رئیس دوست(حکایت)

مدت ہوئی بغداد کی ایک نواحی بستی میں ایک مزدور رہتا تھا ۔ اس کا گزارہ اپنی محنت مشقت پر مشکل سے ہوتا تھا۔ خاندان اس کے کندھوں پر بہت بڑا بوجھ تھا۔ لیکن وہ ہمت والا تھا ؛ دل چھوٹا نہیں کرتا تھا۔ اس نے اپنے ماں باپ سے یہی سبق سیکھاتھا کہ محنت دنیا کی بہت بڑی حقیقت ہے اسے اپنانے والے کبھی نامراد نہیں رہتے۔ اسے محنت کرتے کرتے کافی سال بیت چکے تھے۔ وہ ابھی چھوٹا ہی تھا جب اس کے باپ نے اسے اپنے ساتھ کام پر لیجانا شروع کر دیا تھا۔ اب اس کے ماں باپ تو اس دنیا میں نہیں تھے لیکن ان کی یاد اور ان کا دیا ہوا سبق اس نے بڑی محبت اوراستقلال سے اپنے پلے باندھا ہوا تھا۔

اچانک ایک دن اسے اس کا ایک اور مزدور دوست ملنے آیا اور اس نے بتایا کہ وہ بغداد کے ایک رئیس کا محل بنانے کا کام کر رہے ہیں اور یہ کام کافی مدت تک جاری رہنے والاہے اور مزدوری بھی باقی لوگوں سے زیادہ اور بروقت مل جاتی ہے۔ وہ بڑا ہمدرد اور شفیق ہے۔ اس مزدور کے دوست نے اسے بھی اسی کام پر اس کے ساتھ جانے کی پیشکش کر دی، جسے اس مزدور نے بڑی خوشی اور جلدی سے مان لیا اور اگلے دن وہ دونوں بہت سے اور مزدوروں کے ساتھ بغداد کے اس رئیس کا محل بنانے میں مصروف تھے۔

جب قسمت جاگتی ہے تو کسی سے پوچھتی نہیں اور جب سوتی ہے تو کسی کو بتاتی نہیں۔ اچانک ایک دن اس رئیس کی نظر اس مزدور پر پڑی، اسے اس مزدور پر ترس آگیا اور ساتھ ہی اس کے ساتھ کچھ خاص ہمدردی بھی ہو گئی۔اسے وہ مزدور باقی مزدوروں سے بہت زیادہ اچھا لگنے لگا۔ اس نے خصوصی ہدایات جاری کیں کہ اس مزدور کو باقی مزدوروں سے کئی گنا زیادہ اجرت دی جائے۔وجہ کوئی خاص نہیں تھی ، بس اسے یہ مزدور اچھا لگنے لگا تھا۔ اس مزدور کے دن پھرنے لگے۔

یہ مزدور بھی دل سے اس رئیس کی عزت کرتا اور اسے اپنا مہربان جانتا تھا۔ کبھی کبھی مزدور اس رئیس کے خلاف کوئی بات کر دیتے تو وہ اس رئیس کے حق میں بات کرتا۔ اور اس کی اچھائیاں بیان کرنے میں رطب اللساں ہو جاتا۔ اس بات کا رئیس کو بھی کسی ذریعے سے علم ہو گیا۔ اس نے اس مزدور پر اپنی مہربانیوں میں اور اضافہ کر دیا ۔ وہ مزدور اب کافی خوش حال ہو چکا تھا۔ اب اسے مزدوری کرنے کی بھی حاجت نہ رہی تھی۔ لیکن وہ اس مہربان رئیس کی مزدوری چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن ہر خزانے کے چور بھی ہوتے ہیں۔ دوستی اور محبت کے دشمن بھی ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

اس نئے نئے خوش حال مزدور کو بھی حاسدوں نے اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھنسا کر اس کے اندر انا اور غرور کے وہ جذبات پیدا کر دیئے جو انسان کو ایسا اندھا کرتے ہیں کہ اسے اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ خود کو بھی صحیح معنوں میں سمجھ نہیں پاتا۔ اس طرح کا گھمنڈ اس نو دولتی مزدور میں بھی در آیا۔ اس نے اس مہربان رئیس کی نوکری کو لات ماری اور اپنی مرضی کا کاروبار شروع کر دیا جس میں اس کا دل لگتا تھا۔ کیوں کہ مزدوری تو آخر مزدوری ہے اور اپنا کام تو بادشاہی ہوتا ہے اس کے دوست اسے اکثر یہ بات سمجھایا کرتے۔

