ذرائع ابلاغ میں بدعنوانی

میڈیا کا کسی بھی ملک و قوم کی پالیسی ساز،عوام کی ذہن سازی میں مرکزی کردار ہو تا ہے لیکن آج کل میڈیا کے گذشتہ دس سالوں میں اس نے جتنا تعمیری کام کیا اس سے کہیں زیادہ تخریبی کاموں کو انجام دیا ہے۔ہماری قومی میڈیا اس وقت دو گروہ میں تقسیم ہے جسے رائٹ ونگ اور لیفٹ ونگ میڈیا کہا جاتا ہے۔24گھنٹے کوریج کی دوڑ میں ان میڈیا نے حلق توڑ محنت کر رہی ہے لیکن اس نے اپنے غیر ذمہ دارانہ کوریج سے ملک کی سالمیت اور اخوت کو اتنا شدید نقصان پہنچایا ہے جس کے اثرات کم ہونے دہائی لگ جائیں۔دہشت گردی سے جڑے معاملوں کی مثالیں لے لیجئے۔ملک میں کہیں بلاسٹ ہو،کہیں دہشت گردی کا مظاہرہ ہو ملک کی میڈیا اسے منٹوں میں اپنے ’’نام نہ بتانے والے خصوصی ذرائعوں‘‘ کی مدد سے مسلمانوں سے جوڑ دیتی ہے انتہا پسندی تو یہ کہ پولس اور خفیہ ایجنسیاں ابھی ثبوت بھی اکٹھا کر رہی ہوتی ہے مانیے میڈیا نہ ہو کر ایف بی آئی اور سی بی آئی سے بھی انتہائی طاقتور ،فعال نیٹورک میڈیا کا موجود ہو۔مذکورہ بالا شرائط میں اول ملک کی سالمیت اور اخوت کو ٹھیس نہ پہنچانا شامل ہے لیکن ہر مرتبہ مسلمانوں کی شبیہہ بگاڑنے اور دراڑ پہنچانے میں مرکزی کردار میڈیا ادا کرتا ہے۔کبھی داؤد کے نام پر،کبھی اسامہ کے نام پر،کبھی حافظ سعید ،کبھی القاعدہ ،کبھی لشکر تو کبھی جیش کے نام پر اور اب آئی ایس آئی ایس کے نام پر نماز پڑھتے ہوئے،قرآن پڑھتے ہوئے،نقاب پوش ہتھیاروں کی ٹریننگ دینے کے ویڈیوز(Visuals)گھنٹوں بتاکر جتایا جاتا ہے کہ ملک کو خطرہ اسی قوم سے ہے۔کیا یہ ملک کی سالمیت کے خلاف نہیں؟ کیا ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت سے یہی سلوک ہے؟ کیا میڈیا کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی نہیں؟ چند مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو پوری قوم کی شناخت کے ساتھ منسلک کرنا کس طرح جائز ہے؟ کیا یہ میڈیا کی انتہا پسندی نہیں؟اسی طرح دوسری شرط ملک کی سیکوریٹی کو برقرار رکھنے سے متعلق ہے جس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقلیتوں کے خلاف دن رات انتہا پسند سیاسی و مذہبی لیڈروں کے بیانات دکھائے جاتے ہیں۔کیا ان لیڈروں کی تقریریں ملک کی جمہوری نظام کی عکاسی ہے؟ کیا یہی دھرم و سماج کی دین ہے؟ پبلک آرڈر برقرار رکھنے کے بجائے اسے تباہ کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ان میڈیا ہاؤس ہی کا ہے جو کارپوریٹ اور تخریبی ذہنیت کے سیاسی لیڈروں کے چمچہ گیری میں ہمہ تن مصروف ہے۔ملک کے وقار کے سلسلہ میں ایسی کئی مثالیں دیکھنے کو ملے گی جہاں ان میڈیا کوریج کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پوری دنیا میں کتنی جگ ہنسائی ہوتی ہوگی؟چھوٹے چھوٹے معا ملات کو طول دینا۔،غیر سائنسی وجوہات پر گھنٹوں بث و مباحثہ،فاسد اعتقادات کی تشریح و ترویج کرنا میڈیا کا معمول بناہوا ہے۔ان ’تعلیم یافتہ ‘ذہنوں کو کیسے سمجھائیں کہ اس سے نہ صرف میڈیا بلکہ ملک کے وقا ر کو بھی ٹھیں پہنچتی ہے۔پانچویں شق کا سب سے زیادہ مرتکب میڈیا ہی ہے۔ا?