پی آئی اے کی نجکاری کے بعد مزید 38اداروں سے جان چھڑانے کا منصوبہ

قیام پاکستان سے قبل برٹش راج میں وطن عزیز کی فضائی حدود میں اڑنے والی اورینٹ ائیرویز اگرچہ یہ انگریز کے دور میں مسلمانوں کی واحد ائیر لائن تھی جو قیام پاکستان کے بعد بھی 1947سے 1955تک مسلمانوں کو سفر کی سہولیات فراہم کرتی رہی تاہم اسے بعد میں یعنی 11مارچ 1955کو قومی فضائی کمپنی کے طور پر ضم کردیا گیا اور اسے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کاپوریشن کا نام دیا گیا۔پاکستان کے نام سے منسلک ہونے کے بعد پی آئی اے نے ایک سال کی مختصر مدت میں بین الاقوامی پرواز شروع کی اور پہلا انٹرنیشنل روٹ کراچی ، لندن ،ہیتھرو براستہ قائرہ ،روم کا افتتاح کیا گیا۔اس مقصد کے لیے چار امریکن جہاز بیڑے میں شامل کیے گئے ۔
اپنی پیدائش کے ایک سال بعد جس ایئر لائن سے تیزی سے سفر کرتے ہوئے بین الاقوامی روٹ شروع کردیا تھا اور جو بعد میں دنیا کی بہترین ائیرلائنز میں شمار کی جانے لگی تھی ، اسے حکمرانوں نے ’’ ناکارہ اور قابل کباڑ ‘‘قراردیکر نجی شعبے کے حوالے کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر عمل کرنے لگے تو پورا ادارہ سراپا چلا اٹھا ۔ پی آئی اے سے وابستہ 19ہزار ملازمین احتجاج کرنے لگے ۔اس احتجاج کے نتیجے میں پی آئی کی برسوں سے خدمت کرنے والے انجینئر سلیم اکبر ،عنایت رضا گولیوں کا نشانہ بن کرجاں بحق ہوئے ادارے کے تحفظ کے لیے قربانی دے گئے ۔اس احتجاج کے دوران پولیس اور رینجرز کی جانب سے احتجاجی ملازمین کو روکنے کے دوران سلیم اکبر اور عنایت رضا کے جاں بحق ہونے کے ساتھ متعدد زخمی بھی ہوئے ۔

ممکن ہے کہ جمہوری دور میں لاٹھی ڈنڈوں کا استعمال کرکے حقوق کی آواز کو دباکر اپنے تئیں بڑا کارنامہ انجام دیا ہو ۔تاہم منگل کو کراچی ائیرپورٹ کے قریب پی آئی اے کے دفتر کے سامنے جو کچھ تماشا ہوا وہ موجودہ جمہوری حکومت کی پالیسی سے عوام کو متفق نہ ہونے کا کھلا اظہار تھا۔

ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کے نام پر قومی اداروں کی نجکاری کی ہمیشہ ہی عوام نے مخالفت کی ہے ۔ تاہم غیر ملکی آقاؤں کی آشیرباد اور ان کا ایجنڈا لیکر اقتدار میں آنے والی سیاسی حکومتیں خصوصاََ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی آئی ایم ایف کے دباؤ میں آکر ان کی خواہشات کے مطابق پرائیوٹائزیشن کی پالیسی پر عمل کرتی ہیں تو یہ بات بھول ہی جاتی ہیں کہ جمہوریت کے نام پر ایسے اقدام کرنے والوں کے لیے جمہور خود ہی رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔

جس کی مثال حکمرانوں نے منگل کو قومی ائر لائن کے احتجاج سے دیکھ چکے ہونگے ۔اس احتجاج پر پی آئی اے کے چیئرمین نصیر جعفر مستعفی ہوچکے ہیں تاہم منگل کی شام استعفٰی دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ آج کا واقعہ پی آئی اے کے خلٖ سازش لگتی ہے ‘‘۔نصیر جعفراکتوبر 2014میں پی آئی اے کے چیئرمین بنائے گئے تھے اس سے قبل وہ بورڈ کے ممبر بھی رہ چکے ہیں ۔اب قومی ادارے کی نجکاری سے بڑی بھی کوئی سازش ہوسکتی ہے ؟ یہ بات ناصر جاوید یقینا زیادہ بہتر طور پر جانتے ہونگے ۔ خیال ہے کہ ملازمین کے احتجاج کو دیکھ کر وہ سمجھ چکے ہونگے کہ یہ معاملہ اتنی آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے ، اسی وجہ سے انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کرنے میں دیر نہیں کی ۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ ’’ خطرہ ہے کہ یہ اسلام آباد کو بھی فروخت کردیں گے ‘‘۔
امیر جماعت اسلامی کی بات کچھ غلط بھی نہیں ہے ، حکومت کی نجکاری کے پروگرام اور نجکاری کمیشن کی رپورٹ پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ بنکنگ ، فنانس ، آئی اینڈ گیس و انرجی ، فرٹلائزر ، انجینئرنگ منرل اور قدرتی وسائل ،آٹو موبائل ، انفرااسٹریکچر،ٹرانسپورٹ و ٹورزم ، ٹیلی کام اور دیگر شعبوں کے69 اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔جبکہ ان میں سے پی آئی اے اور اسٹیل مل سمیت 39اداروں کی نجکاری جلد سے جلد مکمل کرنا چاہتی ہے ۔

