ایک بادشاہ نے دو غلام خریدے ایک خوب صورت مگر بد سیرت
تھا۔دوسرا بد صورت مگر نیک سیرت تھا۔پہلا بڑ اتیز طرار اور چکنی چپڑی باتیں
کرنے والا نکلا ، بادشاہ نے اسے دور بھیج دیا اور دوسرے کو اس کی غیر حاضری
میں بلایا۔اور کہا کہ وہ تم کو بُرا کہتاتھا حالاں کہ تم مجھے اچھے معلوم
ہوتے ہو۔ اچھا اس کی برائیوں سے مجھے باخبر کردوتاکہ میں اس کی شرارت سے
محفوظ رہ سکوں ۔اس نے عرض کیا کہ اس میں وفاداری ہے ، انسانیت ہے، اس میں
یہ یہ چیزیں ہیں اب یہ ہنر ہوں یا عیب۔ بادشاہ نے کہا کہ لیکن وہ تو تمہیں
چور کہتا تھا کیا وہ سچا ہے ۔ اس نے کہا اگر وہ ایسا کہتا ہے تو ضرور میرے
اندر کچھ عیب ہوں گے۔ بادشاہ نےیہ سن کر اس کو رخصت کردیا ۔اور پھر دوسرے
دن خوب صورت غلام کوبلایا اور کہا کہ تجھ میں ایک عیب ہے۔ جو ابھی دوسرے
غلام نے بیان کیا ہے اگر وہ عیب تجھ میں نہ ہوتا تو جو بھی تجھے دیکھتا وہ
تجھ پر قربان ہوجاتا ۔غلام نے کہا کہ بادشاہ سلامت ذرا اس عیب کی طرف اشارہ
تو کریںکہ اس بے ایمان نے میرے بارے میں کیا کہا ہے۔ بادشاہ نے کہنا شروع
کیا کہ اول تو تمہارا ظاہر و باطن یکساں نہیں ہے۔ جب اس نے یہ سنا تو غصہ
سےآگ بگولہ ہوگیا ۔ اور کہا کہ یہ اس کی ہمیشہ سے عادت ہے کہ ہر ایک کی
برائیاں بیان کرتا پھرتا ہے ۔اور کتوں کی طرح بھونکتا رہتا ہے۔جب خوبصورت
غلام بہت زیادہ بکواس کرنے لگاتو بادشاہ نے کہا:’’خاموش!تم دونوں میں فرق
ہوگیا ۔ تیرے اندر خبیث نفس کی گندگی ہے جا تو مجھ سے دور ہوجا ، آج سے تو
غلام اور وہ آزاد ۔ خوب صورت غلام پریشان ہوگیا کہ یہ کیا ہے ۔ لیکن جب
اسے سچائی کا علم ہوا کہ بدصورت غلام نے اس کی غیر حاضری میں اس کی تعریف
کی تھی نہ کہ برائی ، تو وہ پچھتانے لگا لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔اس
حکایت سے یہ سبق ملتا ہے کہ جو نیک سیرت ہوتا ہے اس کو کوئی بھی نقصان نہیں
پہنچا سکتا ، حاسدوں کے حسد اور اشرار کی شرارت سے اللہ نیک بندوں کی حفاظت
کرتا ہے۔ نیک بندے اپنی باطنی خوبی اور صفائی کی وجہ سے اللہ کے مقرب ہوتے
ہیں ۔ جس طرح یہ بدصورت غلام اپنے باطن کی خوب صورتی کی وجہ سے بادشاہ کی
نظروں میں محبوب ہوگیا ۔
|