اسنے اپنی خواہش کے کام کرنے شروع کئے لیکن اسے ان میں گھاٹا پڑنے لگا۔ اور آخر وہ آہستہ آہستہ پھر سے کنگال ہو گیا ۔ کسی نے اس کے رئیس دوست کو بتایا کہ اس کی مہربانیوں کا نشانہ بننے والا مزدور خوشحالی کے بعد پھر سے بحرِ غربت میں غوطہ زن ہے۔ اس نے اپنے ملازم کے ہاتھ اسے ایک معقول رقم بھیج دی اور کہا کہ اسے منافع بخش کام پر لگا کر اپنی زندگی کو پر سکون بنائے۔ مزدور کو جب رقم ملی، وہ اپنے اس مہربان ریئس کے لئے سراپا نیاز بن گیا۔ اسکے حریص دوستوں کا بھی اس بات کی کانوں کان خبر ہو گئی۔ وہ پھر اس کی محبت کا دم بھرنے لگے۔ شام سویرے اس کے آستانے پر جھمگٹا بنا کے بیٹھے رہتے۔وہ پھر اپنی مرضی اور خواہش کے کاروبار میں پڑ گیا ۔

اسے کام میں نفع نقصان کی بجائے اپنی خواہش پوری کرنے کا زیادہ خیال رہتا۔ وہ دراصل خواہش پرست بن جاتا یا اس کے خود غرض دوست جن کا شام سویرے یہی وظیفہ تھا: ہم تو ڈوبے ہیں صنم، آپ کو بھی لے ڈوبیں گے،وہ اسے الٹے سیدھے مشورے دیتے رہتے اور وہ ان سے اپنی یاری کو نبھانے کے چکر میں ان کی بات کو فوقیت دیتے ہوئے اپنے نفع نقصان سے بھی بے نیاز ہو جاتا۔ایسے کام کا یہی انجام ہوتا ہے۔ اس نے کچھ لوگوں سے رقمیں ادھار بھی لینی شروع کر دیں کہ اس کا کام چلتا رہے اور کام کے چلنے پر وہ اس ادھار کو ادا کر ہی دے گا۔ لیکن اس کے دوست اور اس کی اپنی مرضی کی خواہشات اس کے کام کی ترقی کی میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں۔

ایک بار پھر اس کا دیوالیہ نکل گیا ۔ پھر کسی مہربان نے جا کے اس رئیس کو خبر دی کہ اس کا منظورِ نظر ایک بار پھر کاروبارِ زیست میں شکست سے ہاتھ ملا رہا ہے۔ اس کے پاس کسی قسم کی کمی نہ تھی۔ اس نے ایک بار پھر اس مزدور دوست کے لئے اپنے ملازم کے ہاتھ ایک قابلِ ذکر رقم بھجوا دی۔

اس مزدور نے سوچا کہ اس بار وہ پوری توجہ اور ایمانداری اور ہوشیاری سے اپنا کام کرے گا۔ اور کسی خود غرض کو دوست نہیں بنائے گا۔اس نے دل میں یہ بات ٹھان لی کہ اس کے بعد وہ کبھی بھی اپنے اس رئیس دوست سے رقم نہیں لے گا ، اسے رقم بھجوانے کی کوفت نہیں کرنے دے گا بلکہ اتنی کمائی کرے گا کہ اس رئیس دوست کے لئے ایک بہت قیمتی تحفہ لے کر اس کے پاس جا کر اس کا شکریہ ادا کرے گا۔

اس نے پوری تندہی سے کام کا نئے سرے سے آغاز گیا ۔اور کچھ ہی وقت میں اس کی نیک نیت کو بھاگ لگا اور وہ تیزی سے کاروبار میں ترقی کرنے لگا۔ اس کے دوست جو اسے افلاس میں بھول جایا کرتے تھے اور خوش حالی میں اس کی قصیدہ خوانی کے فرائض ادا کیا کرتے ، پھر سے اس کے درِ دولت پر حاضری کو اپنے لئے فرض عین بنانا چاہا۔اس بار یہ مزدور پہلے سے زیادہ چوکس تھا۔ اس نے ان کو کچھ دور ہی رکھنے میں اپنی عافیت پائی۔

لیکن کچھ مدت بعد اسے لگا کہ دوستوں کی محفل کے بغیر زندگی کس کام کی۔ کوئی مزا ہی نہیں ہے۔ زیادہ نہیں تو تھوڑے بہت دوست تو ہونا انسان کی کمزوری ہے۔ اس کے دوستوں نے بھی دیکھا کہ اب اس کا موڈ پہلے والا نہیں ہے۔ انہوں نے بھی رنگ بدل کر اس کا پیچھا کرنے کی نیت باندھ لی۔ انہوں نے رستے اور انداز بدل کر اس کو ایک بار پھر اپنے چکر میں پھنسانے کی پوری پوری کوشش شروع کر دی۔

