قیام تعظیمی
(syed imaad ul deen, samundri)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی
الْقُلُوْبِ۳۲ (بقرہ )
ترجمہ: اگر کوئی شخص شعائر اللہ کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے اندر تقویٰ کی
نشانی ہے۔
جن کو بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک مقام حاصل ہے ان کی تعظیم وتکریم
مسلمانوں پر ضروری ہے۔ چنانچہ والدین، مشائخ، اساتذہ، تربیت کرنے والے
افراد کی تعظیم کا خیال رکھنا لازم ہے۔ جغرافیائی، نسلی، ثقافتی اور سماجی
لحاظ سے تعظیم کے طریقے بھی مختلف ہوتے ہیں، اسلامی نقطہ نظر سے مختلف عرف
و عادت میں پائے جانے والے تعظیم کے تمام طریقے درست ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ
وہ طریقے روح اسلام سے ٹکراتے نہ ہوں، تعظیم کے مختلف طریقوں میںکسی کی
آمد پر کھڑا ہونا، تعظیم کا بہت ہی نمایاں طریقہ ہے۔
قیام تعظیمی کا معنی :
قیام تعظیمی کا معنی یہ ہے کہ شریعت کی نگاہ میں عظمت والے لوگوں کو آتا
دیکھ کر اُن کے استقبال اور اُن کی تعظیم میں کھڑے ہو جائیں اور جس حال میں
وہ رہیں ان کی پیروی کی جائے،مثلاً:اگر وہ کھڑے ہوں تو ہم بھی کھڑے ہوں۔
قیام تعظیمی کی صورتیں اوراحکام:
علما ئے کرام نے مختلف احادیث صحیحہ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے آنے والے کے
لیے تعظیماًکھڑےہونے کے ضمن میں مندرجہ ذیل احکام نافذ کیے ہیں:
۱۔قیام حرام ہے:
یہ حکم اس شخص کے حق میں ہے جو تکبر کی وجہ سے یہ چاہتا ہو کہ لوگ اس کے
لیے کھڑے ہوں۔
اس کی تائید اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہوتی ہے:
مَنْ سَرَّهٗ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ
مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ۔( ترمذی،کراہیۃقیام الرجل للرجل(
ترجمہ:جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں تو وہ جہنم کو
اپنا ٹھکانہ بنا لے۔
۲۔ مکروہ ہے:
یہ اس شخص کے حق میں ہےجو تکبرتو نہ کرتا ہو لیکن اس عمل کی وجہ سے اس کے
دل میں تکبر، یا اس جیسے دوسرے خطرات کے پیدا ہونے کا ظن غالب ہو۔اس کی
تائید بھی مذکورہ بالا حدیث سے ہوتی ہے ،کیوں کہ کسی بھی عمل میں جب شرعی
طورپرممانعت کی کوئی بات پالی جائے تو وہ عمل حرام ہوجاتا ہے اور جس میں
ایسی کسی بات کے پیدا ہونے کا خوف اور ظن غالب ہو تو ایسی صورت میں وہ عمل
مکروہ ہوگا۔
۳۔ جائز ہے:
یہ اس شخص کے حق میں ہے جس کےلیے تعظیم کی غرض سے لوگ کھڑے ہوں لیکن خود اس
کے دل میں اس کی طلب نہ ہو۔ اس کی تائید قیام تعظیمی کےجوازمیں وارد احادیث
کریمہ سے ہوتی ہےجن کاذکر آگے آرہا ہےاور جن مفاسد کی بنا پر قیام تعظیمی
ممنوع ہوتا ہے وہ بھی یہاں موجود نہیں ہے،بلکہ آپس میں ایک دوسرے کی تعظیم
سے محبت پیدا ہوتی ہےاور مومنین میں باہمی محبت اللہ تعالیٰ کے نزدیک
پسندیدہ ہے۔
۴۔ مستحب ہے:
یہ اس شخص کے حق میں ہے جو سفر سے لوٹا ہو اور اس کی واپسی پر لوگ کھڑے ہو
کر خوشی کا اظہار کریں،یااس کو نعمت حاصل ہوئی ہو اور بڑھ کرلوگ اس کو
مبارک باد دیں یا اس پر کوئی مصیبت آئی ہو اور لوگ بڑھ کر اس کی تعزیت
کریں اور اس کو تسلی دیں یا پھر آنے والا دینی لحاظ سے معظم اور محبوب ہو
اورقیام سے اس کی تعظیم و توقیراور اس سے محبت کا اظہار مقصود ہو۔
قیام تعظیمی اور احادیث صحیحہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بھی باعزت انسان کی تعظیم
کے لیے کھڑے ہونے کا ثبوت موجود ہے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ نے
فرمایا:
قُوْمُوْا إِلٰی سَيِّدِكُمْ۔(بخاری،کتاب العتق(
ترجمہ:اپنے سردار کی تعظیم و تکریم کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔
ایک دوسری حدیث میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَآهَا قَدْ
أَقْبَلَتْ رَحَّبَ بِهَا ثُمَّ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا ثُمَّ
أَخَذَ بِيَدِهَا فَجَاءَ بِهَا حَتّٰى يُجْلِسَهَا فِي مَكَانِهٖ.
