سلطان الہند خواجہ غریب نواز کی ایمان افروز بارگاہ کے روح پرور لیل و نہار

جہاں لاکھوں تشنہ کام بادۂ توحید سے سرشار اور ایمان کی دولت سے باریاب ہوئے

ہند میں اسلام: پہلی صدی کے آخری ایام میں اسلام کی کرنوں نے ہندوستان کی وادیوں کو پُر نور کیا۔ کیرلا، سندھ اور افغانی دروں کے راستوں سے داعیانِ دین ہند آئے۔ حضرت شیخ اسماعیل بخاری نے باب الاسلام سندھ میں مسندِ تدریس آراستہ کی اور علم حدیث کی روشنی دور تک پھیلائی۔ حضرت داتا گنج بخش نے پنجاب کی زمیں کو شرک کی کدورت سے پاک کر کے ایمان کے دیے روشن کیے۔ محمد بن قاسم کی فتوحات، غزنوی داد و شجاعت نے بھی اہم رول ادا کیا۔ فیض گنج بخش سے اکتساب کرنے والے آلِ رسول حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ نے براستہ لاہور و دہلی- اجمیر میں قیام کیا۔ازیں قبل دہلی میں سیکڑوں افراد کو رہزنی سے نکال کر راہبر بنایا۔ داخلِ اسلام کیا۔ اجمیر مرکزِ شرک و منبعِ بت پرستی تھا۔ مسموم فضا میں ہی اولیائے کرام بساطِ عرفان بچھاتے اور وادیِ بنجر کو سیراب کرتے ہیں۔ اﷲ کریم کے عطا کردہ عظیم اختیارات کے ذریعے خواجہ غریب نواز نے فکرو نظر کا قبلہ بدل دیا۔ لاکھوں پیاسے ایمان کے جامِ توحید سے سیراب ہوئے۔ عظیم اخلاق، قوتِ عشقِ رسول کریم علیہ التحیۃوالتسلیم سے آپ نے ہر پست کو بالا کردیا اور فضائے ہند میں اسمِ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے وہ اُجالا کیا جس کے نتیجے میں پورا ہندوستان ایمان و ایقان کے نغموں سے گونج اُٹھا ۔ آج مشنِ خواجہ کا ہی اثر ہے کہ مسلم بستیاں ایمان افروز نغموں سے اسلامی شوکت کا اظہار کر رہی ہیں اور نغمۂ توحید کے ساتھ ہی مصطفی جانِ رحمت سے محبت و اُلفت کا ترانہ فضائے ہند کو نور نور بنائے ہوئے ہے:
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

درِ اجمیر کے محسوسات: شب کی زُلف سمٹ رہی تھی۔ شاہراہیں تاریک تھیں۔ شب میں عجب خوف کا ماحول ہوتا ہے۔ تاریکی ماحول کو مزید تحیر خیز بنا دیتی ہے۔ لیکن کوئی ایسا بھی مقام ہوتا ہے جہاں کی شب بھی صبحِ درخشاں سے کم نہیں ہوتی۔ ایسے مقام خاصانِ خدا کی بارگاہیں ہیں۔ جہاں کی ہر ساعت بڑی دل کش ہوتی ہے۔ ہر لمحہ صبحِ نو کا پتا دیتا ہے۔ہماری شبِ درخشاں ہند کے سلطاں غریب نواز کی دہلیز پر بسر ہوئی۔ ہوا یوں کہ ہم زائرِ درِ خواجہ ہوئے۔ گرمی کے ایام تھے۔ سورج اپنی تمازت بکھیر کر جانبِ غرب معدوم ہوا۔ راجستھان کی صحرائی زمیں۔ اجمیر کی مشک بار فضا۔ درِ خواجہ کی تاباں چوکھٹ۔ دن ہی میں زیارتِ بارگاہ سے فیض یابی کر لی ۔ایک شب باقی تھی۔ عزم ہوا کہ یہ شب اپنی بے عملی کے ازالے کی کوشش میں گزار لی جائے۔ ہم نمازِ عشا سے فراغت کے بعد درِ غریب نواز پر فروکش ہوئے۔ شاہ جہانی مسجد کے صحن میں پہنچے: ع
اب تو غنی کے در پر بستر جما دیے ہیں

