مزدوروں کی کٹیا(حکایت)
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
انسان اگرزندگی کے عارضی پن کو ذہن نشین کر
لے تو بہت سارے جھگڑے خود بخود م توڑ جاتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ
اکثر مسائل اس زندگی اور دنیا کو مستقل و مستحکم جان لینے کے باعث جنم لیتے
ہیں۔ زندگی ایک مسافر کے سے انداز میں گزاری جائے تو شاید اتنی بوجھل نہ
بنے ۔لیکن ہم زندگی کو ہمیشہ رہنے والی گمان کرنے میں بنیادی غلطی کے مرتکب
ہوتے ہیں۔ اس بنیادی غلطی کی کوکھ سے ، اگلے مرحلے میں، کئی اور برائیوں
اور کوتاہیوں کی نمو ہوتی ہے۔ اس طرح غلط فہمیوں اور کج ادائیوں کی ایک
اونچی عمارت تعمیر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور انسان اسے اور اونچا کرنے کے جتن
کئے جاتا ہے اور خبر اس وقت ہوتی ہے جب خواہشات کی یہ سو منزلہ عمارت اجل
کے ایک ہی وارسے زمیں بوس ہو جاتی ہے ۔
انسان کی تمام تر محنت اور مکاری کے نتیجے میں صرف مٹی کی دیواروں اور نا
پختہ سلیب کی چھت والی کال کوٹھڑی ہی نصیب ہوتی ہے، جس کے اندھیرے کا تصور
انسان کے ذہن کو روشن کرنے کے لئے کافی ہے ۔
اگر انسان اس اندھیرے میں کبھی کبھی جھانکنے کی سعی کر لیا کرے تواسے بہت
مفید روشنی حاصل ہو سکتی ہے۔ ورنہ جنازے پڑھنے اور اپنے پیاروں کو اپنے
ہاتھوں سے سپردِ خاک کرنے کے باوجود ہم یہی سمجھے جاتے ہیں کہ ساری دنیا مر
جائے ،ہم نے تو کبھی نہیں مرنا ۔ موت تو بس دوسروں کے لئے ہے ،ہمارے لئے تو
ہمیشہ کی زندگی ہے!
ایک بہت بڑے پراجیکٹ پر کام کا آغاز ہو ا۔زمیں کا ایک وسیع قطعہ اس کی
چاردیواری میں محصور کر لیا گیا۔ شہر سے باہر وسیع و عریض جگہ پر ہر طرف
گاڑیاں، مشینیں، بجری، سیمنٹ، وغیرہ کی تا حدِ نگاہ نمائش لگ گئی۔ جو ادھر
سے گزرتا ، انگشت بدنداں رہ جاتا کہ نہ جانے کیا بننا ہے۔
آہستہ آہستہ اس سے متعلق لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا گیا ۔ اور وہ اس
منصوبے کے متعلق جان گئے کہ اس علاقے میں ایک سرکاری عمارت بننے لگی ہے ۔
کسی نے سنا کہ یہ کالج کی عمارت بن رہی ہے، کسی کی معلومات یہ کہہ رہی تھیں
کہ ہسپتال بننے لگا ہے، کسی نے اسے ایک اسٹیڈیئم کا نام دیا ۔ کچھ وقت کے
بعد لوگوں کی آراء میں یکسانیت آ گئی اور وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہو
گئے کہ یہاں ایک اسٹیڈیئم ہی بننے لگا ہے کیوں کہ ہسپتال اور کالج تو پہلے
ہی علاقے میں موجود تھے۔
اصل میں بات یہ اہم نہیں تھی کہ کیا بننے لگا ہے ، بلکہ اہمیت اس بات کی
تھی کہ کون بنانے لگا ہے اور کیسے بنا نے لگا ہے۔ اس بات پر غور کی کیا
ضرورت رہ جاتی ہے کہ کون بنانے لگا ہے جب ہم یہ جان لیتے ہیں کہ حکومت
بنانے لگی ہے۔ جب یہ بات طے ہو گئی کہ گورنمنٹ بنانے لگی ہے تو اس میں
دلچسپی ختم ہو جاتی ہے کیوں کہ گورنمنٹ اکثر ایسی عمارتیں بناتی رہتی ہے۔