ج کل بڑے بڑے کارپوریٹ گھرانے اور سیاسی تنظیمیں اپنے مخالفین اور غیر متفقین کی بدنامی کیلئے ہی چینلس کا سہارا لیتی ہے۔ان حالیہ برسوں میں ’’ککر متا‘‘ کی طرز پر وجو د میں ا?ئے چینلس اس کی گواہی دیں گے۔جو شخص اور ذہنیت ان میڈیا ہاؤس سے غیر متفق ہے وہ جانی دشمن سے کم نہیں ہوتا۔یہی معاملہ سیکولر او رغیر سیکولر ذہنیت میں بھی شامل ہے جہاں غیر اصولی و غیر سیکولر ذہنیت کے حامل افراد میڈیا چینلوں کے مالک و ایڈیٹرس بنے ہوئے ہیں اور سر عام مخالفین کی گھنٹوں شبیہہ بگاڑے نے میں قوت صرف کرتے ہیں۔عدالتوں کے احکامات کی پامالی کے سلسلے میں ہم دہشتگردی معاملات کوجانچیں تو عیاں ہیکہ میڈیا ٹرائل سے ملزمین کو مجرم قرار دیتے ہوئے ان کا جینا دوبھرکیا جاتا ہے۔اسی کی سب سے جدید مثال جے این یو معاملہ میں کنہیا کمار اور عمر خالد کا ہے جہاں اپنے من گھڑت او بے کار کوریج سے عدالت کے فیصلوں سے قبل ان میڈیا نے نہ صرف ایک اعلی ٰاقدار کی یونیورسٹی پر کیچڑ اچھالابلکہ حقیقی سیکولر طلباء کوبھی ’دیش دروہ‘کے لقب سے نواز کر ان کے کرئیر اور خاندانی ساکھ پر آنچ لگائی۔بھلے ہی پولس نے ان میڈیا کے جال میں آکر اور اپنے آقاؤں کے چکر میں خود کا وقار گنوایا نیز میڈیا کو شائد سب سے شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ساتواں نکتہ ملک کے دوستانہ تعلقات پر منحصر ہے جہاں میڈیا کومحتات رہنے کی ضرورت ہے۔چین،جاپان،پاکستان،بنگلہ دیش اور نیپال کو دشمن بتانے میں میڈیا اپنی کوئی کسر نہیں چھوڑتی لیکن کیا حکومت ہند نے انہیں قانونی دشمن قرار دیا ہے؟ اگر نہیں تو گلوبل ولیج کے اس دور میں ہم کیوں کنویں کے مینڈک بنے رہیں؟ کیا بھارتی قوم کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی اچھی تعلیمات ان لوگوں تک پہنچائیں؟اپنے رشتہ ان ملکوں سے جوڑ کر تجارتی،تعلیمی،سیاحی مواقع آئندہ نسلوں کو فراہم کریں؟سب سے آخری شرط جو اظہار خیال و حق رائے دہی کیلئے بتائی گئی ہے اس کے تحت کسی کو خودکشی پر نہ اکسانا ہے لیکن میڈیا کوریج جیسے احساس کمتری پھیلانے کے اڈے ہیں جس سے لگتا ہے کہ ہم کسی بم پر بیٹھے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔جے این یو معاملہ کے کوریج نے ملک کے سامنے ان میڈیا گھرانوں کی اصلیت بے نقاب کی ہے کہ کس طرح جمہوریت کے نام لیوا طلباء کے خلاف ملک کی مرکزی لیڈر کے پی کے اکاؤنٹ سے جھوٹی ویڈیو بنائی جاتی ہے اسے گھنٹوں بتایا جاتا ہے،اینکرس چیخ چیخ کر’’ دیش دروہ ‘‘مخالف ہوا کھڑا کرتے ہیں،اربوں ٹن اخبارات کالے ہوتے ہیں ،وکلاء کے بھیس میں ان شیطانوں کا ’نیائے مندر‘میں ان طلباء پر جان لیوا حملہ ہوتا ہے اور سوشل نیٹورکنگ سائٹس پر پیٹ میں موجود سارا زہر اگلا جاتا ہے۔کہاں سے ہوئی یہ ملک مخالف ذہنیت سازی؟ میڈیا کس کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے؟کون ملک میں انصاف کا گلہ گھونٹ رہا ہے؟ کون ملک کی سالمیت،اخوت کو تاراج کر رہا ہے؟بے شک ان سفاک ذہنوں کوبے نقاب کرنا ہر ہندوستانی کا فرض ہے ۔
 
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 102302 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.