والدین اولاد کے سروں کا تاج (حصہ دوئم)

میں آپ کو ایک والد کا قصہ سناتا ہوں کہ ایک بیٹے نے اپنے غریب و مفلس باپ سے پڑوسی کے بیٹے کی سائیکل دیکھ کر سوال کیا کہ مجھ کو بھی سائیکل لے کر دیں پہلے دن باپ نے بڑے نرم لہجے میں اپنے بیٹے کو سمجھایا کہ میرے پاس ابھی پیسے نہیں مگر میں تم کو پھر لے کر دے دونگا ۔۔۔مگر دوسرے دن بیٹے نے پھر والد سے وہی فرمائش دوبارہ کر دی تو دوسرے دن باپ نے لہجے میں تھوڑی تبدیلی کے ساتھ جواب دیا کہ کل تو بولا تھا کہ پیسے نہیں ہیں پھر لے کر دے دونگا۔ مگر بچہ تو پھر بچہ ہے تیسرے دن پھر باپ سے وہی سوال کیا تو آج باپ چونکہ ایک غریب اور مجبور تھا،اس کے وسائل اتنے تھے کہ بمشکل وہ اپنے گھر کے چولہے کو چلا رہا تھا اس کو غصہ آگیا اور بیٹے کو غصے کے انداز میں کرب لہجہ کے اندر جواب دیا کہ تم کو سمجھ نہیں آتی کہ میں تمہیں دو دن سے کیا کہہ رہا ہوں پھر روز تمہارا وہی سوال ہوتا ہے۔۔۔بیٹے نے بڑے معصوم لہجے میں باپ کی بات کا جواب دیا کہ ابا جان مجھ کو معلو م ہے کہ آپ کے پاس اتنے وسائل نہیں مگر میں کیا کروں میرا بھی تو ایک ہی سہارا ہے ، میں اگر مانگوں گا تو آپ سے ہی مانگو ں گا نہ میرا تو آپ کے سوا کوئی اور نہیں۔۔۔ یہ بات سننی تھی کہ باپ کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔۔۔باپ تو پھر باپ ہوتا ہے۔۔۔ بیٹے کو سینے سے لگایا اور ٹھنڈی آہ بھر کر بولا کہ میں لا کر دونگا تم کوسائیکل ۔۔۔مگر اس باپ سے اگر کوئی پوچھے کہ وہ کہاں سے اور کیسے اپنے بیٹے کی خواہش پوری کرے گا۔۔۔؟؟؟تو یہ یقینا مشکل امر ہو گا کیونکہ ایک باپ کے ذہن و دماغ میں اس وقت سو قسم کی سوچیں پیدا ہو رہی ہوتی ہیں کہ میں اپنے بیٹے کی اس خواہش کو کیونکر اور کس طرح سے پورا کرو نگا۔ کبھی یہ سوچا ہے کہ ایک بیٹے کی تعلیم پر ماں نے اپنا زیور بھیچ کر لگایا ہے۔۔۔بیٹی کی شادی ماں باپ کے سر سے چھت چلے جانے کے بعد ہی ممکن ہی ہو سکی۔ آج اولاد اپنے والدین کی تحریم اس وقت تک کرنا تو اپنا فرض سمجھتے ہیں جب تک وہ اپنی اولاد کی ذمہ داریاں بذات خودنبھارہے ہوتے ہیں مگر والدین جیسے ہی بڑھاپے کی دہلیز پر پاؤں رکھتے ہیں تو ان کی کیفیت ایسی ہو جاتی ہے جیسے بچے کی حالت تھی کہ وہ اپنے والدین کے سوا بالکل بے جان و بے یار و مددگا ر تھا مگر ایسی صورت میں بھی والدین اپنے بچے کا ہاتھ پکڑ کر چلانا سیکھاتے ہیں مگر جب والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں یا بد قسمتی سے اگر معذور ہو جاتے ہیں تو یہ ہی اولاد ان والدین کے پردے کی دعائیں مانگتے پھرتے ہیں، کیا کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ صحت مند اولاد تو دور کی بات ایک معذور بچے کے ساتھ والدین کا لگاؤ کیسا ہوتا ہے، اس کے ساتھ وہ کیسے چپکے ہوتے ہیں ۔۔۔؟ کیا کبھی والدین نے بھی اپنے اس معذور بچے کے پردے کی بات کی ہے۔۔۔؟ ارے بات کرنا تو دور کبھی اسی معذور بچے کی ماں کے سامنے ایسے الفاظ کا استعمال بھی نہ کرنا۔۔۔ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، سب بچے اس کی نظر میں ایک جیسے ہوتے ہیں اور اس کی شفیق نظریں سب بچوں پر یکساں ہوتی ہیں، اور وہ اپنی نظروں کے ساتھ بچوں کا خیال رکھتی ہے۔۔۔