پاکستان میں ہونے والے خونی واقعات ذمہ دار کون؟؟

پچھلے دنوں ہمارا ملک انتہائی دلخراش ، خونی اور دل دہلاینے والے مختلف واقعات کی لپیٹ میں رہا ۔ اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کا قانون شکن طرز عمل اور پارلیمینٹ پر دھاوا، سرکاری املاک کا نقصان اور اسی طرح کار سرکار کو بری طرح متاثر کرکے عوام کیلئے روڈ پر مشکلات پیدا کرنا اور ایک سٹیٹ کے قوانین کو چیلنج کرکے عوام کو سڑکوں پر لا نا اور انکے مذہبی جذبات سے کھیل کر اپنی مرضی کے فیصلے لینا ہماری مذہبی جماعتوں کی ایک ریت بن چکا ہے جو ہماری حکومت کی کمزوری ہے ۔ اسی طرح کراچی میں مذہبی جماعتوں کے ٹی وی اور میڈیا ہاوسز پر حملے جلاؤ گھیر ا ؤ اور گاڑیوں کا نظر آتش کیا جانا جس میں ہماری حکومت بری طرح نا کام ہو چکی ہے اور اسکے پیچھے ایک بہت بڑی سازش ہے جس پر ہماری حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے ان مذہبی جماعتوں سے سختی سے نمٹنے کو تیار نہیں ہے۔

اسکے علاوہ لاہور کے پارک میں ہونے والے خود کش دھماکے نے پوری قوم کو لرزا کر رکھ دیا۔ ہر طرف بربادی کے قصے تھے۔ جن کے مر چکے تھے وہ نوحہ کناں تھے اور دوست عزیز و اقارب افسردہ تھے۔ چاروں اطراف بین، رونے اور چیخنے کی آوازیں، ایک ایسا وہشتناک منظر کہ عام انسان سوچ کر بھی پاگل ہو جائے۔ سنسان گلیاں اور بازار جیسے اس قوم اور اسکے حکمرانوں کی بے حسی اور بے بسی پر مرثیہ پڑھ رہے ہوں۔ ہر طرف ایک خوف کا عالم تھا۔ گھروں میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اپنی ماؤں کے ساتھ چمٹ کر سہمے ہوئے ٹی وی پر اس منظر کو جس میں عورتیں، مرد اور بچے جیسے میدان حشر میں بھاگتے پھر رہے ہوں اور بچے جو اپنے والدین سے بچھڑ کر خون میں لت پت روتے ہوئے انہیں انکے کھلونوں کے ساتھ دیکھ کر سہمے ہوئے تھے اور باہر جانے سے خوفزدہ تھے اور اسکول تو جیسے انہیں کاٹنے کو دوڑ رہا تھا۔نام نہاد مہذب پاکستانی جو اپنے ٓپکو ایک قوم کہتے ہیں اور اس قوم کے منتخب حکمران جو ہر بار ایسے خونی واقعات پر بھونڈے انداز میں قوم کی اس دکھ کی گھڑی میں صرف بیان بازی تک محدود ہیں مگر کوئی عملی قدم اٹھانا جیسے انہوں نے کبھی سیکھا ہی نہیں کیونکہ وہ دہشت گردوں سے خوفذدہ ہیں اور وہ اپنے برے وقت میں ان دہشت گردوں کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ہماری قوم کو تا حال سبق حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا کیونکہ انکے پاس وہ بصیرت ہی نہیں کہ وہ کونسے اور کس طرح کے حکمرانوں کا انتخاب کررہے ہیں اور کیا یہ حکمران جنہیں وہ منتخب کر رہے ہیں وہ انکے مسائل کو حل کرنے میں مخلص ہیں یا پھر وہ ملک اور قوم کے مسائل سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔ انکی اپنی مصلحتیں ہیں جس نے پوری قوم کودہشت گردی کی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہمارے حکمران انتہائی مضبوط حصار میں خود کو محفوظ رکھ کو پوری قوم کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا ہوا ہے۔