وَكَانَتْ إِذَا أَتَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رَحَّبَتْ بِهٖ ثُمَّ قَامَتْ إِلَيْهِ فَقَبَّلَتْهٗ ۔( )الادب المفرد،باب
قیام الرجل لاخیہ(
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آتے
دیکھتے تو کھڑے ہو جاتے اور بڑھ کر ان کا استقبال کرتے، ان کو بوسہ دیتے
پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لاتے اور اپنی جگہ بٹھاتے اور جب نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے یہاں تشریف لے جاتے
تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں اوربڑھ کر آپ کا استقبال کرتیںاور پھر آپ کا
ہاتھ تھام کر دست بوسی کرتیں۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جو ان کی توبہ کی قبولیت کے
حوالے سے مروی ہے اس میں حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز فجرکی ادائیگی سے فارغ ہوکر ہماری
توبہ کی قبولیت کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ لوگوں نے مجھ سے جوق در جوق ملاقات
کی اور یہ کہتے ہوئےمبارک باد دی کہ: اللہ نے آپ کی توبہ قبول فرمالی ہے ،
مبارک ہو۔ یہاں تک کہ میں مسجد نبوی آگیاتو میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے جھرمٹ میں ہیں۔
فَقَامَ إِلَیَّ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِاللہِ یُہَرْوِلُ حَتّٰی
صَافَحَنِیْ وَہَنَّأَنِیْ ۔۔(بخاری، کعب بن مالک)
ترجمہ:مجھ کو دیکھ کر طلحہ بن عبید اللہ (رضی اللہ عنہ ) کھڑے ہو گئے اور
میری طرف بھاگتے ہوئے آئے، مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھ کو مبارک باد دی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک دوسری روایت بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں :
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ مَعَنَا فِي
الْمَسْجِدِ يُحَدِّثُنَا، فَإِذَا قَامَ قُمْنَا قِيَامًا حَتّٰى نَرَاهُ
قَدْ دَخَلَ بَعْضَ بُيُوتِ أَزْوَاجِهٖ۔
(شعب الایمان،فصل فی سلام الواحد)
ترجمہ: واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے درمیان سے اٹھ کر اندر
تشریف لے جاتے تو ہم( تعظیماً) آپ کے لیے کھڑے ہو جاتے، یہاں تک کہ آپ
اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کےگھر میں داخل ہوجاتے۔
قیام تعظیمی کے دلائل کاتجزیہ
ان تمام تفصیلات سے قیام تعظیمی کا جوازواستحباب بھی معلوم ہو جاتا ہے اور
ان لوگوں کا اعتراض بھی دور ہوجاتا ہے جو بعض احادیث کی طرف نظر کرنے،بعض
سے منھ موڑنے اور غلط فہمی کی وجہ سے بہر صورت قیام تعظیمی کے ناجائز ہونے
کے قائل ہیں۔اب قیام تعظیمی کے منکرین کا صرف یہ اعتراض باقی رہتا ہے کہ ان
تمام احادیث میں قَامَ إِلٰی کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں کسی کی آمد پر
آگے بڑھ کر اس کااستقبال کرنا، یا اسی طرح کسی اور صحیح مقصد ،مثلاً:سواری