کبھی آ پ نے دیکھا ہے کہ ماں اپنے حصے میں آیا کھانا بھی اپنی کسی کمزور جسم والی اولاد کے آگے رکھ رہی ہوتی ہے یا پھر اس کو حیلے بہانے کر کے کھانا کھلا رہی ہوتی ہے،والدین بچے کی تو تلی زبان سے نکلے الفاظ کو دلچسپیاں لے لے کر سنتے ہیں اور اس کے الفاظ و تلفظ کی درستگی کرتے ہیں ، ایک کمرے کے گھر میں چار چار بچوں کو ماں باپ کتنی آسانی سے پال لیتے ہیں مگر چار گھروں کے مکان میں ایک والدین کی دیکھ بھال اولاد پر بھاری ہوتی ہے، والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی اولاد کے تن پر لگاتے ہیں اور افسوس۔۔۔! کہ اولاد بڑی ہوتی ہے تو بولتی ہیکہ ہمارے والدین نے ہمارے لیے کیا کیا ہے۔۔۔؟ خود خالی پیٹ رہ کر اولاد کی تعلیم پوری کرواتے ہیں اور اولاد کے پاس جب چار جماعتیں آ جاتی ہیں تو وہ سمجھتی ہے کہ ہمارے پاس سارے علوم کا خزانہ آگیا ہے ہمارے والدین کو تو کسی بات کا علم ہی نہیں ۔۔۔ شیخ سعدی کی ایک حکایت بیان کرتا جاؤں کہ آپ فرماتے ہیں کہ" میں دیارِ بکر میں ایک بوڑھے کے ہاں مہمان ٹھہرا، اس آدمی کے پاس بے حد و بے شمار دولت تھی۔ اس کا صرف ایک اکلوتا بیٹا تھا ۔ میرے قیام کے دوران ایک رات اس بوڑھے مرد نے مجھے بتایا کہ میرے ہاں یہ ایک بیٹا ہی بڑی مدت کے بعد پیدا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی اولاد نہیں۔ فلاں جنگل میں ایک درخت ہے ۔جسے بڑا متبرک مانا جاتا ہے، لوگ وہاں جاتے ہیں اور طرح طرح کی منتیں مانتے ہیں۔ میں بھی کئی بات اور کئی کئی راتیں وہاں جا کر عبادت کرتا رہا اور اﷲ تعالیٰ سے صاحب ِ اولاد ہونے کی آرزو کی۔ اﷲ تعالیٰ نے میری دعا سن لی اور یہ بیٹا پیدا ہوا، وہاں قیام کے دوران لوگوں میں اُٹھتے بیٹھتے میں نے سنا کہ وہ لڑکا اپنے دوستوں سے چپکے سے کہہ رہا تھا ، کیا ہی اچھا ہوتا اگر مجھے اس درخت کا علم ہو جائے کہ وہ کہاں ہے تو میں وہاں ضرور جا کر اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ میرا بوڑھا باپ مر جائے۔۔۔" یہ حقیقت ہے کہ بوڑھے والدین خوشیاں مناتے ہیں کہ ہمارا بیٹا بڑا عقل والا ہے، اور لڑکا طعنہ زنی کرتا ہے کہ میرے باپ کی عقل ٹھکانے نہیں ہے۔ سچ ہے کہ ناخلف بچے برسوں والدین کی موت پر ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کو نہیں جاتے، اے ناخلف تو نے آخر باپ کے حق میں کیا بھلائی بھیجی ۔ اس سے تو بہتر ہے کہ کوئی اور کی تمنا نہ کرے، کیوں کہ والدین جو ساری عمر اپنے بچوں کے عیبوں پر پردے ڈالتے ہیں اور ناخلف اولاد جب اپنی جوانی کی دہلیز پر پہنچتی ہے تو اپنے والدین کو بد مغز فرد کہنے لگتے ہیں۔ یہ ہی نہیں اکثر ناخلف اولاد ایسی بھی ہوتی ہے کہ جب والدین ان کو رشتہ ِ ازواج میں باندھ رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے خود مختار ہونے پر دلائل دے کر بڑے شوق و غرور کے ساتھ والدین کو یہ بات جب کہتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں گئے تو ذرہ سوچیں اس وقت ان والدین کے دل پر کیا گزرتی ہو گئی۔۔۔ یہ بات جانیں کہ ماں کے قدموں تلے ہی جنت ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت کا سن کر باپ کو نظر انداز کر دیا جائے بلکہ اگر جنت ماں کے قدموں تلے ہے تو اس جنت کا دروازہ باپ ہے۔اگر باپ آپ سے راضی ہو گا تو تب ہی جنت میں داخل ہو گئے۔۔۔ زندگی میں سب ہی کچھ کرتے رہنا مگر ایک بات کا خیال رکھنا کہ والدین کے دل سے کبھی اپنے لیے بددُعا کے جملے نہ نکلنے دینا کیونکہ والدین کے دل سے نکلی ہو ئی دعا یا بدعا لبوں سے نکلتے ہی قبولیت کی مناظر کو چھو لیتی ہے۔
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182539 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More