مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز جمعہ کے لئے پہلی اذان

مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز جمعہ کے لئے پہلی اذان جمہور علماء کی رائے کے مطابق زوال آفتاب کے بعد ہونی چاہئے
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِ وَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

امام حرم مکی شیخ صالح بن محمد بن ابراہیم آل طالب دامت برکاتہم ہندوستان تشریف لارہے ہیں، جہاں وہ مختلف مقامات پر خطاب فرمائیں گے اور نماز کی امامت فرمائیں گے۔ ان شاء اﷲ وہ اس سفر میں اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ ہم بیت اﷲ سے ہزاروں میل کے فاصلہ پر رہ کر بھی آپ، دیگر ائمہ حرمین شریفین اور سعودی عرب کے علماء سے کیسی عقیدت ومحبت رکھتے ہیں اور ہم ہندوستانی مسلمان‘ سعودی عرب خاص کر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں امن وامان کے قیام کے لئے کس قدر فکر مند رہتے ہیں۔ نیز وہ مشاہدہ کریں گے کہ ہندوپاک کے علماء کرام نے قرآن وحدیث کی کیسی عظیم خدمات پیش کی ہیں کہ جن سے رہتی دنیا کا ان شاء اﷲ استفادہ کیا جاتا رہے گا۔ نیز وہ دیکھیں گے کہ ہم غیروں کے سایہ میں رہ کر بھی اپنے نبی ﷺ کی سنتوں سے کیسی محبت کرتے ہیں اور دین اسلام کی حفاظت کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دینے کے لئے ہم ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

امام حرم کی ہندوستان آمد پر تقریباً ہر ہندوستانی مسلمان کی یہ خواہش ہے کہ وہ امام حرم کا دیدار کرے یا کم از کم ان کی امامت میں نماز ادا کرے۔ہم امام حرم کے ہندوستان تشریف لانے پر موصوف کا پرزور استقبال کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ موصوف کا ہندوستان تشریف لانا ہم سب کے لئے خیر کا سبب بنے۔ امام حرم سے ایک مطالبہ ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے شاہ عبد العزیز ؒ کے زمانہ سے جمہور فقہاء وعلماء کی آراء کا احترام کرنے کا جو عزم کررکھا ہے، اس پر عمل کو یقینی بنایا جائے۔ فی الحال ایک مسئلہ درپیش ہے کہ جمہور فقہاء وعلماء کی رائے کو نظر انداز کرکے نماز جمعہ کی پہلی اذان چند ماہ سے کسی معقول وجہ کے بغیر مسجد حرام اور مسجد نبوی میں زوال آفتاب سے آدھا گھنٹہ قبل دی جارہی ہے، حالانکہ عرصہ دراز سے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں زوال آفتاب کے بعد ہی نماز جمعہ کی پہلی اذان ہوتی چلی آرہی ہے۔ہم ہندوستانی مسلمان ائمہ حرمین شریفین سے جس قدر محبت ،تعلق اور عقیدت رکھتے ہیں، آنجناب سے مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ حرمین شریفین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں جمہور فقہاء وعلماء کی رائے کا احترام کرتے ہوئے جمعہ کی پہلی اذان زوال آفتاب کے بعد ہی دی جا ئے جیساکہ یہ سلسلہ عرصۂ دراز سے چلا آرہا ہے۔

اذان وخطبہ جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ہونا چاہئے تاکہ نماز جیسی اہم عبادت کی ادائیگی میں کوئی شک وشبہ نہ رہے۔ بعض مساجد میں خطبہ کی اذان کا زوال آفتاب سے قبل دینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ بلکہ اگر عام مساجد میں بھی پہلی اذان زوال آفتاب کے بعد دی جائے تواس میں زیادہ احتیاط ہے نیز دیگر تمام ائمہ کی رائے کا احترام بھی ہے اور کسی طرح کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے بلکہ زوال آفتاب سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل اذان دینے سے اذان کامقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ نے صرف یہی تو کہا ہے کہ اگر نماز جمعہ زوال آفتاب سے قبل ادا کرلی گئی تو اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن انہوں نے یہ تعلیم وترغیب نہیں دی کہ ہم زوال آفتاب سے قبل اذان اوّل کا اہتمام کرلیں۔ تمام مساجد خاص کر حرمین شریفین میں جمعہ کی پہلی اذان زوال آفتاب کے بعد ہی ہونی چاہئے تاکہ دنیا کے کسی عالم کا کوئی اختلاف نہ ہو۔ موضوع کی اہمیت کے مدنظر یہ مضمون تحریر کر رہا ہوں، اﷲ تعالیٰ صحیح بات لکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

