اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ’’اے
ایمان والوں! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو خواہ ﴿اس میں﴾
تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے
یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو
نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدہ شہادت دو گے یا ﴿شہادت سے﴾ بچنا چاہو گے تو
﴿جان رکھو﴾ خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے‘‘۔ ﴿نسائ :۵۳۱﴾
حقیقت میں اسلام عدل و انصاف کا ہی دوسرا نام ہے اور کسی بھی نظام کی بقا
کے لئے اُس کا عدل و انصاف پر قائم ہونا بہت ضروری ہے۔ دنیا میں حضرت آدم
علیہ السلام کو خلیفۃ اللہ بنا کر بھیجنے کا اور پھر اُن کے بعد دوسرے
انبیا علیہم السلام یکے بعد دیگرے بحیثیت خلیفۃ اللہ بنا کر بھیجتے رہنے
کا، اور ان کے ساتھ بہت سی کتابیں اور صحیفے نازل کرنے کا اہم مقصد یہی تھا
، دنیا میں انصاف اور اس کے ذریعے امن و امان قائم ہو، ہر فرد اپنے اپنے
دائرۂ اختیار میں انصاف کو اپنا شعار بنا لے-
فیسبک پر میری نظر ایک تصویر پر پڑی۔ جس میں لیکھا ہو تھا۔ کہ ‘‘امریکہ میں
ایک عدالت کو محمدکے نام پر رکھا گیا ہے،کیونکہ محمد سب سے زیا دہ انصا ف
کرنے والے تھے۔‘‘
مجھے خوشی ہو ئی یہ دیکھ کر پر تھو ڑی حیرت بھی ہوئی کہ وہ لوگ جں کو ہما
رے ملک کے بعض طبقے دائرہ انسانیت سے بھی خا رج کرتے ہے۔ وہ ہمارے پیغمبر
کے اس کلیدی پیغام یعنی ‘‘عدل‘‘ کو نہ صرف سمجھ چکے ہے ، بلکہ اس پر عمل
بھی کر رہے ہے۔اور ہما رے ہاں اسلام کے اس کلیدی پیغام کی دھجیاں اڑائی جا
رہی ہے۔ صا حب گفتا ر تو بنے پر صاحب عمل و صا حب کردار نہیں۔
پر یہ ایک لازمی امر ہے کہ بحثیت مسلما ں ایک عا دلا نہ زندگی ایماں کا جز
ہےپر ایک عا دلانہ زندگی گزارنے کیلیےعدل اور اس کے مفہو م کو سمجھنا ضروری
ہے۔عدل کیا ہے ؟
اپنی پاکیزہ لائبریری میں غیر پاکیزہ کتاب کا نہ رکھنا عدل ہے۔حق والے کو
اس کا صحٰیح حق مل جا نا ہی عدل ہے۔کسی ترازو تولنے والے کو غور سے دیکھا
جائے و معلوم ہو گا کہ دونوں پلٹرے کس طرح ہم وزں کیے جا تے ہے، اسی ہم وزن
کرنے کو عدل کہتے ہے۔
عدل کا میداں بڑا وسیع ہے ۔ یہ انساں کی تنہائی سے شروع ہو کر حشر کے میداں
تک پھیلا ہو ا ہے۔
جو شخص اپنی تنہا ئی سے عدل نہیں کرتا وہ زندگی میں کیا عدل کرے گا۔ عا دل
ہمہ حال عا دل ہے۔
حق ، حق ہے ۔ حق کا بیا ں ہونا چا ئیے۔ آخر سورج نے نکل آنا ہے۔کیونکہ عا
دلا نہ زندگی ہی پل صراط ہے۔
عادل بننے کیلیے یہ بنیا دی شرط ہے ، کہ اپنا محا سبہ ہو، کیا میں نے اپنے
فرائض پورا کیے ہے؟کیا میری زندگی کا جو مقصد ہے، میں صحیح معنوں میں اس
حقیقی مقصد کی جا نب گا مزں ہوں؟ کیا میں اپنے ساتھ عدل کر رہا ہوں؟
بے شک اپنا محا سبہ اور تزکیئہ نفس ہی تیرا خود سے عدل ہے۔کیو نکہ اپنے آپ
سے عدل کرنے کے بعد ہی تیری امیدوں کا سورج طلو ع ہونا شروغ ہا جا ئے گا۔
اور تم انسا نیت کی تصویر بن کہ انسا نیت کیلیے بقا ئے خیر بن جاو گے۔ بہر
حال یہ عدل ہی ہےجو انسا نی زندگی کے ہر حصے میں کام آ تا ہے۔ اسی سے حقو ق
و حدو د کی آشنا ئی ہو تی ہے۔ اپنا کیا ہے پڑایا کیا ہے۔اس کو معلو م ہونا
چا ئے کے جو چیزیں میں گھر میں استعمال کر رہا ہوں، وہ دفتر کی تو نہیں۔
کیا جو پیسہ میں استعمال کر رہا ہوں یہ کسی سے غلط بیا نی سے تو حاصل نہیں
کیا؟
نگاہ کا عدل بڑا قوی ہے۔ نگاہ کا عدل وہ ہے جس میں دوسروں کی بیٹی میں اپنی
بیٹی نظر ائےاور جس سے اپنے حق سے زیا دہ لینے والے بیٹے سے دوسروں کے حق
سے محروم بیتوں کا خیا ل آئے۔
کسی منصف کیلیے عدل فیصلے کا نا م نہیں ۔ بلکہ عدل زندگی کا نام ہے، اس کی
زباں ہمیشہ سچ بولتی ہے ،گھر و یا عدا لت، ضرور عدل کرتا ہے۔
اگر سیا ست میں عدل اجا ئے، تو ملک تو کیا انسانیت کہاں سے کہاں ترقی کر
جائے۔کیونکہ سیا ست میں سب کچھ جا ئز ہے اور عدل میں نا جائز۔ ہم اپنے نظا
م عدل کو خدائی نظا م عدل کے مطا بق بنائیں، نہ کی خدائی نظا م عدل کو اپنے
تقا ضوں کے مطابق۔
عدل کرنا چائے۔ عدل ہو نا چا ئے۔ کیونکہ عدل کا نتیجہ امن ہے، سلا متی ہے ،
محبت ہے۔عدل ضروری ہے، عدل انسانی زندگی کے ہر حصے میں کا م آتا ہے۔عدل
انسانی وجود میں توازں کا نام ہے۔ ایک حصہ دوسرے حصوں کو کھا تا چلا جائے،
تو عدل نہ ہوا۔ وجود کو موجو د رہنا چا ئے مگر عدل کے ساتھ |