صِدّیق ؓکا کردار

’’حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جنگِ ذاتِ السلاسل کا امیرِ لشکر بنا کر روانہ فرمایا جب میں واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : (یارسول اﷲ!) عورتوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عائشہ کے ساتھ۔ میں نے پھر عرض کیا : مردوں میں سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اُس کے والد (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ۔ میں نے عرض کیا : پھر اُن کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عمر بن خطاب کے ساتھ۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے بعد چند دوسرے حضرات کے نام لئے‘‘۔(بخاری، الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم، باب : من فضائل أبی بکر الصديق، 3/1339، الرقم : 3462)

صِدّیق اور عتیق آپ کے القاب ہیں جو آپ کو دربار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عطا ہوئے۔ آپ کو دو موقعوں پر صدیق کا خطاب عطا ہوا۔ اول جب آپ نے نبوت کی بلا جھجک تصدیق کی اور دوسری بار جب آپ نے واقعہ ٔمعراج کی بلا تأمل تصدیق کی ، اس روز سے آپ کو صدیق اکبرؓ کہا جانے لگا۔

واقعہ فیل کے تین برس بعد آپ کی مکہ میں ولادت ہوئی۔آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر سرکار دو عالم ﷺ سے مل جاتا ہے۔ آپ کا نام عبداللہ تھا ، آپ کی کنیت ابوبکر تھی، آپ نسب میں قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد کا نام عثمان بن ابی قحافہ اور والدہ کا نام ام الخیر سلمٰی تھا، آپ کا خاندانی پیشہ تجارت اور کاروبار تھا، مکہ میں آپ کے خاندان کو نہایت معزز مانا جاتا تھا۔ کتب سیرت اور اسلامی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعثت سے قبل ہی آپ کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم تھے، ایک دوسرے کے پاس آمد و رفت ، نشست و برخاست، ہر اہم معاملات پر صلاح و مشورہ روز کا معمول تھا، مزاج میں یکسانیت کے باعث باہمی محبت کمال کو پہنچی ہوئی تھی، نبوت کے اعلان کے بعد آپ نے بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا، ایمان لانے کے بعد آپ نے اپنے مال و دولت کو خرچ کرکے مؤذنِ رسول ﷺحضرت ِبلال سمیت بے شمار ایسے غلاموں کو آزاد کیا، جن کو ان کے ظالم آقاؤں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کی پاداش میں سخت ظلم وستم کا نشانہ بنایا جارہا تھا، آپ ہی کی دعوت پرعثمان بن عفان ؓ،زبیر بن العوامؓ حضرت طلحہؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ جیسے اکابر صحابہ ایمان لائے ،جن کو بعد میں دربار رسالت سے عشرہ مبشرہ کی نوید عطا ہوئی، سادگی ، تواضع، نرم خوئی،عجزو انکسار، خدمت خلق، عدل و مساوات ، بردباری، رقیق القلبی صِدّیقِ اکبرؓکی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،زہدو ورع کا مجسم پیکر تھے، نمود و نمائش سے دوربھاگتے تھے،فکر ونظر میں پختگی ،گہرائی اور رائے میں ہمیشہ حق بجانب تھے۔ابوبکر ؓنے کبھی کوئی ایسی بات زبان سے نہیں نکالی، نہ کبھی کوئی ایسا فعل ان سے سرزد ہوا جس سے حضور ﷺکو تکلیف پہنچی ہو،صلح حدیبیہ کے موقع پر وہ واحد شخص تھے، جنہوں نے اس صلح اور اس کے مندجات پرکامل اطمینان کا اظہار کیا ۔

سیر تِ صدیقِ اکبرؓ کا ایک باب صُحبت ورفاقت نبوی ﷺ میں وفاداری بشرط استواری کا ہے ، دوسرا باب اپنے دورِ خلافت کے شروع میں ارتداد ی فتنوں کے کمال ِمہارت ،تمامِ حکمت، استقامت اورپامردی کے ساتھ مقاومت ومقابلےکاہے، ان دونوں ابواب میں ان کا کتنا عظیم مقام ہے ، یہ حضرت عمر جیسے جلیل القدر اور عبقری خلیفہ سے پوچھتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر اگر غار ِثور میں تاج دار ختم نبوت ﷺکے ساتھ اپنی گذاری ہوئی وہ ایک شب مجھے دیدیں، تو میں اپنی ساری زندگی کی عبادتوں ریاضتوں ، جہاد ، قیادت اور خلافت کا ثواب انہیں دیدوں گا ۔نبی کریم ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد نبوت سے خلافت کی طرف انتقالِ قیادت کے اس حساس مرحلے میں امت کوجوڑ کررکھنا او رپیغام نبوت کی حرف بحرف پاسداری کر نا ان ہی کا طرۂ امتیاز ہے ، یہ وہ شخصیت وکردار ہے کہ ان کے بعد جب بھی ارتدادی فتنے اٹھے اور امت کا شیرازہ بکھرنے لگا، تو ہر خاص وعام کی زبانوں پے یہ جملہ رہتاتھا’’ رِدَّۃ ولا أبابکر لھا‘‘ بھلاابوبکر کے بعد اب کون ہے جواس ارتداد کے طوفان کا رخ موڑدے ۔آج یومِ صدیق ِ اکبر کے موقع پرسیرت صدیق ؓ کو سمجھنے کے لئے دی میسج کے فارمولاساز ،عظیم مصری ادیب ونقادمصطفی عقاد کی شاہ کار اور لازوال تصنیف ’’ عبقریۃ الصدیق ‘‘ کا مطالعہ مسلم وغیر مسلم نوجوان ، عالم ، ادیب ، دانشور ، تجزیہ نگار ، مؤرخ ، اور سیاستداں کے لئے فکرونظر کی ایک سوغات ہے ، ہمارا ملک اور پورا عالم ِ اسلام آج جن مشکلات میں گھرے ہیں، ان میں ہمیں ماضی کی تاریخ کے ہم مثل واقعات وحوادث میں قوموں کو جادۂ حق دکھانے والے رہنماؤں کے کردار وں سے استفادہ کرناہوگا،بطورِ خاص حضرتِ صِدّیقِ اکبرؓکے اس کردار کی ،جس میں وہ طوفانوں سے ٹکراجاتے ہیں مگر ساحلوں کی منت سماجت نہیں کرتے،نیزاﷲ تعالی سے اپنے حبیبﷺ کے صدقے دعائیں مانگنے کا اہتمام بھی ضروری ہے۔
اے خاصۂ خاصان ِرسل وقت دعاء ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑاہے
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816328 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More