نماز جمعہ کے اول وقت کے متعلق فقہاء وعلماء کی دو رائیں ہیں۔ دونوں رائے ذکر کرنے سے قبل اختلاف کی اصل وجہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ بعض روایات نماز جمعہ جلدی پڑھنے کے متعلق وارد ہوئی ہیں، حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ نے ان سے سمجھا کہ نماز جمعہ زوال آفتاب سے قبل پڑھی جاسکتی ہے، حالانکہ کسی ایک صحیح حدیث میں بھی وضاحت کے ساتھ مذکور نہیں ہے کہ آپ ﷺ زوال آفتاب سے قبل جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ علیہم نے کہا ہے کہ ان احادیث میں صرف نماز جمعہ کے لئے جلدی جانے کی تاکید کی گئی ہے نہ کہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی۔

جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ علیہم اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ کی دوسری روایت کے مطابق نماز جمعہ کا وقت ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ کا مشہور قول یہ ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی پڑھنی چاہئے لیکن اگر زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ ادا کرلی گئی تو زوال آفتاب کے بعد اعادہ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جمعہ بھی عید ہے، اس لئے چاشت کے وقت پڑھنے کی گنجائش ہے۔ مشہور حنبلی عالم ابن رجب رحمۃ اﷲ علیہ تحریر کرتے ہیں کہ صحیح مذہب کے مطابق جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد ہی واجب ہوتی ہے اگرچہ پہلے ادا کرنے کی گنجائش ہے۔

جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کے قول کے بعض دلائل: جمہور علماء کے متعدد دلائل ہیں، لیکن اختصار کے مدنظر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد صرف دو احادیث ذکر کررہا ہوں:
۱) حدیث کی سب سے مستند کتاب لکھنے والے حضرت امام بخاری رحمۃ اﷲ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (صحیح بخاری) میں کتاب الجمعہ کے تحت ایک باب (Chapter) کا نام اس طرح تحریر کیا ہے: "جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت عمرو بن حریث رضی اﷲ عنہم اجمعین سے اسی طرح منقول ہے" غرضیکہ صحابۂ کرام کے ساتھ حضرت امام بخاری رحمۃ اﷲ کا بھی موقف واضح ہے کہ نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اسی باب میں مذکورہ حدیث ذکر کرتے ہیں: اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلم کَانَ ےُصَلِّی الجُمُعَۃَ حِےْنَ تَمِےْلُ الشَّمْسُ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ جمعہ پڑھا کرتے تھے جس وقت سورج ڈھلتا یعنی زوال کے بعد جمعہ پڑھتے تھے۔ صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر رحمۃ اﷲ علیہ اس حدیث کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ زوال آفتاب کے بعد ہی نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ (فتح الباری)یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اﷲ کے علاوہ دیگر محدثین مثلاً امام ترمذی ؒنے بھی اپنی کتاب "ترمذی" میں ذکر کی ہے۔ خود حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃاﷲ علیہ نے اپنی کتاب "مسند احمد" میں بھی ذکر کی ہے۔
۲) حدیث کی دوسری مستند کتاب (صحیح مسلم) میں امام مسلم رحمۃاﷲ علیہ نے کتاب الجمعہ کے تحت ایک باب (Chapter)کا نام اس طرح تحریر کیا ہے: "جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد" اور اس باب میں یہ حدیث ذکر فرمائی ہے: حضرت ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہم رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ جب سورج زائل ہوجاتا تھا جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، پھر سایہ تلاش کرتے ہوئے لوٹتے تھے۔ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اﷲ عنہ نے بھی صحیح بخاری میں ذکر فرمائی ہے۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد ان دونوں احادیث میں وضاحت کے ساتھ مذکور ہے کہ آپ ﷺ نمازجمعہ زوال آفتاب کے بعد پڑھا کرتے تھے۔

