شاہ برام تیری یاد ہمیں عمر بھر ستائے گی!

تقریبا بارہ سال پہلے کی بات ہے یہ سردیوں کی صبح تھی اور ہر طرف دھند نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے پرائمری اسکول کی ٹوٹی ہوئی ایک دیوار سے شاہ برام کی آمد ہوئی ان کے ہاتھ سردی کی وجہ سے کانپ رہے تھے کھیتوں میں سے پانچ کلومیٹر پیدل چل کر اسکول آنے کی وجہ سے جوتوں سمیت پاﺅں پر اوس اور گھاس لگی ہوئی تھی سلام کرنے کے بعد مجھے بولے وحید بھائی یہ شرافت علی کی آج چھٹی کی درخواست ہے نذیر صاحب کو دے دینا وہ آج اسکول نہیں آرہا۔ درخواست مجھے تھمانے کے بعد وہ مکئی کے بیج کے کپڑے سے بنے ہوئے بستے کو بغل میں لیئے چل دیئے-

کھیتوں سے گزر کر اسکول آنا ان کا معمول تھا اور مشکل سے کوئی ایسا دن ہوگا کہ انھوں نے اسکول سے چھٹی کی ہوں کیونکہ وہ مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ میں بڑا ہوکر پڑھائی کیلئے لاہور جاﺅنگا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واپس لوٹوں گا۔ اسکول میں ہم بریک کے وقت مل کر کھانا کھاتے، شغل کرتے اور کرکٹ کھیلا کرتے تھے دن انتہائی خوشی خوشی گزر رہے تھے میں اس اسکول سے پانچویں جماعت مکمل کرنے کے بعد دوسرے اسکول چلا گیا جو ملاقات پہلے روزانہ ہوتی تھی وہ اب ہفتوں بعد ہوتی تھی۔ شاہ برام نے غزالی پبلک ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد انسانیت کی خدمت کرنے کا ارادہ کیا اور اسی سلسلے میں میڈیکل کی تربیت حاصل کرنے کیلئے حجرہ شاہ مقیم چلے گئے اور وہاں کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں تربیت لینا شروع کر دی ۔ مگر بد قسمتی سے وہ اپنے خوابوں کی تعبیر نہ دیکھ سے اور اللہ اپنے مالک حقیقی سے جاں ملے۔ انااللہ و انا الیہ راجعون

میں نے جب یہ خبر سنی تو تب میں لاہور میں اپنے دفتر تھا ایک لمحے کیلئے میں یقین نہیں کرسکتا تھا کہ شاہ برام اب ہم میں نہیں رہے۔

شاہ برام ایک ہونہار، ذہین، محنتی، باادب اور وقت پر کام کرنے والا طالب علم تھا۔ میں شرافت علی، محمد خاں اور شاہ برام ایک خاندان کی طرح تھے اسکول کے درخت کے نیچے اکھٹے بیٹھتے، خوب باتیں کرتیں اور بریک کے بعد ایک ہی دوات سے تختیاں لکھا کرتے تھے اسکول سے چھٹی سے تیس منٹ پہلے پہاڑے یاد کرنے کیلئے اکٹھے کھڑے ہوا کرتے تھے مگر اب کبھی بھی نہیں۔

جانے والے تو چلے جاتے ہیں مگر ان کی یادیں باقی رہ جاتیں ہیں اس میں کوئی شک نہیں یہ شاہ برام کے خاندان کیلئے نہ مٹنے والا زخم ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک ان کے خاندان کو صبرِجمیل عطا فرمائیں اور شاہ برام کے درجات بلند فرمائیں۔ آمین
 

Abdul Waheed Rabbani
About the Author: Abdul Waheed Rabbani Read More Articles by Abdul Waheed Rabbani: 34 Articles with 38940 views Media Person, From Okara. Now in Lahore... View More