عشق وِشق
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
انسان کی زندگی میں کبھی ایسے مراحل بھی
آتے ہیں، جن کے ذکر سے اس کو کبھی تو خوشی ہوتی ہے اور کبھی اتنی تکلیف
ہوتی ہے کہ اس کو برداشت کرنا بھی ایک ناتواں دل کے لیے ہفت اقلیم طے کرنے
کے مترادف ہوتا ہے ، اس کے تذکرے سے کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے، آنکھوں سے
آنسو رواں ہوتے ہیں، دل بے چین، جذبات سرد اور خواہشات پھیکے پڑجاتے ہیں۔
زمین کے کسی گوشہ میں بھی اس کو سکون میسر نہیں ہوتا ہے ، وہ سوچنا چاہتا
ہے مگر ذہن مفلوج ہوجاتا ہے، وہ دیکھنا چاہتا ہے مگر آنکھوں کی بینائی پر
آنسوؤں کا سیلاب امنڈپڑتا ہے، وہ چلنا چاہتا ہے مگر اس کے پاؤں میں بیڑیاں
پڑجاتی ہیں اور وہ دوڑناچاہتا ہے مگر اس کے قدم بوجھل ہوجاتے ہیں۔ دوست یا
ر اور اعزواقارب حتی کہ اس کا اپنا گھربار سب کچھ بے گانہ معلوم ہونے لگتے
ہیں ، وہ بات کرنا چاہتاہے مگر اس کا کوئی ہم خیال نہیں ملتا جس سے وہ اپنے
من کی بات کہہ سکے، وہ ہنسنا بھی چاہتا ہے مگر وہاں کوئی اور نہیں ہوتا جو
اس کو ہنسائے اور ویسے بھی وہ ہنسے تو کس لیے اور روئے تو کس وجہ سے ، یہ
بھی اس کو سمجھ میں نہیں آتا؛ کیا یہ کیفیت کسی عاشق کی ہوتی ہے، یا کسی
دیوانے کی ،یا پھر وہ مجنوں ہوتا ہے جو ہر چیز سے بے خبر ہوکر ہر چیز میں
اپنے محبوب کو تلاش کرتا ہے؛ قیس مجنوں کے پاس سے ہرنوں کا ایک ریوڑ گذرا ،تو
وہ اس ریوڑ میں ہی لیلیٰ کو تلاش کرنے لگا اور ان سے مخاطب ہوکر پوچھا: ’’ا
لیلایَ منکن ام لیلیٰ من البشر‘‘ کہ ائے بے زبان اللہ کی مخلوق میری لیلیٰ
تمہاری ہی جنس سے ہے یا وہ انسانوں میں سے ہے ۔جی ہاں ایک سچا عاشق
یقیناًایسا ہی کرتا ہے ، جس کا عشق اس کو مجنوں بنادیتا ہے اور وہ وصلِ یار
میں کھویا کھویا رہتا ہے، اس کی زندگی کا ہر لمحہ اسی فراق میں گذرتا ہے کہ
کب اور کیسے اپنے محبوب کا دیدار ہوجائے؛ اس لیے کہ
عشق میں نامرادی بزدلی ہے اے اہلِ دانش
کہ جس عشق میں وصلِ یار نہ ہو وہ بھی کوئی عشق ہے!