خلاصۂ کلام: پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن ظہر کی جگہ نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے اور اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز جمعہ ادا نہیں کرسکا تو اسے نماز ظہر ہی ادا کرنی ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص نماز جمعہ وقت پر نہیں پڑھ سکا تو قضا ظہر کی نماز (یعنی چار رکعت) کی کرنی ہوگی۔ اسی طرح جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کا اتفاق ہے کہ نماز جمعہ کا آخری وقت‘ ظہر کے آخری وقت کے مانند ہے، یعنی عصر کا وقت ہونے پر نماز جمعہ کا وقت ختم ہوجائے گا۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ کا آخری وقت‘ نماز ظہر کے آخری وقت کی طرح ہے۔ جب جمعہ کا آخری وقت ظہر کے آخری وقت کی طرح ہے تو نماز جمعہ کا اول وقت بھی ظہر کے اول وقت کی طرح ہونا چاہئے۔

اس پر بھی پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنی چاہئے ، البتہ صرف امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ نے کہا ہے کہ اگر زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ ادا کرلی گئی تو نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ جمہور محدثین وفقہاء وعلماء نے کہا کہ زوال آفتاب سے قبل جمعہ پڑھنے پر نماز جمعہ ادا ہی نہیں ہوگی۔ لہذا احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کی جائے، بلکہ پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے تو اختلاف سے بچنے کے لئے بہتر ہے۔

مذکورہ اسباب کی وجہ سے جمہور فقہاء وعلماء کا قول ہی زیادہ صحیح ہے:
۱) جمہور محدثین وفقہاء وعلماء نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ علیہم اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ کی دوسری روایت کے دلائل مفہوم اور سند کے اعتبار سے زیادہ قوی ہونے کے ساتھ اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں، جبکہ دوسری رائے کے بعض دلائل اگرچہ صحیح احادیث پر مشتمل ہیں لیکن وہ اپنے مفہوم میں واضح نہیں ہیں، جبکہ دیگر روایات وآثار مفہوم میں تو واضح ہیں لیکن ان کی سند میں ضعف ہے۔
۲) جمہور محدثین وفقہاء وعلماء حتی کہ چاروں ائمہ میں سے تینوں ائمہ، حضرت امام احمد بن حنبل کی دوسری روایت، امام بخاری، امام مسلم ، امام ترمذی، امام نووی رحمۃ اﷲ علیہم اور چودہ سو سال سے جید علماء کی یہی رائے ہے کہ نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔
۳) جمہور علماء کا قول اختیار کرنے میں احتیاط بھی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد پڑھنے پر دنیا کے کسی بھی عالم کا کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی پر جمہور فقہاء وعلماء کا فیصلہ ہے کہ نماز جمعہ ادا نہیں ہوگی اور بعد میں نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔
۴) اگرچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ نے زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی گنجائش رکھی ہے مگر انہوں نے یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنا بہتر ہے، چنانچہ سعودی علماء (جو اختلافی مسائل میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں) نے یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ادا کی جائے۔
۵) امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃا ﷲ کی شہادت کے مطابق حضرت عمر، حضرت علی، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت عمرو بن حریث رضی اﷲ عنہم اجمعین کا یہی موقف ہے کہ زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ کا وقت ہوتا ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ اور حضرت امام مسلم ؒ نے اپنی کتابوں (صحیح بخاری وصحیح مسلم) میں باب (Chapter)کا نام رکھ کر ہی اپنا موقف واضح کردیا کہ زوال آفتاب کے بعد ہی نماز جمعہ کا وقت شروع ہوتا ہے۔
۶) نماز جمعہ ظہر کی نماز کا بدل ہے اور آخری وقت کے متعلق حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ کا موقف جمہور علماء کے مطابق ہے، کہ عصر کے وقت پر جمعہ کا وقت ختم ہوجاتا ہے، لہذ نماز جمعہ کا اول وقت بھی نماز ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے ہی ہونا چاہئے۔
۷) جمعہ کے وقت کی ابتدا زوال آفتاب سے قبل ماننے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس وقت یا لمحہ سے نماز جمعہ کے وقت کی ابتدا مانی جائے؟ احادیث میں کوئی وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے حنبلی مکتب فکر کے علماء میں بھی وقت کی ابتدا کے متعلق اختلاف ہے، چنانچہ بعض علماء نے تحریر کیا ہے کہ نماز عید کی طرح سورج کے روشن ہونے سے وقت شروع ہوجاتا ہے۔ غرضیکہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ پڑھنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا ہے۔
۸) زوال آفتاب کے بعد اذان اور نماز جمعہ کی ادائیگی کی صورت میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اور یہ شریعت میں مطلوب ہے۔
۹) خواتین اور معذور حضرات جن کو اپنے گھر نماز ظہر ادا کرنی ہوتی ہے، زوال آفتاب کے بعد پہلی اذان دینے پر انہیں نماز ظہر کی ادائیگی کا وقت معلوم ہوجائے گا۔ لیکن زوال آفتاب سے ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ قبل اذان دینے سے ان حضرات کے لئے نماز کے وقت شروع ہونے کا کوئی اعلان نہیں ہوگا۔
۱۰) زوال آفتاب کے بعد پہلی اذان دینے پر سنن ونوافل پڑھنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ ورنہ زوال آفتاب کے وقت نماز کی ا دائیگی مکروہ تحریمی ہونے کی وجہ سے اس اہم فضیلت سے محروم رہ جاتے ہیں، حالانکہ احادیث میں اس وقت میں نماز پڑھنے کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے۔

