بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کچھ اخلاق نے کرلی کچھ تلوار نے کرلی
مسخر ساری دنیا شاہ ابرار نے کرلی
اس کائنات کے اندر جتنی بھی عظیم شخصیات کا گزر ہوا ہے۔جو اعلیٰ اخلاق
وکردارکی بنیاد پر دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے ان تمام کے اخلاق حسنہ کو
جمع کرلیا جائے۔تو میرے مصطفی علیہ السلام کے سامنے ان کے اخلاق و کردار کی
حیثیت صفر ہی رہے گی۔آپ ایسے اعلیٰ اخلاق وکردار کا پیکروجمال تھے جس کی
کوئی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔اپنی بچپنے سے لے کر جوانی تلک جب تک آپ
نے نبوت کا تاج نہ پہنا تھا،مشرکین عرب میں آپ صادق وامین کے لقب سے ملقب
تھے۔وہ آپ سے اپنے بیٹوں سے زیادہ محبت والفت کرتے تھے۔آپ کے داداعبدالمطلب
کے ہاں آپ کا مقام اور شان تواتنی اعلیٰ وارفع تھی کہ وہ خاص مقام یا جگہ
جو ان کے لیے مخصوص تھی،جس پر ان کی سگی اولاد کو بھی بیٹھنے کی اجازت نہ
تھی،مگریہ دریتیم،آمنہ کے لعل،صاحب حسن وجمال جناب محمدﷺاس پر آکر براجمان
ہوجاتے آپ کے چاچوعبدالمطلب کے بیٹے آپ کو ٹوکتے کہ یہاں نہ بیٹھو،مگر جب
عبدالمطلب کواس کا علم ہوتا توگویا ہوتے:’’میرے پوتے کویہاں براجمان ہونے
سے مت روکا وٹوکا کروکیونکہ اس کی شان نرالی ہے،اس کا مرتبہ اعلیٰ ہے۔‘‘جب
بھی عرب میں کوئی امانت رکھوانا چاہتا توآپ ﷺ کے پاس آکر اپنی امانت
رکھواجاتا،کیونکہ ان میں مشہورتھا کہ آپ ﷺ نے بڑھ کر کوئی بڑا،امین مکہ کی
سرزمین میں سرے سے موجود ہی نہیں۔آپ کی ہربات کووہ من وعن تسلیم کر لیتے۔جب
نبوت کا تاج آپ کے سرپرسجایاگیا،توآپ کے کمال اخلاق نے بڑے بڑے دشمنوں
کواپناگرویدہ اوراسلام کا جانثاربنادیا۔ جوجان لینے کی غرض سے آتے وہ اسلام
کے لیے اپنادل دے بیٹھتے۔اپنے خونی رشتوں کوآپ کے لیے چھوڑنا گوارہ کرلیتے
مگرآپ سے جدائی کاصدمہ وہ برداشت کرنے سے قاصر نظرآتے۔آپ کااعلیٰ اخلاق سے
قرآن وحدیث کے ذخائر بھرے پڑے ہیں۔حتیٰ کہ سابقہ شریعتوں کی کتب میں بھی آپ
کے اعلیٰ اخلاق کو ذکر کیا گیا ہے۔تورات میں آپ کے اخلاق کے متعلق یہ مذکور
ہے کہ:’’آپ نہ بداخلاق ہیں اور نہ سخت مزاج ہیں۔نہ ہی بازاروں میں اونچی
آواز سے بات کرتے ہیں۔اور برائی کا جواب برائی سے نہیں بلکہ معاف کردیتے
ہیں اوردرگزر کردیتے ہیں۔‘‘آپ کے ساتھ زندگی بسرکرنے والے چاہے وہ آپ کے
اصحاب ہوں یا مشرکین عرب آپ کے اخلاق کی عمدگی پر توسب ہی متفق تھے۔چنانچہ
جب آپ نے اعلانیہ دعوت کے لیے پہلا قدم اٹھایا توصفا پہاڑی پرچڑھ کر آواز
لگائی اورپوچھا:’’کیا میں جوکہوں گا تم میری بات پر یقین کروگے اور اسے
مانوگے؟‘‘سب نے بیک آوازمیں کہا:’’ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہی پایا
ہے۔‘‘اسی طرح آپ کے اصحاب سے جب بھی اَخلاق نبوی کے بارے میں دریافت
کیاگیاتوانہوں نے ہمیشہ آپ کے اعلیٰ اخلاق وکردار کی تعریف کی۔اس وقت چونکہ
غلامی کاسلسلہ بھی تھا اس لیے غلاموں کے مالک اپنے غلاموں کے ساتھ بہت برا
رویہ اپناتے تھے لیکن حضرت انس رضی اﷲ عنہ جو آپ کے آزادکردہ غلام تھے
اوردس سال خدمت نبوی میں رہے۔آپ ﷺ کا رویہ ان کے ساتھ اتنا عمدہ تھا کہ وہ
بیان کرتے تھے کہ:’’نبی کریم نہ برابھلا کہتے تھے،نہ بے ہودہ گفتگوکرتے
تھے،نہ کسی پراپنی ذات کے لیے لعنت بھیجتے۔‘‘آپ کے پاس کوئی سائل آتا تو
کبھی ناامید ہوکرنہ لوٹتا بلکہ غنی ہوکر ہی واپس جاتا۔آپ میں عاجزی
وانکساری کا عنصر بھی کوٹ کوٹ کربھراہواتھا۔صحابہ کرام سے ہمیشہ گھل مل کر
رہتے جوکوئی بھی آپ سے ملناچاہتاتھا بغیرکسی تگ ودوکے آپ سے مل کراپنا