یہ کوئی اچنبے کی بات تو ہے نہیں کہ گورنمنٹ کوئی عمارت بنائے۔ اب سوال یہ
کہ کون بنانے لگا ہے؟ تو طاہر ہے مزدور ہی بنائیں گے۔ ہر عمارت مزدور ہی تو
بناتے ہین۔ مزدوروں کی انتہا صاف ستھرا کام کرنے والا پڑھا لکھا
انجینیئراور ابتدا گارا اٹھانے والا ان پڑھ دیہاڑی دار ہے ۔ کام کے لحاظ سے
تو سارے مزدورہی ہیں اگرچہ کام کے انداز مختلف ہیں: کسی نے کاغذ اور پنسل
سے، کسی نے کمپیوٹر سے اور کسی نے ہاتھ سے ۔ کسی کے کپڑوں اور جسم پر کام
کا ایک بھی نشان نہیں پڑنا جبکہ کسی کے کپڑے ہی کیا پورا جسم اسکے کام کے
آثار اور اثرات سے متاثر ہوتا ہے۔
لیکن اس میں بھی کیا دلچسپی کہ مزدور کون ہیں۔ مزدور تو بس مزدور ہی ہوتے
ہیں اکثر ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔ خاص طور پر ادنیٰ مزدور توکسی طرح بھی
قابلِ غور یا قابلِ امتیاز نہیں سمجھے جاتے۔
مزدورں کی ایک بات بڑی قابلِ غور تھی کہ وہ عمارت تو بہت عالی شان بنا رہے
تھے لیکن خود انتہائی گھٹیا سی کٹیا جو انہوں نے اپنے رہنے کے لئے بنائی
تھی میں رہ رہے تھے۔ان کا طرزِ عمل سوچنے والوں کی سوچوں کو انگیخت کر ر
ہاتھا :کیسا تضاد ہے کہ اتنے اچھے کمرے اور دالان بنانے والے ،خو د کیسے
گھٹیا سے کمرے میں رہ رہے تھے ۔ اسی طرح کا احساس پینٹ کرنے والوں کے کپڑوں
اور جسموں کو دیکھ کر بھی ہوتا ہے کہ وہ کتنا نیٹ اینڈ کلین ماحو ل پیدا
کرتے ہیں، دیواروں ، چھتوں وغیرہ کو کتنا آراستہ کرتے ہیں اور خود کتنے بد
رنگ اور بے ڈھنگ بنے رہتے ہیں۔
مزدوروں کا اس مقام پر قیام چند مہینوں کا تھا پھر انہوں نے عمارت کو
فائینل ٹچ دے کر اپنا کام مکمل کر کے بوریا بستر سمیت وہاں سے کوچ کر جانا
تھا۔ ان کی اس سادگی کے پیچھے چھپی اتنی بڑی حقیقت کو سمجھنے میں انسان کی
عقل کے بہک جانے میں دیر نہیں لگتی۔یہ سوچنا بھی کبھی کبھی مشکل میں ڈال
دیتا ہے کہ اتنے گھٹیا کمروں میں رہنے والے اتنی اعلیٰ عمارت کے معمار بھی
بن سکتے ہیں۔
مزدوروں کی اس خراب وخستہ کٹیا کو کسی نے غور سے دیکھا ہی نہ۔ انہوں نے
باقی ضرورتوں کو بھی اتنی زیادہ اہمیت نہ دی بلکہ ضرورتوں کو بس گزارے کی
حد تک پورا کیا،عیاشی نہ بنایا۔کیوں کہ انہوں نے وہاں زیادہ مدت کے مکین
بننا ہی نہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا قیام چند روزہ ہے۔ پھر انہوں نے کسی
اور پراجیکٹ پر کام کرنا ہو تھا ۔ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی اور
بھولتی نہ تھی کہ وہ پہلے سے یہاں نہیں تھے بلکہ کہیں سے آئے تھے اور پھر
کہیں اور جانا تھا۔اس لئے ان کا شاندار مکان بنانے کا کوئی منصوبہ نہ تھا۔
مزدوروں نے وہاں مقررہ مدت تک کام کیا ، عمارت مکمل ہو گئی اور پھر وہ باقی
سارے سازو سامان کے ساتھ وہاں سے کوچ کرنے کا سوچنے لگے۔ ایک دن کسی سوچنے
والے نے دیکھا کہ وہ شاندار عمارت اپنے تمام کروفر سے ساتھ جلوہ دکھا رہی
