سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ رحم فرمائے’’ گستاخانہ خاکوں‘‘ کا معاملہ ایک بار پھر اہل ایمان
کو تڑپا رہا ہے. آئیے اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.
لکھنے میں تأخیر کیوں ہوئی
سب سے پہلے بی بی سی پر خبر دیکھی کہ. ’’فیس بک‘‘ کی ویب سائٹ پر گستاخانہ
خاکوں کا مقابلہ چل رہا ہے. دل پر سخت چوٹ لگی اور پوری خبر پڑھنے کی ہمت
ہی نہ ہوئی. پھر پتہ چلا کہ لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان میں’’فیس بک‘‘ پر
پابندی لگا دی ہے. یہ خبر دل کو اچھی لگی. اور جب’’یو ٹیوب‘‘ پر پابندی لگی
تو دل بہت خوش ہوا. مگر زیادہ بولنے والے وزیر داخلہ خاموش نہ رہ سکے انہوں
نے فوراً کہہ دیا کہ یہ پابندی جلد اٹھالی جائے گی. پھر پتہ چلا کہ ملک بھر
میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں. اچھی بات ہے مسلمان عشق رسول ﷺ میں تڑپے
ہیں. اﷲ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے. کچھ احباب نے ان مظاہروں میں شرکت کی
اجازت مانگی تو خوشی سے دے دی کہ اُمت کو اس مسئلہ پر یک جان ہونا چاہئے.
مگر مجھے اب تک پوری بات معلوم نہیں ہے. اور نہ میں معلوم کرنے کی ہمت
رکھتا ہوں. اور نہ میں کسی سے پوچھوں گا. کچھ دن پہلے اپنے انٹرنیٹ کے شعبے
کے نگران سے ملاقات ہوئی. خیال آیا کہ پوری بات پوچھ لوں مگر دل رونے لگا.
آنکھیں گیلی ہو گئیں. حضرت آقا مدنی ﷺ کی شان اطہر و اقدس میں گستاخی کی
بات کیسے پوچھوں، کیسے سمجھوں، کیسے سنوں؟. بہت مشکل ہے، بلکہ ناممکن ہے.
اخبار وغیرہ پر جب اس طرح کی کوئی خبر نظر آتی ہے. میں آنکھیں پھیر لیتا
ہوں. بس اتنا معلوم ہوا کہ برطانیہ کی ایک انگریز عورت نے اس خباثت کا آغاز
کیا. اور پھر پاگل کتے جمع ہو کر جہنّم کے انگارے جمع کرنے لگے. برباد ہو
جاؤ گے ظالموں!. دنیا میں بھی ذلت پاؤ گے. اور پھر
وَلَعَذَابُ الْاٰ خِرَۃِ اَشَدُّ وَ اَبْقٰی ﴿طہ ۷۲۱﴾
اور آخرت کا عذاب بہت سخت ہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے.
ان سے جانور اچھے
ایک تمثیلی حکایت ہے کہ جنگل کے جانوروں کا ایک جلسہ ہوا. طے یہ کرنا تھا
کہ کونسا جانور سب سے زیادہ’’بے حیا‘‘ بدبودار اور گندہ ہے. مختلف جانوروں
کے نام آئے اور طرح طرح کے دلائل آئے. بالآخر طے پایا گیا کہ خنزیر
یعنی’’سؤر‘‘ سب سے زیادہ بے حیا، بدبودار اور گندہ جانور ہے. صدر جلسہ جب
اس نتیجے کا اعلان کرنے کھڑا ہوا تو ایک بہت بوڑھا خنزیر کھڑا ہو گیا. اور
بولنے کی اجازت چاہی. صدر جلسہ نے اجازت دے دی. بوڑھے سؤر نے کہا جناب میں
نے بچپن اور جوانی کا اکثر حصّہ یورپ میں گزارا ہے. کچھ انگریز مجھے جنگل
سے پکڑ کے لے گئے تھے اور پھر ایک انگریز گھرانے نے مجھے پالا پوسا. جناب
والا! وہاں میں نے انگریز مردوں اور عورتوں کی جو بے حیائی، بدبو اور گندگی
دیکھی. اُسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا. خود مجھے اُس گھر میں صاحب خانہ
سے زیادہ حقوق حاصل تھے. مگر میں تو اس بے حیائی اور گندگی سے تنگ آگیا.