صحنِ نور میں محفلِ نور سجائی۔ سامنے دودھیا گنبد اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا۔ ہر شے نور نور تھی۔ نور کی سرکار صلی اﷲ علیہ وسلم سے فیض یابی کرنے والے غریب نواز علیہ الرحمہ کی بارگاہِ ناز نورانیت کا پاور ہاؤس ہے، جہاں سے ایمان وایقان کی دولتِ گراں مایہ تقسیم ہوئی۔ کشتِ ایمان ہری بھری ہو گئی بقول علامہ حسن رضا خان:
گلشن ہند ہے شاداب کلیجے ٹھنڈے
واہ اے ابرِ کرم زور برسنا تیرا

ابرِ کرم برسا۔ ہر کوئی نہال ہوا۔ ہم بھی شبِ روشن میں درِ نور پر بھیک لینے بستر جمائے تھے۔ غریب نواز کی بارگاہ میں محبتوں کا خراج پیش کررہے تھے۔ ذکرِ رسول، آلِ رسول کی بارگاہ میں سبحان اﷲ! روحانیت کی قندیل ہے بارگاہِ خواجہ، نورانیت کا منبع ہے درِ غریب نواز، سرچشمۂ عرفان ہے دیارِ اجمیر، نکہتوں کا گلستاں ہے درِ جود و عطا، فکرو نظر اور ایمان کی فصل کو شاداب بناتا ہے دربارِ شاہِ ہند:
خواجہ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا

صبح کا سپیدہ نمودار ہونے کو تھا، مسجد کے بلند میناروں سے صدائے لاہوتی بلند ہونے کو تھی کہ ہم نے محفل ذکر ختم کی، سلام کا نذرانہ بصد احترام پیش کیا، شجرہ پڑھا، دُعا کی اور چوکھٹ پر ہی اذان فجر کے منتظر ہوئے۔ معاً صدائے دل نواز درود کے حصار میں بلند ہوئی۔ لمحوں کی معراج ہوئی۔ زندہ ولی کے دربار میں ذکر توحید و نغمۂ رسالت- سبحان اﷲ!

صبح کا روحانی سماں۔ خلاقِ کائنات نے اپنے محبوب ولی غریب نواز کا دربار کیسا آراستہ کیا۔ جلالت وشان- اﷲ اکبر۔ روح کا ہر تار ہمنوا ہو جاتا ہے۔ شہنشہی کے تاج سرنگوں ہو جاتے ہیں۔ گویا دل کی دُنیا پر قبضہ ہے غریب نواز کا۔ زندہ باد اے مردِ حق زندہ باد۔ گلشنِ ہند میں وہ روشنی پھیلائی جس کی ضیا سے عقیدے کی قندیل بھی روشن ہے اور سارا برصغیر فیض یاب ہے۔ بریلی کی نکہتیں بھی اجمیر کے منبعِ نور سے مشک بار ہیں، کچھوچھہ مقدسہ، دیویٰ شریف، مارہرہ مطہرہ، پاک پتن، دہلی، گلبرگہ، خلدآباد سبھی در وبام نور بار ہیں فیض اجمیر سے:ع
واہ اے ابرِ کرم زور برسنا تیرا

آج دُنیا امن کی متلاشی ہے، دھشت گردی کے مقابل اولیاء اﷲ کی پاکیزہ تعلیمات ہی انسانیت کے حفظ و بقا کے لیے اکسیر ہیں، جس پر عمل آوری انسانی اقدار کے لیے موجبِ راحت ہے۔اس سمت قدم بڑھانا وقت کا تقاضا ہے۔

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281353 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.