پی آئی اے کی نجکاری کرنے سے قبل 6دسمبر کو پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کمپنی لمیٹیڈ میں تبدیل کی جاچکی ہے ۔ اس کی نجکاری سے قبل اس کے اسٹیٹس میں تبدیلی کا اعلان ادارے کے چیئرمین نصیر جعفر چھ دسمبر 2015کو کرچکے تھے ۔نجکاری کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا کہ پی آئی اے کا خسارہ روبروز بڑھتا جارہا ہے ۔جو اب سالانہ تین سو ارب روپے ہوچکا ہے۔نجکاری کے منصوبے سے آگاہ کرتے ہوئے پی آئی اے کے چیئرمیں نے بتایا تھا کہ حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا اصولی طور پر فیصلہ کرلیا ہے تاہم اس سے قبل ادارے کے ملازمین کے نمائندوں سے مذاکرات کرکے انہیں اعتماد میں لیا جائے گا ۔چیئرمین نصیر جعفر نے ادارے کے ملازمین کے نمائندوں سے مذاکرات کیے یا نہیں کیے اور اس کے نتائج کیا نکلے یہ سب کچھ احتجاج نے افشاں کردیا ہے ۔ساتھ ہی چیئرمین کے استعفے سے اور بھی کچھ باتوں اور نیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔تاہم اطلاعات ہیں کہ حکومت کسی بھی طرح 30جون 2016تک پی آئی اے کی نجکاری کرنا چاہتی ہے ۔
پی آئی اے ملازمین کے احتجاج اور اس احتجاج کے دوران ادارے کے محنت کشوں کی جانوں کی قربانی سے اب ایسا نہیں لگتا ہے کہ حکومت اس اہم ترین ادارے کو اس سال جون تک فروخت کرسکے گی ۔بلکہ خدشات ہیں کہ اس سلسلے میں حکومت نے اگر مزید کوئی پیش رفت کی تووہ ملازمین جو اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہیں اب حکومت کو گھر جانے پر بھی مجبور کرسکتے ہیں۔

وہ ادارے جنہیں حکومت جلد ہی پرائیوٹائز کرنا چاہتی ہے ۔

یہ درج ذیل وہ 38ادارے ہیں جنہیں موجودہ حکومت جلد سے جلد نجی شعبے کے حوالے کرنا چاہتی ہے ۔ اس مقصد کے لیے نجکاری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ اداروں کی نجکاری کی منظوری کونسل آف کامن انٹرسٹ سے لی جاچکی ہے ۔ واضح رہے کہ مذکورہ کونسل میں چار صوبوں کے وزراء اعلیٰ سمیت دیگر نمائندگی بھی موجود ہے اس کونسل کے چیئرمین وزیراعظم ہیں۔

آئیل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹیڈ ، پاکستان پیٹرولیم لیمٹیڈ ، ماری پیٹرولیم لیمٹیڈ ، گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹیڈ ، پاک عرب ریفائنری لمیٹیڈ ، پاکستان اسٹیٹ آئیل کو لمیٹیڈ ، سوئی سدرن گیس لمیٹیڈ ،سوئی نادرن گیس پائپ لائن لمیٹیڈ ، حبیب بنک لمیٹیڈ ، یونائٹیڈبنک لمیٹیڈ ،الائیڈ بنک لمیٹیڈ ،نیشنل بنک لمیٹیڈ ، اسٹیٹ لائف انشورنس لیمٹیڈ ، نیشنل انشورنس کو لمیٹیڈ ، نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ لمیٹیڈ ، اسمال میڈیم انٹر پرائز لمیٹیڈ ، پاکستان ری انشورنس کو لمیٹیڈ ، ہیوی الیکڑیکل کمپلکس لمیٹیڈ ، اسلا آباد الیکڑک سپلائی کو لمیٹیڈ ، فیصل آباد الیکڑک سپلائی کو لیمٹیڈ ، حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کو لمیٹیڈ ،جامشور پاور جنریشن کو لمیٹیڈ ، ناردرن پاور جنریشن کو لمیٹیڈ ، تھرمل پاور اسٹیشن مظفر آباد ، نیشنل پاور کنسٹرکشن کو لمیٹیڈ ، کوٹ اددو پاور کمپنی لمیٹیڈ ،لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹیڈ ، گوجرانوالہ الیکٹرک پاور لمیٹیڈ ، ملتان الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹیڈ ، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹیڈ ،کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹیڈ ،سکھر الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹیڈ ، سنٹرل پاور جنریشن کمپنی لمیٹیڈ ، لاڑکانہ جنریشن کمپنی لمیٹیڈ ، پاکستان اسٹیل ملز لمیٹیڈ ،پاکستان انجینئرنگ کو لمیٹیڈ ، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن لمیٹیڈ ، کنوینشن سنٹر اسلام آباد لمیٹیڈ اور پی آئی اے انویسٹمنٹ ریزولٹ لمیٹیڈ (ہوٹل نیویارک ، ہوٹل اسکرائب پیرس )شامل ہیں ۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165993 views I'm Journalist. .. View More