وہاں ایک دو کتے بھی تھے وہ بھی اکثر یہی شکایت کرتے تھے. بالآخر جب معاملہ
حد سے بڑھ گیا تو ایک رات میں چپکے سے بھاگ نکلا. اس کے بعد اُس بوڑھے سور
نے انگریزوں کے کچھ واقعات سنائے تو پورے جلسے میں شیم شیم اور توبہ توبہ
کی آوازیں گونجنے لگیں. اور پھر صدر جلسہ نے یہ اعلان کر دیا کہ دنیا میں
سب سے بے حیا، بدبودار اور گندی نسل انگریزوں کی ہے. جبکہ خنزیر تو اُن کے
مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں. سنا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کی اس نئی مہم کا
آغاز ایک انگریز عورت نے کیا ہے. ایک بے حیا، بدبودار، نجس اور ناپاک عورت
سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟.
اﷲ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے
دل زخمی تھا اور آنکھیں اس وحشتناک خبر سے بچنے کی کوشش میں تھیں کہ کابل
میں ایک فدائی مجاہد نے اپنی گاڑی نیٹو فورسز کے ایک خصوصی دستے سے ٹکرا
دی. اس حملے میں کینیڈا کا ایک کرنل اور امریکہ کے تین کرنل اور کئی فوجی
مارے گئے اور بہت سے زخمی ہو کر اپنے ملکوں کو واپس ہوئے. یہ ایک ایسا حملہ
تھا جس میں اﷲ تعالیٰ کی خاص مدد ہر پہلو سے بالکل واضح نظر آرہی ہے. اﷲ
اکبر کبیرا. صرف ایک مجاہد اور پھر اُس کے سامنے کفر کے بڑے بڑے سرداروں کی
بکھری لاشیں. یہ ہے ’’احتجاج‘‘ کا درست اور مفید طریقہ. اور یہ ہے عشق رسول
ﷺ کا بالکل صحیح اظہار. اگر تمام مسلمان اسی راستے کو اختیار کر لیں تو
خاکے بنانے والے خاک میں مل جائیں گے. اور پھر کسی کو ہمت نہیں ہو گی کہ وہ
ایسی قیامت خیز گستاخی کا ارتکاب کر سکے. افغانستان کے طالبان نے اس حملے
کی ذمہ داری قبول کر لی ہے. اﷲ تعالیٰ اُس مجاہد کی شہادت قبول فرمائے اور
اُسے پوری اُمتِ مسلمہ کی طرف سے بہترین جزائے خیر عطا فرمائے. آمین.
احتجاج کریں مگر گستاخی نہ پھیلائیں
جہنّمی کیڑے ماضی میں بھی اس لرزہ خیر گناہ کا ارتکاب کر چکے ہیں. خود
رسولِ اقدس ﷺ کے مبارک زمانے میں بعض’’بدبختوں‘‘ نے گستاخی کا ارتکاب کیا.
الحمدﷲ، الحمدﷲ ان میں سے اکثر مارے گئے. اور کچھ نے سچی توبہ کر لی. ہمیں
سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں ان ناپاک لوگوں کے نام تو ملتے ہیں کہ
کوئی’’ابن خطل‘‘ تھا کوئی کعب بن اشرف اور کوئی عصما یہودیہ. مگر یہ لوگ
کیا گستاخی بکتے تھے اس کا کوئی تذکرہ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں نہیں
ہے. وجہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان بطور نقل کے بھی اپنی زبان پر حضرت آقا مدنی
ﷺ کی گستاخی نہیں لا سکتا. چنانچہ ان بے ہودہ لوگوں کی گستاخیوں کو نہ کسی
نے نقل کیا اور نہ پھیلایا. آج بھی مسلمانوں پر لازم ہے کہ گستاخی کے ان
خاکوں اور باتوں کو نہ پھیلائیں. کوئی بھی ان خاکوں کو نہ دیکھے اور نہ
دوسروں کو دکھائے. اور نہ ان کا بہت زیادہ تذکرہ کیا جائے. البتہ اپنے
احتجاج کو مؤثر بنانے کے لئے’‘قربانی‘‘ دی جائے صرف رسمی جلسے، اجتماعات
اور شور شرابے سے کام نہیں بنے گا.