عشقِ حقیقی کی کیا تعریف ہے، بلکہ سچا عاشق کون ہے تو یہ کہاجاتا ہے کہ’’
العشق ھو یحرک ماسوی المعشوق ‘‘ کہ عشق وہ ہے جو معشوق کے علاوہ کسی بھی
چیز کو قبول نہ کرے ، اس کے دل کی سوزش اپنے معشوق کے ذکر کے علاوہ ہر شی
کو خاکستر کردے ۔ یہ کیفیت ایک انسان میں اس وقت موجزن ہوتی ہے جب وہ اپنے
ممدوح کو لافانی اور اس کی محبت کوجاودانی تصور کرتا ہے اور اپنے اس عشق کی
عمارتوں کو وہ حقیقت پر تعمیر کرتا ہے، اس لیے کہ ایک انسان اپنے والدین سے
محبت کرتا ہے، بھائی بہن اور اعزواقارب سے بھی محبت کرتا ہے،مگر وہ اپنے
خالق اللہ عزوجل اور اس کے حبیب محمد ﷺ سے جو محبت کرتا ہے ،اس میں محبت
اپنے کمال بلکہ انتہا کو ہوتی ہے ، اسی لیے اس عشق ومحبت کو ’عشقِ حقیقی‘
سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے علاوہ بقیہ تمام اقسامِ محبت،کو مجازی اور
حادث تصور کیا جاتا ہے، البتہ مذکورہ دونوں محبتوں میں قدرِ مشترک امر یہ
ہے کہ کفیتِ عشق دونوں میں تقریباًیکساں ہوتی ہے، تاہم عشقِ مجازی میں
زیادہ تر جسمانی اورمعاشرتی اغراض پیشِ نظر ہوتے ہیں، جبکہ عشقِ حقیقی میں
ان دونوں سے ہٹ کر صرف اور صرف اپنے محبوب کی رضا اور اس کی خوشنودی مقصود
ہوتی ہے، جو کسی اسباب وعلل کا محتاج نہیں ہوتا،عشقِ حقیقی کا مدار صرف
ایمان ویقین پر ہوتا ہے ، جس کے باوصف اِس میں استقامت اور دوام ہوتی ہے،
جبکہ عشقِ مجازی حالات اور واقعات کے بدلنے سے بدلتا رہتاہے، عشقِ حقیقی
میں آزمائش پرسکون اور لذت ملتی ہے، جبکہ عشقِ مجازی میں آزمائش پر دوری
اور اختلاف پیدا ہوتاہے، تاہم ایسی محبت جو ایک انسان اپنے والدین سے کرتا
ہے ،یا اپنے بھائی بہن اور اعزواقارب سے کرتاہے ،وہ عشقِ حقیقی کے منافی
بھی نہیں ہے، بلکہ محبوبِ حقیقی کی نظر میں محبوب بھی ہے کہ اس کا حبیب اس
کی ہر چیز سے محبت کرے ، اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ محبت کو پیدا بھی نہیں
کرتا ۔آج پوری دنیا میں ہزاروں کروڑوں انسان بستے ہیں، سب کی ذہنیت اور
معاشرت مختلف ہیں، مگر اس کے علی الرغم صرف اسی محبت کی بنیاد پر آج ایک
انسان دوسرے انسان سے اپنے خیالات شیئر کرتا ہے، حقیقت ہے کہ اگر اس محبت
کا وجود نہیں ہوتا ، تو پھر آج یہ دنیا بھی باقی نہیں رہتی۔
عشق اور محبت میں فرق کیا ہے تو ماہرین کا ماننا ہے کہ دونوں ہی دیوانگی کی
ایک قسم ہے مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ محبت میں شعور اور حس مکمل طور
بیدار ہوتے ہیں، جبکہ عشق انسان کو مجنوں بنادیتا ہے،اس میں معشوق کے رشتہ
اور مقام کا لحاظ نہیں ہوتا ، جبکہ محبت میں ان سب کا پورا پورا لحاظ رکھا
جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عشق کا انجام عموماً تکلیف دہ بھی ہوتا ہے ،جبکہ
محبت کا انجام پُرمسرت ہوتا ہے، پھر اس محبت کا بھی کیا کہنا جب طرفین سے
وارفتگی ہو اور ہر دونوں طرف سے
من تو شدم تو من شدی
من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں
من دیگرم تو دیگری
کا عملی مظاہرہ بھی ہو تو اس محبت کا انداز ہی نرالا ہوتا ہے ، ہر ایک
دوسرے پر اپنا تن من نچھاور کرنا چاہتا ہے ، ایک سچا محب کبھی یہ نہیں