چور چوری سے جائے ، ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ مزدور بھی آہستہ آہستہ اپنی پرانی عادتوں کی طرف چل پڑا اور اس کے دوستوں نے بھی اسے آگے سے ملنے کے پروگرام ترتیب دے لئے۔

آخر پھر وہی ہوا جو پہلے ہوتا تھا۔ اس بار تو اس کے دوستوں نے اسے اتنا بددماغ بنالیا کہ وہ اس رئیس کے خلاف بھی باتیں کرنے لگا۔ بد خواہ دوستوں نے اس رئیس سے اسے دور کرنے میں اپنی اصل کامیابی سمجھی کیوں کہ جب تک وہ رئیس سے دور نہیں ہوتا وہ اسے غریب نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اس کے کاروبار کے فیل ہونے کی وجہ بھی اسی رئیس کو بنا دیا ، اور پھر اس کی منافقانہ مدد کہ پہلے وہ نقصان کرتا ہے اور پھر مدد بھیج کر احسان بھی کرتا ہے ،جو کہ بس ظاہری ہے۔مزدور کے دل کی بد گمانی کی کوئی حد نہ رہی ۔ اس نے انہی دوستوں کو اپنے بہترین ساتھی سمجھا اور آئندہ کبھی اس امیر دوست کی مدد لینے سے واشگاف انکار کر دینے کا بھی وعدہ اپنے دوستوں سے کر لیا۔

اس کے دوست اپنی اس کامیابی پر پھولے نہ سماتے تھے اور اپنے آپ کو کوستے بھی کہ ایسا جال انہوں نے پہلے کیوں نہ بچھایا۔ رئیس سے اس مزدور کی دوری ہی ان کی اصل فتح تھی۔ انہوں نے ایک بار پھر پھاپھے کٹنی کا کردار ادا کرتے ہوئے اس مزدور کو موم کی ناک بنا لیا۔ وہ مزدور بنیادی طور پر تھا ہی نادان یا اس کے بظاہر دوستوں کی مکاری اتنی حساس تھی کہ اسے کچھ سمجھ نہ آتی تھی۔کیوں کہ وہ تو جیسے اس کی نس نس میں سما ج چکے تھے اور اسے یوں لگتا کہ ان کے سوا اس کا کوئی اور ہے ہی نہیں۔

وہ دوست نما دشمن ایک بار پھر اپنی چال میں کامیاب ہو چکے تھے۔ اس مزدور کو تخت سے تختے پر لانے میں انہوں نے عیاری کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ اب مزدور کی حالت پہلی تمام ناکامیوں سے زیادہ ابتر تھی۔ وہ شہر کے بہت سے لوگوں کا مقروض ہو چکا تھا۔ اور اس کے پاس ان سب کی منتیں کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

آخر جس نے قرض دیا ہوتا ہے اس نے واپس بھی لینا ہوتا ہے۔ اس پر قاضی کی عدالت میں مقدمہ درج کروایا گیا کہ وہ اتنے لوگوں کا مقروض ہے اس کی جائیداد نیلام کر کے قرض خواہوں میں تقسیم کی جائے۔ اس رئیس کو بھی اس بات کی خبر ہو گئی ۔ اس نے ایک بار پھر اپنی دوستی اور مہربانی کا حق ادا کیا اسے ایک خطیر رقم بھجوا دی لیکن اس بار اس مزدور نے رقم واپس کر دی یہ کہہ کر کے اس نے رئیس کی رقم نہیں لینی چاہے کچھ ہو جائے۔ رئیس کا ملازم وہ رقم واپس لے گیا۔ رئیس کو پریشانی ہوئی کہ آخر اس بار اس کے منظورِ نظرمزدور نے اتنی ضرورت میں بھی اس کی مہربانی کیوں ٹھکرادی۔ اسے بات کی تہہ تک پہنچنے کا تجسس ہوا۔ وہ جہاں دیدہ تو تھا ہی اور جانتا تھا کہ انسانی رویوں کی تبدیلیاں کیسے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اس نے اپنے چند ملازم اس کام پر لگا دیئے کہ پتہ چلائیں کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔

ادھر مزدور کو جیل میں بند کر دیا گیا اور اس کی جائیداد کی نیلامی کے بعد بھی جو قرض ادا ہونے سے رہ گیا تھا اس کی پاداش میں اسے کئی سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

