ڈالکر ناول کا کینوس محدود کردیا-اس لئے ہنگام حیات میں مصروف کار
لوگوں کے وقت کا خیال کرتے ہوے فیس بک پر اپنی راے اختصار سے پیش کرنی
چاہئے |