حنبلی مکتب فکر کے مشہور عالم دین علامہ ابن قدامہ رحمۃ اﷲ علیہ اپنی مایہ ناز کتاب (المغنی ۱۵۹/۳) میں تحریر کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ زوال آفتاب کے بعد قائم کرنا چاہئے کیونکہ نبی اکرم ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد پڑھتے تھے اور پھر نماز پڑھ کر سایہ تلاش کرتے ہوئے لوٹتے تھے ۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ جمعہ پڑھا کرتے تھے جس وقت سورج ڈھلتا۔ (صحیح بخاری) اس میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے کیونکہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ زوال آفتاب کے بعد یقینا جمعہ کا وقت ہے لیکن زوال آفتاب سے قبل کے متعلق اختلاف ہے۔

اب جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ہونی چاہئے تاکہ نماز جیسی اہم عبادت کی ادائیگی میں کوئی شک وشبہ نہ رہے، تو بعض مساجد میں خطبہ کی اذان کا زوال آفتاب سے قبل دینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ بلکہ اگر پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے تواس میں زیادہ احتیاط ہے نیز دیگر تمام ائمہ کی رائے کا احترام بھی ہے اور کسی طرح کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے بلکہ زوال آفتاب سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل اذان دینے سے اذان کامقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ نے صرف یہی تو کہا ہے کہ اگر نماز جمعہ زوال آفتاب سے قبل ادا کرلی گئی تو اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن انہوں نے یہ تعلیم وترغیب نہیں دی کہ ہم زوال آفتاب سے قبل اذان اوّل کا اہتمام کرلیں۔

حرمین شریفین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں جمعہ کی پہلی اذان عرصۂ دراز سے زوال آفتاب کے بعد ہوتی چلی آرہی تھی، مگر کسی معقول وجہ کے بغیر چند ماہ سے زوال آفتاب سے قبل پہلی اذان دی جانے لگی ہے۔ امام حرم سے درخواست کی جاتی ہے کہ اس پر خصوصی توجہ دیں کہ جمہور فقہاء وعلماء کی رائے کا احترام کرتے ہوئے حرمین شریفین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں جمعہ کی پہلی اذان زوال آفتاب کے بعد ہی دی جائے جیساکہ یہ سلسلہ عرصۂ دراز سے جاری تھا۔ نیز سعودی عرب کی عام مساجد میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوجائے تو بہتر ہے تاکہ ایسے وقت میں اذان دی جائے کہ اس میں دنیا کے کسی عالم کا کوئی اختلاف ہی نہ ہو۔
Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 169575 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.