تھی اور اس عمارت کو تعمیر کرنے والے مزدور، جو عمارت بنانے کے لئے مزدوری
پر رکھے گئے تھے، جا چکے تھے۔ ان کی کٹیا بھی ایسی شاندار عمارت کے ساتھ
کسی طرح میچ نہیں کرتی تھی بلکہ ان مزدوروں کی یاد دلاتی تھی جنہیں کوئی
یاد نہیں کرنا چاہتا ۔ اس لئے اسے گرانے کے احکام بھی جاری ہو گئے۔
اب دنوں بعد وہاں مزدوروں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا اور مرکزی گیٹ کے
ایک طرف سنگِ مرمر کی ایک پر وقار سلیب نصب کی جا چکی تھی جس پر مقامی ایم
ان اے، وزیرِ اعلی ، اور کچھ اور لوگوں کے نا م لکھے تھے۔ کن کی خصوسی کاوش
سے وہ عمارت معرض وجود میں آئی تھی۔
دراصل یہ دنیا اس مالک الملک کی جاگیر ہے۔ اس کے حکم سے کارخانہء قدرت اپنے
اندر تبدیلیاں لاتا ہے۔ جن میں سے بعض کے ظاہری ذمہ دار انسان ہوتے ہیں۔
انسان دراصل ایک مزدور ہے جس نے خد ائی نظام کی عمارت سازی میں اپنے حصے کا
کام کرناہے اور پھر یہاں نہیں رہنا ہے۔ بلکہ اسے کسی بھی وقت کام سے جواب
مل سکتا ہے ٰیا پھر اسے واپس بلایا جا سکتا ہے۔ اس کے یہاں رہنے کی کوئی
ضمانت نہیں لیکن یہاں سے چلے جانے کی سو فی صد گارنٹی ہے۔ اس لئے انسان اس
زندگی کو مزدوروں کے حیثیت میں بسر کرے اور خواہشات کا محل تعمیر نہ کرے،
اور آخرت کی ہمیشہ رہنے والی عمارت کی تعمیر میں اپنا وقت ، توانائی اور
دولت صرف کرے۔ یہ دنیا تو مزدوروں کی کٹیا ہے جسے مقصد پورا ہونے پر گرا
دیا جانا ہے۔ جبکہ وہ دنیا وہ شاندار عمارت ہے جس میں انسان نے ہمیشہ کی
زندگی بسر کرنی ہے۔ انسان کو ان مزدوروں سے ہی سبق سیکھنا چاہیئے کہ عارضی
چیز کو پائدار تعمیر نہیں کیا جاتا اور پائدار چیز کوعارضی نہیں ۔ جس میں
مستقل رہنا ہو اس عمارت کی تعمیر پر زیادہ توجہ صر ف ہونے چاہیئے اور جس
جگہ بس چند روزہ قیام ہو وہاں جیسے بھی ہو گزارہ کر لینا بہتر ہے۔ دوسرا یہ
کہ یہ دنیا خدا کی ہے یہاں اگر کسی کی تختی مستقل لگنی ہے تو اسی ذاتِ بے
ہمتا کی لگنی ہے۔ اور جس نے یہاں مستقل رہنا نہیں اسے یہاں اپنے جھنڈے
گاڑھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے۔خدا کی ذات فنا سے آزاد و مبرا ہے۔ جبکہ
انسان سراپا فنا ہے۔فانی یا سیلانی کومکان جچتا نہیں ۔ جبکہ آج کل یہ حالت
ہو چکی ہے کہ اتنی اچھی ، پائدار اور عالی شان عمارت تعمیر ہو رہی ہے کہ
جیسے یہ اعلان ہو گیا ہو کہ قیامت نہیں آنی، اب انسان نے دنیا ہی مین رہنا
ہے، آخرت میں اسے کچھ ملنے کا نہیں۔ آج کی شاندار عمارت کو دیکھ کر کیسے
کہا کا سکتا ہے کہ ہم لوگ عقیدہ ء آخرت پر یقین رکھنے والی قوم ہیں۔ ہماری
تمام تر خواہشات دنیا وی اورذاتی ہو گئی ہیں۔ ہم اپنی اصل سے کافی دور جا
چکے ہیں۔ ہمیں شدت سے ضروت ہے کہ وقت میں دھارے میں بہہ جانے کی بجائے اپنے
اسلاف اور اپنی دینی نظریات اور عقائد کی دھرائی کریں تا کہ ہمارے اندر سے
دنیا کی بڑھتی ہوئی رغبت کا سیلاب کچھ تھم جائے۔ |
|