فیس بُک اور یو ٹیوب
انٹرنیٹ کی جن دو ویب سائٹوں نے یہ ظلم کیا ہے. اُن دونوں کو خوب اور حسب
استطاعت نقصان پہنچایا جائے. آسان طریقہ تو یہ ہے کہ مسلمان ان دونوں سائٹس
پر جانا ہی چھوڑ دیں. جس جگہ آقا محبوب مدنی ﷺ کی گستاخی بکی جاتی ہو ایک
مسلمان اُس جگہ کس طرح جا سکتا ہے؟.بہت سخت دینی مجبوری کے علاوہ ان سائٹس
پر’’وزٹ‘‘ کرنا چھوڑ دیں. ویسے تو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ہی ہم مسلمانوں کے
ایمان کا دشمن ہے. فیس بک اور یوٹیوب کو اور کس کس طرح سے نقصان پہنچایا جا
سکتا ہے یہ بات کمپیوٹر کے ماہرین اچھی طرح سمجھتے ہیں. اﷲ تعالیٰ ہمت اور
توفیق عطا فرمائے.
مسلمان حکمران؟
اسلامی ملکوں کے جتنے بھی حکمران ہیں. یہ سب اپنے آپ کو’’بڑا مسلمان‘‘
سمجھتے ہیں. ہمارے مُلک پر تو پیروں، گدّی نشینوں اور صاحبزادوں کی حکومت
ہے. کیا ان لوگوں کا حضرت آقا مدنی ﷺ سے کوئی رشتہ نہیں ہے؟. کوئی ظلم ہو،
کوئی گستاخی ہو ان کے منہ بند اور زبانیں خاموش رہتی ہیں. یہ چاہیں تو فیس
بک اور اس جیسی تمام سائٹس کو اپنے ممالک میں’’بینڈ‘‘ کر دیں. مگر یہ تو
صرف مجاہدین اور دینداروں کو ’’بینڈ‘‘ کرتے ہیں. ان ہی لوگوں نے اسلامی
ملکوں میں فسادات کی آگ بھڑکا رکھی ہے. دو دن سے’’وزیر داخلہ‘‘ کی زبان
مجاہدین پر قینچی کی طرح چل رہی ہے. اگر اس طرح کے بیانات اور اقدامات سے
امن قائم ہو سکتا ہے تو پھر وہ کب کا قائم ہوگیا ہوتا. معین الدین حیدر اور
فیصل صالح حیات بھی یہی زبان بولتے بولتے چلے گئے. پرویز مشرف نے بھی اندھی
طاقت اور گندی زبان خوب استعمال کی. مگر حالات تو بد سے بدتر ہوتے جارہے
ہیں. ہمارے لئے تو آمریت اور جمہوریت سب ہی’’مصیبت‘‘ بن کر آتے ہیں. اﷲ
تعالیٰ مسلمانوں کو ’’خلافت‘‘ کی نعمت عطا فرمائے. جمہوریت کا تذکرہ آیا تو
ایک اہم بات یاد آگئی.
کالم نگار کی بے وقوفی
برطانیہ کے حالیہ انتخابات میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی کوئی’’وکیلنی‘‘
پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہو گئی ہے. یہ خاتون آج کل اپنے تیسرے خاوند کے ساتھ
برطانیہ میں مقیم ہے اور وہاں کی شہری ہے. پاکستان کے ایک کالم نویس نے اس
خاتون کی شان میں پورا ایک کالم لکھا ہے. اس کالم میں پہلے تو ’’خاتون‘‘ کے
ذاتی حالات لکھے ہیں کہ اب تک کس کس خاوند کو طلاق دے چکی ہے اور کون کون
سے تنازعات کا شکار رہی ہے. اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ذاتی کمزوریوں کے
باوجود اس خاتون نے محنت جاری رکھی اور چونکہ اُس کا راستہ’’سیدھا‘‘ تھا
چنانچہ وہ اتنی عظیم منزل تک پہنچ گئی. کاش ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی غلط
راستہ اختیار نہ کرتیں. بلکہ اسی خاتون کی طرح سیدھے راستے پر چلتی تو شاید
وہ بھی آج امریکہ میں’’رکن پارلیمنٹ‘‘ہوتی. انا ﷲ وانا الیہ راجعون.انا ﷲ
وانا الیہ راجعون
کتنی ظالمانہ، فاسقانہ اور فضول بات ہے. کہاں ایک حُور اور کہاں ایک لنگور.
