مکلی کی زمین عرش سے بھی افضل ہے : اور یہ جو مکلی کی
زمین ہے اس کے بارے میں حکمران سندھ جام نظام کے دور 914-866ء میں مخدوم
احمد اور حضرت مخدوم محمد نے فرمایا تھا : ”یہ وہ جگہ ہے جس کو عرش پر بھی
فوقیت ہے “ اور حضرت میاں متو اور میاں رتو اولیائے مکلی فرماتے تھے: روز
قیامت ہم اس کوہ مکلی کو اپنی جگہ سے اکھاڑ کر بہشت میں پھینک دیں گے-“
(نعوذ باللہ من ذالک) یعنی یہ بزرگ مکلی کے پہاڑ کو تو بہشت میں پھینکیں گے
جبکہ ان کے جو مزارات مکلی کے میدان میں ہیں وہ تو عرش سے بھی فوقیت رکھتے
ہیں -اس سے اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کہ پھر وہ کہاں ہونگے.... ؟(اللہ کی
پناہ ان خرافات سے )
ایران کا آتش کدہ کیسے ٹھنڈا ہوا ؟ قارئین کرام ! آہ ....آج مسلمان امت ‘
توحید و جہاد کی وارث امت مردوں کے شکنجے میں ہے -خرافات کے چکر میں کولھو
کا بیل بن چکی ہے -غیر مسلم مشرکوں کے دیوتوں کی طرح آج ان کی خوشی وغمی
اور کرب والم کا الگ الگ بزرگ موجود ہے آج اگر ہندو تیس لاکھ دیوتاؤں کی
پوجا کرتے ہیں تو پاک و ہند کے مسلمان بهی لاکهوں بزرگوں کی پوجا کرتے
ہیں.اگر ہندووں نے اپنے دیوتاوں کی طرف جهوٹے قصے کہانیاں گهڑ رکهیں ہیں تو
مسلمانوں نے بهی بے شمار من گهڑت جهوٹی کرامات اور قصے کہانیاں بهی اپنے
بزرگوں (مزاروں'درباروں) کی طرف منسوب کر رکهی ہیں.آج کے ہندووں نے اگر
اپنے دیوی دیوتاوں کی خیالی مورتیاں اور مجسمے بنا رکهے ہیں تو مسلمانوں نے
بهی اپنے بزرگوں کے مزار/ دربار / خانقاہیں/ آستانے/تصاویر وغیرہ بنا رکهیں
ہیں.فرق صرف اتنا ہے کہ ہندووں اپنے دیوتاؤں کی مختلف شکلیں بنا کر پوجا
پات کرتے ہیں اور آج کا مسلمان اپنے بزرگوں(نیک لوگوں) کی قبروں کی شکل میں
پوجا پات اور شرکیہ امور سر انجام دیتے ہیں.یہ بات اچهی طرح زہن نشین رہے
کہ قبروں پر سجدے،رکوع، گم سم کهڑے ہونا،طواف،نظرونیاز، دعایئں التجایئں
کرنا، منتیں مرادیں مانگنا،مال خرچ کرنا وغیرہ یہ سب عبادات ہیں جو صرف
اللہ وحدہ لا شریک کیلئے ہیں.اگر ان عبادات کو کسی غیر اللہ(اللہ کے سوا)
کیلئے مخصوص کیا گیا تو یہ شرک عظیم کہلائے گا جس کی معافی قطعی نہیں ہے
سوائے توبہ کے.اس سے پہلے کہ موت گود میں لے توبہ کر کے اللہ تبارک وتعالی
کو ہی اپنے ہر قسم کے نفع و نقصان کا مالک سمجها جائے جو ہمیشہ زندہ رہنے
والا (الحی القیوم)سننے جاننے اور مرادیں پوری کرنے والا ہے.اب فیصلہ آپ پر
ہے کہ ایک اللہ خالق و مالک رازق کی عبادت کرنی ہے یا کمزور محتاج اور
مخلوق کی عبادت کرنی ہے؟ -آج یہ امت توحید کے آسمان سے گر کر شرک کے اس
ویرانے میں بھٹک رہی ہے کہ جس ویرانے میں کبھی ہندو‘ عیسائی اور مجوسی
بھٹکا کرتے تھے -آج انہوں نے مکلی اور دیگر بزرگوں کے ساتھ وہی عقیدہ
وابستہ کرلیا ہے جو غیر مسلموں نے اپنے اپنے دیوتاوں اور بزرگوں سے وابستہ
کیا ہوا ہے.. -تب تو ہم نے توحید وجہاد کی ضرب سے ان غیر مسلم قوموں کو
توحید کا سبق سکھایا تھا ....لیکن آج خود اس شرک کی غلیظ وادیوں میں بهٹکے
ہوئے ہیں! تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ مسلمان جب ایران کے آتش پرستوں پر
حملہ آور ہوئے -گھمسان کا رن پڑا تو مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ آتش پرستوں
کا وہ قدیم آتش کدہ کہ جس کے مینار پر ہزار سال سے مقدس آگ جل رہی ہے- ان
کا عقیدہ ہے کہ جب تک یہ آگ جلتی رہے گی ہمیں شکست نہیں ہوسکتی- تب
مسلمانوں کے ایک جانباز دستے نے جان پر کھیل کر ہزار سالہ آگ کو ٹھنڈا
کردیا ....آگ کا ٹھنڈا ہونا تھا کہ اس کے ساتھ ہی اہل کسریٰ کے مذہبی جذبات
سرد پڑگئے -فرزندان توحید آگے بڑھے اور دنیا کی دو میں سے دوسری سپر پاور
کو قدموں تلے روند ڈالا-لیکن آج کا مسلمان پهر اسی آگ کی پوجا میں لگ گیا
جو بعض مزاروں اور آستانوں میں مچ کے نام سے جلائی جاتی ہے راقم تالیف: خود
اس مچ کو دیکھ چکا ہے.اور اس راکھ کو بیماریوں کی شفاء اور تبرک کیلئے
لوگوں کو لے جاتے ہوئے بهی خود اپنی آنکھوں سے دیکها ہے..جس کی تفصیل آگے
آئے گی......خیر......
راجہ داہر کا مقدس پرچم کس طرح تار تار ہوا؟
محمد بن قاسم جب دیبل کے ساحل پہ اترا ‘ راجہ داہر کے ساتھ مقابلہ شروع ہوا
تو اسلامی فوج کو معلوم ہوا کہ راجہ کے محل پر جو پرچم لہرا رہا ہے ‘وہ
مقدس مذہبی پرچم ہے اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک یہ قائم ہے ‘ راجہ قائم
ہے اور جب یہ نہ رہے گا تو راجہ نہ رہے گا-چنانچہ توحید کے علمبرداروں کے
سپاہیوں میں سے چند نے اس جھنڈے پر اپنی سپاہیانہ سرگرمیوں کو مرکوز کیا
-اور اسے اتار کر تار تار کردیا -جھنڈے کا تار تار ہونا تھا کہ ہندوں کا
مذہبی عقیدہ تار تار ہو کر رہ گیا ....ہندوں کی فوج بکھر چکی تھی اور
مسلمان عقیدہ
توحید کی بنیاد پر جہاد کی برکت سے سرزمین ہندوستان کے وارث بنا دئیے گئے
تھے-
محمود غزنوی نے سومنات کا مندر کیسے توڑا اگلی قسط میں پڑهیں..جاری ہے....
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان《اس سلسلہ کی تمام
اقساط آپ اس بلوگ پر پڑھ سکتے ہیں⬇
|