مسئلہ بیان کردیتاتھا۔آپ یہ دعا بھی کیا کرتے تھے :’’اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ
مِسْکِیْناً وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْناً وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ
الْمَسَاکِیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘ (کہ اے اﷲ! مجھے اس حال میں زندہ رکھ
کہ میں مسکین رہوں اوراسی حال میں مجھے موت دینا اورقیامت کے دن مجھے
مسکینوں کے گروہ میں اٹھانا۔)ایک بار مومنوں کی ماں سیدہ عائشہ صدیقہ
ومطھرہ رضی اﷲ عنھا نے یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا تو فرمانے لگیں کہ:’’ آپ یہ
دعا کیوں کرتے ہیں؟توآپ فرمانے لگے:’’بے شک مساکین مالداروں سے چالیس سال
پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔پھرآپ فرمانے لگے:اے عائشہ!مسکین کو خالی نہ
لوٹایا کرواگرچہ آدھی کھجور ہی دو۔عائشہ !تم مسکینوں سے محبت کرو اور انہیں
اپنے قریب کرو،اس طرح اﷲ تمہیں روز قیامت اپناقرب نصیب کرے گا۔‘‘(الترمذی:2352)مساکین
سے حقیقی محتاج مراد تھے ناکہ آج کل کے پیشہ وربھکاری ،جنہوں نے مانگنے کو
پیشہ بنا لیا ہے۔ایسے لوگوں کے بارے میں تو یہ وعید آئی ہے کہ کل قیامت
والے دن جب اﷲ کے دربار میں آئیں گے تو ان کا چہرہ صرف ہڈیوں کا ڈھانچا ہی
ہوگا،گوشت نہ ہوگا۔آپ ﷺ کے ساتھ اپنے ساتھیوں کا رشتہ اتنا گہرہ تھا کہ جب
بھی کوئی مسئلہ ہوتا کوئی لونڈی آپ کے پاس آتی اور آپ کو اپنا مسئلہ حل
کروانے کے لیے آپ کو ساتھ لے جاتی توآپ اس کے ساتھ چل پڑتے(صحیح
البخاری:6072) آج کل کے حکمرانوں کی طرح تکلف نامی بیماری کا تو دور تک
کوئی نام ونشان تک نہ تھا۔غرض کے آپ اپنی امت کے لیے سب کچھ قربان کیے ہوئے
تھے۔اسی طرح ایک ذمہ دار کی حیثیت سے آپ پر رعایا کی جو ذمہ داریاں عائد
ہوتی تھیں ان کا بھی خاص خیال رکھتے چنانچہ آپ کمزورومسلمانوں کے پاس
آتے،ان سے ملاقات کرتے،ان میں سے جو بیمار ہوتا اس کی عیادت کرتے،جو فوت
ہوجاتا اس کی نماز جنازہ ادا کرتے اورتدفین میں شریک ہوتے۔(المستدرک
حاکم)اسی طرح سلام میں پہل کرتے،اسی طرح آپ میں تکلف نام کی تو کوئی چیز
تھی ہی نہیں حتیٰ کہ زمین پر بیٹھ جاتے اور زمین پر بیٹھ کر ہی کھانا
کھاتے۔بکری کو باندھتے اور جو کی روٹی پر بھی کوئی غلام دعوت دیتا تواس کا
دل رکھنے کے لیے دعوت قبول کرلیتے۔(الطبرانی)صحابہ کرام کو کوئی شخص آپ سے
بڑھ کرعزیز ،قابل احترام اور محبوب نہ تھا ،اس کے باوجود بھی جب آپ صحابہ
کی مجلس میں تشریف لاتے توصحابہ میں سے کوئی احتراماً کھڑا نہ ہوتا کیونکہ
آپ نے اس عمل سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔(سنن الترمذی:2754)مگر آج
ایسا نہ کرنے والے سزا کے مستحق قرارپاتے ہیں اورکوئی نام نہاد حکمران کے
سامنے احتراماً کھڑا نہ ہوتو وہ اس میں اپنی توہین سمجھتا ہے۔جس طرح آپ کا
کرداراجلا اورصاف ستھرا تھا بعینہہ آپ کا گفتار بھی عمدہ تھا۔کبھی زبان سے
کسی کوتکلیف نہ دی مگرآج نام نہادعاشق رسول ﷺکا دعویٰ کرنے والوں کا اخلاق
و کردارایسا ہے کہ اﷲ معاف کرے ۔ان کی زبان سے کوئی محفوظ ہے نہ کردارسے،ان
کی زبان وہاتھ مسلمانوں کے خلاف چلتے ہیں۔حالانکہ ایک مسلمان کادوسرے
مسلمان پرخون بہانا،مال کھانا،اور عزت خراب کرنا حرام ہے۔مگرنام نہاد
مسلمانوں کے ہاتھ اپنے ہی بھائیوں کے خون سے رنگ چکے ہیں۔ان کی زبانیں
اپنوں کے خلاف نشتر بن چکی ہیں۔اﷲ ہمیں نبوی اخلاق اپنانے کی توفیق عطا
فرمائے۔آمین |