اس نے اپنے دوستوں سے بار بار اپیلیں کیں لیکن اس کے دوست اسے پھوٹی کوڑی دینے کوبھی تیار نہ تھے۔وہ تو کب کے اس کا یہی حشر دیکھنا چاہتے تھے۔ انہیں تو اس غریب کی اس مہربان رئیس ست دوستی سب سے زیادہ کھٹکتی تھی۔ بد خواہ تو ہر وقت برا ہی چاہتے ۔ ان کا بس چلے تو انسان کو ایک ثانیہ بھی زندہ نہ رہنے دیں۔

اب مزدور کو اپنی غلطیوں پر بہت پشیمانی ہوئی اور خاص طور پر اس بار اس رئیس کی مدد قبول نہ کرنے کی غلطی تو بہت ہی بڑی تھی کیوں کہ وہ رئیس واپسی کا کچھ مطالبہ بھی تو نہیں کرتا تھا۔ وہ تو اسے صرف اپنی ہمدردی سے نواز رہا تھا۔ لیکن مزدور نے ایک مکمل احمق ہونے کا پورا پورا ثبوت دیا ۔ وہ اپنے منہ پر تھپڑ مارتا ، اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے چبا نے کی کوشش کرتا کہ انہوں نے اس رئیس کی رقم واپس کیوں کی۔لیکن اب اسے اپنے کئے کی سزا بھی تو ملنی چاہیئے تھی ،سو وہ مل رہی تھی۔

ادھر رئیس کی انکوائری کمیٹی نے اسے اطلاع دی کہ مزدور کو بہکایا گیا ہے، اس کی سوچوں کو گمراہ کیا گیا ہے۔ وہ دلی طور پر اسے اپنا ہمدرد اور مربی مانتا ہے لیکن اس کے دوست نما دشمنوں نے اسے رئیس سے دور کر نے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

رئیس کو ایک بار پھر اس مزدور کی حالتِ زار پر ترس آگیا۔ اس نے عدالت کو وہ ساری رقم ادا کی جو کہ اس مزدور کے ذمے واجب الادا تھی۔ اور اس مزدور کو سلاخوں کے پیچھے سے نکلویا۔ مزدور اس کے قدموں پر گر پڑا اور رو رو کر اپنی پچھلی تمام حماقتوں پر معافی کا طلبگار ہوا۔ اور اس رئیس کی تمام مہربانیوں کا تہہِ دل سے شکر گزار ہوا۔ رئیس نے اپنے منظورِ نظر مزدور کی یہ حالت دیکھی تو اسے اسے مکار دوستوں سے ہمیشہ کے لئے محفوظ رکھنے کے لئے اپنے محل میں ہمیشہ کی مزدوری پر رکھ لیاتا کہ نہ وہ ایسے دوستوں میں رہے جو اسے گمراہ کرتے ہیں اور نہ بار بار اس عذاب میں پڑے۔

دراصل وہ مزدور انسان ہے۔ اس کا رئیس دوست قادرِ مطلق رب العزت ہے۔ اور اس کے بد خواہ دشمن شیطان، نفس اور اس کی اپنی بری خواہشات ہیں ، جو اسے بار بار گھاٹے کی طرف لے جاتی ہیں اور وہ مہربان ہر بار اپنی مہربانی سے انسان کو پھر سے نوازدیتا ہے۔ آخر انسان اپنے گناہوں کی پاداش میں جہنم کا ایند ھن بنتا ہے لیکن وہ مالک اپنی مہربانی سے ہر اس شخص کو وہاں سے بھی نکال لیتا ہے جو شرک نہیں کرتا یا اسے اپنا مالک و خالق مان لیتا ہے۔ اور اپنے گناہوں پر نادم ہو جاتا ہے۔ اس قادرِ مطلق کو بس انسان کی انکساری مطلوب ہے کہ جو کوئی بھی دل کی انکساری لے آ تا ہے وہ اسے نواز دیتا ہے۔ اس کے خزانے لا انتہا ہیں۔ وہ کسی سے اپنی مہربانیوں کا صلہ بھی نہیں مانگتا اور نہ ہی کوئی اس کی ایک ادنیٰ سی بھی نعمت کا بھی شکریہ ادا کر سکتا ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔ اس کے خزانے لا محدود ہیں وہ اپنے مزدوروں یعنی اپنے بندوں کو بن مانگے بھی ادا کرتا ہے انسان اس کا منظورِ نظر مزدور ہے جسے اس نے اپنی باقی تمام مخلوقات کی نسبت کئی گنا زیادہ نعمتوں سے نوازا ہوا ہے۔ اور منظورِ نظر ہونے اور رہنے کی پہلی اور آخری شرط انکساری ہے۔ جو انکساری اختیار کرنے میں کامیاب ہو گیا اس پر رحمتِ خدا وندی کا بادل برس گیا۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 312996 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More