جسٹس پاشا کا تماشا

جسٹس بی․کمال پاشاکیرالا ہائی کورٹ میں جج ہیں اور ملازمت سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔اس وقت انہوں نے کچھ ایسے مدّے اُٹھائے ہیں جن کی بدولت وہ ’سلمان رشدی‘،’ تسلیمہ نسرین‘،’مختار عباس نقوی‘، ’سید شہاب الدین‘،’نجمہ ہیپت اﷲ‘،وغیر ہ کی لائن میں شامل ہو سکتے ہیں۔جاوید اختر اور بیگم شبانہ اعظمی نے بھی ابھی ابھی اپنی آمد درج کرائی ہے ۔ان میں جاوید صاحب نے ’بھارت ماتا کی جے‘کی وکالت کی اور بیگم نے یہ مشورہ دیا کہ ’اگر بھارت ماتا نہیں کہنا چاہتے ہو تو بھارت امّی کی جے بولو‘۔ بہر حال ان دونوں نے بھی اپنا مستقبل روشن کر لیا ہے۔

’گھریلو تشدد میں مستورات کی حفاظت‘ کے سلسلے میں ہونے والے سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے جسٹس پاشا نے کہا کہ ’مستورات کو آگے آنا چاہئے اور اپنے حقوق کے لیے معاشرہ میں جدو جہد کرنی چاہئے‘۔’ قرآن کریم میں مہر کی ادائگی کے لیے حکم ہے ضرور لیکن ہمارے ملک میں یہ ادائگی ہوتی نہیں ہے کیونکہ عورت کمزور ہوتی ہے‘۔ ’جہیز ایک لعنت ہے، اس کا خاتمہ کرنے کے لیے عوام کو بیدارکرنے کی ضرورت ہے‘۔ عورت کو شادیوں میں جہیز کی مانگ کی مخالفت میں آگے آنا چاہئے۔انھوں نے مذہبی سربراہوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’حساس معاملات پر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے خودکا تجزیہ کر لینا چاہئے کہ وہ فیصلہ کرنے کے اہل ہیں یانہیں؟جب لڑکی کی شادی کسی سے ہوتی ہے تو اس کی حفاظت اور تحفظ کی پوری ذمہ داری ہونی چاہئے۔ان کے مطابق مسلم پرسنل لا میں مردوں کے مقابلہ میں خواتین کو کمزور رکھا گیا ان کو مردوں کے برابر حقوق نہیں دیے گئے ہیں اور اسی وجہ سے خواتین کو انصاف نہیں مل پارہا ہے، جائداد اور دیگر معاملات میں ان کے ساتھ حق تلفی کی جاتی ہے۔انھوں نے سپریم کورٹ پر بھی نشانہ سادھا اور کہا وہ بھی مسلم پرسنل لا میں دخل دینے سے ہچک رہی ہے۔

دراصل اسلام کی حقانیت ہمہ گیریت اور افاقیت کی وجہ سے روز اول سے اس کی مخالفت اور اس سے حسد کی جا رہی ہے اور اسے بدنام کرنے کے لیے بھر پور کوشش میں لوگ لگے رہتے ہیں۔ یہ مخالفت آج سے نہیں بلکہ روزِ اوّل سے چل رہی ہے اور مخالفت کا ہی نتیجہ ہے کہ تقریباً ساٹھ مسلم ممالک کے علاوہ آج دنیا کا کوئی خطّہ ایسا نہیں ہے جہاں مسلمان نہ ہوں۔اس سے اسلام کی مقبولیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اسلام نے جو ضابطہ حیات قرآن کی شکل میں دیا ہے وہ اُس رب کا کلام ہے جو سارے جہان کا پالنے وا لا ہے۔’’اسلام نے عورتوں کو ان کے ہر روپ میں بے اختیار وقار، مرتبہ اور مقام بخشا ہے‘‘۔عورت اگر بیٹی ہے تو باپ کی حفاظت میں ہے،اگر بہن ہے تو بھائی محافظ ہے،اگر بیوی ہے تو شوہر نگہبان ہے، اگر ماں ہے تو اولاد کی جان ہے۔ اسلام نے عورت کو جو تحفظ دیا ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں ہے۔لیکن آزادی کے نام پرعورت کو اس کے گھر سے باہر نکالا گیا،بازار اور دفتروں کی رونق بنایا گیا اس سے فیملی سسٹم متاثر ہوا، بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر اثر پڑا اور یہ خرابی نسل در نسل تک چلی جا رہی ہے۔

عورت فیملی سسٹم کو توڑ کر بہت آگے جا چکی ہے، اُسے اُس مقام پر واپس آنا ہے جو مقام مذہب نے یا دھرم نے دے رکھاہے۔ ہر سیتا کو اُس ریکھا کے اندر واپس آنا پڑیگاجو شری رام جی کے بھائی ’لکشمن جی ‘ نے سیتا جی کی حفاظت کے لیے کھینچی تھی جس کو ’لکشمن ریکھا‘ کہا جاتا ہے، ورنہ اُس ریکھا کے باہرہر ’سیتا‘ کو صرف ’راون‘ ملے گا۔