سے اتارنا، یا سہارا دینا وغیرہ کے لیے کھڑا ہونا۔چنانچہ یہاںکھڑاہونا کسی
کے معظم ہونے کی وجہ سے نہیں، بلکہ ایک جائز مقصد کی تکمیل کے لیے ہے اور
اگر کسی جائز مقصد کی تکمیل کے لیے کھڑا ہوا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں
۔ اگر اس حدیث میں کسی شخص کے لیے کھڑا ہونا مراد ہوتا تو قَامَ إِلٰی کے
بجائے قَامَ لَہٗ جیسے الفاظ وارد ہوتے۔ لیکن یہ اعتراض درست نہیں ہے ،کیوں
کہ قَامَ إِلٰی اور قَامَ لَہٗ کے درمیان فرق کرنا اور اس کی وجہ سے قیام
تعظیمی کا انکار کرنا درست نہیں ہے،کیوں کہ اس طرح کے مقام پر لام کے
استعمال کے بجائے إِلٰی کا استعمال آنے والے کی تعظیم کو زیادہ بتاتا ہے،
کیوں کہ قُوْمُوْالِسَیِّدِکُمْ کا معنی صرف یہ ہوگا کہ اپنے سردار کی
تعظیم کرو ،جب کہ قُوْمُوْاإِلٰی سَيِّدِكُمْ میں معنی یہ ہے کہ کھڑے ہو
جاؤ اور ان کے استقبال اور ان کی تعظیم کے لیےان کی طرف بڑھواور اس میں
تعظیم کامعنی مبالغے کے ساتھ پایاجارہا ہے۔
جہاں تک ابوداؤ دکی اس حدیث پاک کی بات ہے جس میں یہ آیا ہے کہ :لاَ
تَقُوْمُوْا كَمَا تَقُوْمُ الأَعَاجِمُ يُعَظِّمُ بَعْضُهَا
بَعْضًا۔(یعنی عجمیوں کی طرح ایک دوسرے کی تعظیم کے لیے کھڑے نہ ہو) تو یہ
حدیث سنداً مضطرب اور ضعیف ہے، اس کے راوی کچھ ایسے ہیں جو مجہول ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ یہاں دنیاداروں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے وقت جوکیفیت
ہوتی تھی اس کیفیت پر انکار مقصودہے مطلق قیام تعظیمی کی ممانعت
مرادنہیں۔رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتےتھے:لِمَا یَعْلَمُوْنَ مِنْ
کَرَاھِیَّتِہٖ لِذٰلِکَ۔ (سنن ترمذی)کیوں کہ ان کو معلوم تھا کہ آپ اس
بات کوناپسند فرماتے ہیں کہ کوئی آپ کے لیے کھڑا ہو۔
اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ناپسندیدگی کامل
محبت، راسخ الفت اورباطن کی صفائی کی بناپر تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم یہ چاہتے تھے کہ صحابہ کرام ؔآپ (ﷺ)کی وجہ سے تکلّف کا شکارنہ
ہوں،جیساکہ آج بھی آپ کے نائبین مشائخ صوفیاکایہی طریقہ ہے کہ وہ اپنے
اصحاب کو تکلّف سے روکتے ہیں اوراگر کوئی یہ کہتا ہےکہ قیام تعظیمی نماز کے
ارکان میں سے ایک رکن ہے اورقیام عبادت کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ انسانوں کے
لیے کھڑے ہونے میں اس عمل عبادت سے مشابہت ہے، تو یہ سمجھ سے بہت دور کی
بات ہے، کیوں کہ پھر تو کسی کے سامنےبیٹھنا، کسی کے سامنے تلاوت قرآن کرنا
اور درود شریف پڑھنا بھی جائز نہیں ہوگا،کیوں کہ یہ سب عبادت کی حالتیں ہیں
۔ ۔
لیکن جس کی تعظیم کی جا رہی ہے اس کو چاہیے کہ اپنے آپ کو کمتر سمجھے اور
یہ خیال رکھے کہ میں اس وقت مقام کبر میں ہوں اور تعظیم کرنے والا مقام
تواضع میں اور تواضع اللہ تعالیٰ کو پسند ہے نہ کہ کبر، لہٰذاکہیں سے بھی
اس کے اندر کبر کا احساس نہ پیداہونے پائے۔ |
|