اسی طرح کراچی کے علاقے ٹیپو سلطان روڈ پر انتہائی دلخراش واقعہ پیش آیا جس میں نجی سیکورٹی کمپنی کے ایک گارڈ کی فائرنگ سے ۱۱ سالہ معصوم بچہ جاں بحق ہو گیا جو اپنے چھوٹے بھائی اور ساتھ کھیلنے والے دوسرے بچوں کو پلاسٹک کا ماسک منہ پر پہن کر بھاگ دوڑ رہا تھا اور بچوں کو ڈرا رہا تھا۔ سیکورٹی پر مامور اس غیر تربیت یافتہ اور شقی القلب شخص نے اس بچے کو گولی مار کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سلا دیا۔ جاں بحق ہونے والا یہ بچہ ایک غریب ڈرائیور کا بیٹا تھا جسکی عمر تقریباً 11-10سال تھی۔ ہمارا آئین اور قانون اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ مملکت خدا داد پاکستا ن میں بسنے والے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت فراہم کرنا ہماری حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ مگر ہماری ہر آنے والی حکومت پاکستا ن میں بسنے والے 20کروڑ بے یار و مدد گار عوام کو آئین کے مطابق انہیں تحفظ فراہم کرنے میں نہ صرف ناکام ہوچکی ہے بلکہ وہ آئین کے مطابق کچھ کرنے کو تیار ہی نہیں ہے اور روز بروز آئین کی دھجیاں اڑا کر اسکا مذاق اڑانے کے درپے ہے ۔ جس سے ملک میں ہر روز ایک نیا واقعہ رونما ہوتان ہے جو کسی کی موت پر منتج ہوتا ہے اور ہنستا بستا گھرانہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غموں کی نظر ہو جاتا ہے۔ ملک میں نام نہاد سیکورٹی کمپنیاں معرض وجود میں آ چکی ہیں جنہیں صرف اپنے پیسے سے غرض ہے یہ نام نہاد سیکیورٹی کمپنیاں زیادہ تر افوا ج پاکستان کے ریٹائرڈ میجرز، بریگیڈئیرز ، کرنلز اور جنرلز کی ہیں جو ان کمپنیوں کی آڑ میں پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہیں اور اربوں کے کاروبار سے سیکیورٹی کے نام پر منسلک ہیں۔نجی سیکیورٹی کمپنیوں کا یہ کاروبار پورے پاکستان میں ایک بہت بڑی صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ سیکیورٹی کمپنیاں جہاں اربوں روپے کے کاروبار سے منسلک ہیں وہیں یہ کمپنییاں انتہائی نامور سیاستدانوں، نجی اداروں، بینکوں، صنعتوں، گھریلو اور تجارتی مراکز ، اسکولوں، دفاتر اور بہت سی دوسری اہم عمارات کی حفاظت پر بھی مامور ہیں۔ یہ سیکیورٹی کمپنیاں وزارت داخلہ اور صوبے کے ہر ہوم سیکرٹری کے جاری کردہ لائسینس کے تحٹ رجسٹرڈ ہونہ چاہئیں مگر ایسا نہیں ہے اور جو جتنی طاقت رکھتا ہے وہ اس قانون کی اتنی ہی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کمپنیوں کو الااعلان دھڑلے سے چلا رہا ہے اور وہ رجسٹریشن کے بغیر قوانین کو پامال کرتے ہوئے متواتر قانون شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔اسی طرح ان قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی میں ملوث یہ سیکیورٹی کمپنیاں مشکوک جعلی دستاویز کے ذریعے بغیر وزارتر داخلہ کے این او سی کے رشوت دیکر لوگوں کی حفاظت کے آڑ میں غیر قانونی اسلحہ سے لیس غیر تربیت یافتہ گارڈز کے ذریعے ان سیکیورٹی ایجنسیوں کو چلا رہے ہیں۔ان سیکیورٹی کمپنیوں کو بغیر کسی انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کلئیرنس رپورٹ جار ی کئے بغیر رشوت اور طاقت کے زور پر چلا رہے ہیں مگر تا حال ان کمپنیوں کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ اسوقت پاکستان میں کام کرنے والی سیکیورٹی کمپنیاں ایک ہزار سے بھی ذیادہ ہیں ۔ جنہیں وزارت داخلہ نے لائیسنس جاری کئے ہوئے ہیں وہ صرف ساڑھے چار سو سے کچھ ہی ذیادہ ہیں۔ جبکہ پاکستان کے بڑے شہروں میں گارڈ مہیا کرنے والی یہ کمپنیاں جنکے پاس لائسنس ہیں صرف 200 کے لگ بھگ ہیں۔ تین سو ایسی کمپنیاں ہیں جنکے پاس لائیسنس نہیں ہے اور وہ این او سی پر ہی میل ملاپ کرکے اپنی کمپنیاں چلا رہی ہیں۔ 700ایسی کمپنیاں ہیں جو صرف رشوت اور اپنے سابقہ عہدوں کے زعم میں بلا خوف انہیں چلا رہے ہیں کیونکہ انکا اثر و رسوخ اتنا مضبوط ہے کہ انہیں کسی یا ڈر ہیں نہیں ہے۔