اسلام نے عورتوں کو حفاظت کے طریقے بتلائے ہیں اور حقوق بھی مردوں کے برابر دیے ہیں۔ اگر مرد کو طلاق دینے کا حق ہے تو عورت کو طلاق لینے کابھی حق ہے۔ عورت کو موروثی جائیداد میں حقوق ہیں، اس کو پو را حق ہے کہ اس جائیدادسے اپنی الگ تجارت کر سکتی ہے۔ اسلام نے عورت کواپنی پسند سے کسی مسلم سے شادی کرنے کا حق بھی دیا ہے۔اور اگر اس کے والدین اس کی شادی طے کرتے ہیں تو اس کی مرضی لینا بھی ضروری ہے ۔ اسلام میں جہیز اُسے کہا گیا ہے جو تحائف شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے۔اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی ہے:
حضرت علیؓ نے اﷲ کے نبیؐ سے ان ؐ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے شادی کر و لیکن مہر کیا دوگے۔حضرت علیؓ نے فرمایا مہر دینے کے لیے تو میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا ’’میں نے تم کو ایک زرّہ دیا تھا، اسے بیچ کر مہر کا انتظام کر لو‘‘۔ حضرت علیؓ نے ایسا ہی کیا، اس رقم سے مہر ادا کیا اور حضرت فاطمہؓ کی ضروریات کا کچھ سامان بھی خریدا۔ اس طرح سے پیغمبر اسلام کی پیاری بیٹی کی شادی ہوئی۔

اسلام میں کسی بیوہ کی دوبارہ شادی کے احکام ہیں اور اس کی ذمہ داری مسلم معاشرہ کو دی گئی ہے۔اگر بیوہ دوسری شادی نہیں کرتی ہیں تو اس کا حق شوہر کی جائیدا میں بھی ہے اور اپنے باپ کی جائیداد میں بھی ہے۔ اسلام نے نسل پرستی کو معاشرے میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے مخلوت شادی کی حوصلہ افضائی کی ہے۔ اسلام نے ماں کو بہت عزت دی ہے،اولاد کی پرورش میں اس کی جاں فشانی، قربانی کو دیکھ کر اﷲ رب العزت نے اس کے قدموں میں جنت رکھ دی اسی لے ماں کے برابر کسی کو نہیں کھڑا کیا گیا اور ما ں کا درجہ کسی کو نہیں دیا گیا لیکن اور لوگوں نے ’ماں‘ جیسی مقدس شخصیت کے برابرگائے کو چیچک جیسی چھوت کی بیماری کواور اُن ندیوں کو جس میں لوگ اپنے مُردے ، مُردوں کی استھیاں،فیکٹریوں کی گندگی،شہروں کی گندگی ڈالتے ہیں اور اُسے’ماتا‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔لیکن اسلام نے ماں کے تقدس میں کسی کو ساجھے دار نہیں بنایا۔

جسٹس پاشا کی سب سے مزیدار بات عورتوں کے چار شوہررکھنے والی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر اسلام میں مرد چار بیویاں رکھ سکتا ہے توعورت چار شوہر کیوں نہیں رکھ سکتیں؟تاریخ تو نہیں ہے لیکن کہانی ضرور ہے کہ ’مہابھارت کے کورو سو بھائی تھے اور پانڈو پانچ بھائی تھے‘۔ان پانچ بھائیوں میں صرف ایک پتنی تھی جنکا نام دروپدی تھا۔کن حالات کے تحت ایسا تھا؟کیا عورتیں کم تھیں؟ اس سلسلہ میں کچھ نہیں عرض کیا جا سکتا۔یہ بات سچی ہے کہ تاریخ اپنے کو دوہراتی ضرور ہے اس لیے پانچ شوہروں والا زمانہ بہت دو ر نہیں ہے جس کے آثار نمایا ہیں۔مادر رحم میں ہی لڑکیوں کا قتل کیا جا رہا ہے، صرف لڑکوں کو پیدا ہونے کا ویزا دیا جا رہا ہے۔اس طرح سے اس وقت جو جنسی تناسب ہے وہ 1000مردوں پر صرف930عورتیں ہی درج کی گئی ہیں۔ہو سکتا ہے یہ فرق بڑھتا ہی رہے ایسا بھی ممکن ہے کہ’قہط نسواں‘ پڑ جائے اور پھر پانچ شوہروں والا زمانہ دوبارہ آجائے۔ویسے بھارت میں اُن قبائل میں یہ رسم و رواج رواں ہے جو اپنے کو پانڈو کی نسل کا بتلاتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ عورتوں کی گھٹتی ہوی در کو دیکھ کر جسٹس پاشا نے بھی اندازہ لگایا ہو!اور جب ان کی پیشن گوئی صحیح ثابت ہو جائے گی، اُس وقت جسٹس کمال پاشا یاد کیے جائیں گے اور کہا جائگا ؂
’’حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا‘‘
Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 74360 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.