برداشت کر سکتا کہ اس کا محبوب اس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجائے ؛ یہ قصہ تو
بہت مشہور ہے ایک شخص کو اپنی بیوی سے بے انتہا محبت تھی اور بیوی بھی اپنے
شوہر سے اتنی ہی ٹوٹ کر محبت کرتی تھی ، ایک دن بیوی کا اچانک انتقال ہوگیا
، اس وقت اس کا شوہر کہیں دورسفر پر تھا، کچھ دنوں بعد جب اس کو پتہ چلا تو
وہ گھر آیا، غسل کیا ، اچھے کپڑے زیب تن کیے اور پھر اس کمرے میں گیاجہاں
اس کی بیوی کا انتقال ہوا تھااوراس پلنگ پر سوگیا جس پر اس کی بیوی دائمی
نیند سوئی تھی ،پھر وہ کبھی بیدار نہیں ہوا۔ یقیناًمحبت میں یہ سب کچھ ہوتا
ہے، کیونکہ محبت کی وادی اتنی گہری ہے کہ اس کی انتہا کا ندازہ کسی کو ہوہی
نہیں سکتا، ایک انسان جب اس میں گرتا ہے تو گرتا ہی چلا جاتا ، ایک مرتبہ
جب کسی نے شرابِ عشق پی لیا تو آسودگی کبھی ہوتی ہی نہیں ، وہ ماہیِ بے آب
کی طرح تڑپتا رہتاہے، دنیا کی ساری زیب وزینت ، آرائش وزیبائش اور رنگ
وروغن سب خشک اور پھیکے معلوم ہوتے ہیں ، بلکہ محبوب کے حسن کے سامنے دنیا
کی ساری رونق مدھم پڑجاتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب محبت میں اخلاص ہو،
جسمانی اغراض بالکل بھی نہ ہو ، آج تو ہزاروں کی تعداد میں دل پھینک عاشق
کباڑے کی طرح گلی کوچوں اور سڑکوں پر بھٹک رہے ہیں، مگر انجام دردناک
حادثہ، قتل و خون اور جسمانی درندگی ہے۔ ایک سچا عاشق جدائی تو برداشت
کرسکتا ہے ، گو خود ہلا ک ہوجائے مگر کبھی بھی اپنے محبوب کی بے عزتی
برداشت نہیں کرسکتا ، آج معاشرے میں لڑکے اور لڑکی کے غلط رشتے کو محبت کا
نام دے کر اس پاکیزہ لفط کو بدنام کیا جارہا ہے ، آج ایک سو میں سے نناوے
فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ لوگ صرف اور صرف اس لیے کسی سے عشق لڑاتے ہیں کہ
وہ اس کے ذریعہ اپنی جسمانی آگ کو سرد کرسکیں ، ان عشاق میں شاید ہی کوئی ا
یسا ہوگا جو اپنے آپ کو حرام کاری سے محفوظ رکھتا ہو ، اس معاملہ میں صنفِ
نازک بھی کم نہیں ہیں ، وہ تو صرف جھوٹے وعدوں پر ہی اپنے آپ کو سپرد
کردیتیں ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ محبت انسان کرتا نہیں ہے ، بلکہ ایک انسان کے
اخلاق وکردار سے متاثر ہوکر محبت خود ہی ہوجاتی ہے، آج تو لوگ بڑے شوق سے
محبت کرتے ہیں، پھر جب سرین پر دوتین ڈنڈے پڑتے ہیں تو اس طرح غائب ہوتے
ہیں جیسا کہ گدھے کے سر سے سینگ، کیونکہ ان کی محبت تو ہوتی نہیں بلکہ وہ،
تو صرف شہوانی آگ کوسرد کرنے کا ایک بہانہ ہوتا ہے اور جس کی بنیاد گناہ
پرہو اس میں استقامت کہاں ہوسکتی ہے۔ اگر محبت ہی کرنی ہے تو جائز امور میں
کی جائے ، والدین ، بھائی بہن اور اعزواقارب سے کی جائے اوراگر کبھی کسی سے
اس طرح کا تعلق پیدا بھی ہوجائے تو اس کی اور اپنی عزت کا خیال رکھیں،
براہِ کرم گناہ کرکے اس پاکیزہ لفظ کو گنہ گار نہ کریں، صبر کریں اور ثابت
قدم رہیں ، اگر آپ نے ایسا کرلیا تو یقیناً محبوبِ حقیقی بھی خوش ہوگا اور
آپ کو اس کا بہترین بدلہ دے گا۔ اورپھر بعد میں جب کبھی اپنے ماضی کو یاد
کریں گے توآپ کو اس کی یادیں اچھی لگیں گی ، ورنہ تو یادِ ماضی عذاب معلوم
ہوگا اور پھردنیا میں کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی۔ |
|