کہاں فرشتہ اور کہاں شیطان. کہاں حیا کا مقدّس آبگینہ. اور کہاں بے پردگی
کا گٹر. کہاں ایمان و عزیمت کا زندہ شاہکار. اور کہاں غلامی اور مادہ پرستی
کا انبار. محترمہ عافیہ صدیقی صاحبہ کی زندگی کا تو ایک ایک لمحہ عبادت ہے.
کیونکہ جو مسلمان دین کے راستے میں کافروں کے ہاتھوں قید ہو جاتا ہے وہ اﷲ
تعالیٰ کے راستے کا معتکف بن جاتا ہے. کہاں وہ عافیہ جس کو مجبوری کی تلاشی
بھی گوارہ نہیں. اور کہاں غیر مردوں کے درمیان آٹے کی بوری کی طرح بھاگتی
لڑھکتی بیرسٹر شبانہ. مگر کیا کریں آج کل ہمارے کالم نویسوں کے دماغ
پر’’مادہ پرستی‘‘ حد سے زیادہ سوار ہو چکی ہے. یہ مسلمان ہیں مگر کافروں کے
حق میں کالم لکھتے ہیں. جب دجّال آئے گا تو یہ لوگ شاید بھاگ بھاگ کر اُس
کے ساتھ شامل ہوں گے. کیونکہ دجّال تو ٹیکنالوجی اور مادہ پرستی کا بادشاہ
ہوگا. آج کی جس سائنس اور ٹیکنالوجی کو یہ کالم نویس سجدے کر رہے ہیں وہ
سائنس تو کسی بوڑھے کو جوان نہیں کر سکتی. جبکہ دجّال تو مُردوں کو زندہ کر
دے گا. یہ بے چارے کالم نویس تو بل گیٹس کی دولت پر رال ٹپکاتے کالم لکھتے
ہیں جبکہ دجّال کی دولت تو کسی گنتی اور شمار میں بھی نہیں آسکے گی. ایک
کالم نویس نے امریکہ کی ایک کافرانہ یونیورسٹی کی تعریف میں کالم لکھا تو
پوری امت ِمسلمہ کے ’’ماموں‘‘ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی شان
میں گستاخی بک دی. میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان کالم نگاروں نے ’’کامیابی‘‘ کا
جو معیار مقرر کر رکھا ہے اُس کی رو سے تو فرعون، قارون، نمرود اور ابوجہل
سب کامیاب تھے. جبکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سیدنا نوح علیہ السلام اور
دیگر انبیائ علیہم السلام کی زندگیاں تو بہت مشقت اور تکالیف میں گزریں. تو
خود کو مسلمان کہلوانے والے یہ کالم نویس قرآن پاک کا کس طرح سے مطالعہ
کرتے ہوں گے؟. اﷲ تعالیٰ ان بے رنگ لفافوں کے شر سے مسلمانوں کی حفاظت
فرمائے. ان میں بعض کالم نگار تو بہت رنگ برنگے ہیں. چار کالم مادہ پرستی
کے حق میں لکھ کر پھر ایک اسلامی کالم لکھ مارتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ
ان سے بڑا غیرت مند مسلمان اور کوئی نہیں ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض
کالم نویس مکمل انگریزی زندگی گزارتے ہیں اور اپنے گھروں میں ہر غیر ملکی
چیز استعمال کرتے ہیں اور پھر پیسے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بائیکاٹ پر
کالم بھی لکھتے ہیں. حالانکہ وہ جس قلم سے کالم لکھ رہے ہوتے ہیں وہ بھی
کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا ہوتا ہے. دراصل یہ لوگ سادہ دل مسلمانوں کے جذبات
سے کھیلتے ہیں اور قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں. اﷲ تعالیٰ ہم سب
کو’’حق‘‘ دکھائے اور’’حق‘‘ پر چلائے. آمین.
یا حقُّ یا رحمَنُ یا ارحم الراحمین
اللھم صلی علیٰ سیدنا و مولانا محمد عدد مافی علم اﷲ صلوٰۃ دائمۃ بدوام ملک
اﷲ عزوجل و بارک وسلم تسلیما کثیر ا کثیرا |