18ویں ترمیم کے بعد سیکیورٹی کمپنیاں صوبائی قانون کی پیروی کرنے کی پابند ہیں جو سیکیورٹی کمپنیوں کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل تو درکنار اپنی من مانی کرتے ہوئے دھونس سے اپنی ان سیکیورٹی ایجنسیوں کو چلا رہی ہیں۔ یہ سیکیورٹی کمپنیاں جو گارڈز رکھتی ہیں وہ انتہائی غیر تربیت یافتہ ، جاہل اور ان پڑھ ہوتے ہیں۔اس وقت پورے پاکستان میں تقریباً ان گارڈز کی تعداد تقریباً ساڑھے چھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔جو مختلف اداروں، گلیوں بازاروں، دوکانوں ، گھروں ، سکولوں اور لوگوں کی نجی اراضی پر تعینات ہیں مگر ان میں سے 80 فیصد لوگ ایسے ہیں جو غیر تربیت یافتہ، نو عمر اور ساٹھ سال سے اوپر ہیں جنہیں نہ تو اسلحے کے بارے میں کچھ علم ہے اور نہ ہی انہوں نے اسلحہ کو رکھنے اور اسے چلانے کی تربیت حاصل کی ہوئی ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو یہ پرائیویٹ گارڈز ہماری افواج کی تعداد سے کہیں ذیادہ ہیں۔ ان میں وہ نو عمر بچے بھی ہیں جنہیں خانہ پوری کیلئے چار سے پانچ ہزار روپے تنخواہ دیکر انکے ہاتھ میں بندوق تھما کر ڈیوٹی پر بھیج دیا جاتا ہے۔ حکومت کی کم از کم تنخواہ 13,000 روہے مقرر ہے مگر یہ سیکیورٹی ایجنسیاں 6 سے 10ہزار روپے پر غیر تربیت یافتہ لوگوں کو بھرتی کرکے نہ صرف ایک بڑی رقم کما رہی ہیں بلکہ ان غیر تربیت یافتہ گارڈز کی وجہ سے چوریوں، ڈکیتیوں، قتل کی وارداتوں اور دوسرے جرائم میں اضافہ ہوا ہے جو ایک انتہائی خوفناک بات ہے مگر ہمارے حکمران تا حال خاموش ہیں۔کچھ نجی سیکیورٹی کمپنیاں ایسی بھی ہیں جنہیں گورنمنٹ کے کمیشن خور مافیا نے کمیشن لیکر مختلف اداروں کوان سے گارڈز ٹھیکے پر لیکر دئے ۔ ہم ان کمپنیوں کا نام بتانا مناسب نہیں سمجھتے۔ بعض شہروں میں تو ایک ہی لائسینس کے ذریئے ان لائسنسوں کو مختلف لوگوں کر ٹھیکے پر دے دیا جاتا ہے اور وہ اس گھناونے کاروبار میں ملوث پائے گئے ہیں۔ تا حال ان نجی سیکیورٹی ایجنسیوں کے سینکڑوں گارڈز چوری، ڈکیتی اور قتل کی وارداتوں میں اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائی گئی ہیں ۔ کراچی کا ایک واقعہ نہیں اسطرح کے درجنوں واقعات ہیں جن میں ان غیر تربیت یافتہ اور جاہل گارڈز نے بے گناہوں اور معصوم بچوں کو گولی مار کر ان سے انکی زندگیاں چھین لیں۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات جن سے ہمارا ملک گزر رہا ہے اگر سختی سے قوانین پر عمل درامد کرتے ہوئے ایسی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرکے انہیں سزائیں نہ دی گئییں تو آنے والا وقت انتہائی مشکل ہوگا اور دہشت گردی، چوری، ڈکیتی اور قتل کی وارداتوں میں اتنا اضافہ ہو جائیگا کہ پھر انہیں قابو کرنا پولیس کے بس میں نہیں رہیگا اور ایک نیا محاز کھل جائیگا۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ لیت و لال سے کام نہ لے اور ملک میں پائے جانے والے نازک حالات کا جائزہ لے اوربلا تخصیص قانون پر عمل درامد کرتے ہوئے ایسی سیکیورٹی کمپنیوں کو فی الفور بند کرے جو قانون شکنی کرتے ہوئے غیر تربیت یافتہ گارڈز کے ذریعے اس ملک کی عوام کیلئے خطرے کا باعث بنتی جا رہی ہیں اگر ہوش نہ نا خن نہ لئے گئے تو ایسے کئی معصوم بچے ان سیکیورتی گارڈز کی بھینٹ چڑھتے رہینگے ۔
Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 155689 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.