معروف ادبی شخصیت محمد ظہیر بدر کی میزبانی میں کینیڈا سے
تشریف لائیں نامور ادیبہ روبینہ فیصل کے پہلے افسانوں کے مجموعہ ’’خواب سے
لپٹی کہانیاں‘‘کی تقریب رونمائی کے حوالے سے ایک خوبصورت ادبی نشست
کاانعقاد کیا گیا ،میدانِ ادب کی نمایاں شخصیات زاہد مسعود، رضیہ اسماعیل،
سلمی اعوان، نیلم بشیر، راجہ نیئر، ڈاکٹر ناصر بلوچ، ڈاکٹر ظہیر بابر، وقاص
عزیز، منیزہ عزیز، اسلام اعظمی، حسین مجروع، طارق ساغر، ناصر بشیر، ڈاکٹر
مدیحہ ظہیر، سعیدہ نورلس ظہیراوررشنہ ظہیر نے شرکت کر کے اِس نشست کے ادبی
وقار کو خوب بلند کیا۔
روبینہ فیصل خوش خلقی کی مظہر،دردمند ،مخلص، مسائل آشنا اور اسلوب شناس اور
پاکستان و انسانیت سے پیار کرنے والی قابلِ قدر شخصیت ہیں۔روبینہ فیصل آباد
میں پیدا ہوئی جبکہ زندگی کا طویل عرصہ زندہ دلانِ شہر لاہورمیں گزرا،ہیلے
کالج سے بی کام اور ایف سی کالج سے انگلش میں ماسٹر کیا،شعبہ بنکاری سے
وابستہ رہیں۔اور گزشتہ سولہ سال سے کینیڈا میں مقیم ہیں جہاں انہیں ادبی
سفر کے لئے ایک سازگار ماحول میسر ہوا۔’’دستک‘‘کے عنوان سے مقامی چینل میں
ٹاک شو بھی کمیونٹی میں مقبول عام ہے۔افسانہ نگاری ہو یا کالم نگاری ،
کامیابیوں نے ہر قدم پر انکا پرتپاک استقبال کیا ہے۔ انکا کالموں کا
مجموعہ’’روٹی کھاتی مُورتیاں‘‘ بھی صحافتی حلقوں سے پسندیدگی کی سند وصول
کر چکا ہے ۔دیارِغیر میں رہنے کے باوجود انکی سوچ و فکر کا محور پاکستان
ہے۔انکی تحریروں میں رچی بسی اِسی پاکستانیت کی خوشبوانہیں دیگر میں ممتاز
کرتی ہے۔انہوں نے بلاشبہ انسانیت کے زخم کی گہرائیوں میں جھانکا اور اس خوب
بھانپا ہے جوقاری کے احساس و ضمیر کوخوب مرتعش کرتا ہے۔روبینہ کی کہانیاں
گل و بلبل کی کہانیاں نہیں ہیں بلکہ ان میں تخلیق کی علمی عرفانی وجدانی
سطح بہت بلند ہے اور معاشرتی ،سماجی،سیاسی شعور بالیدہ۔انہوں نے اپنی زندگی
سے وابستہ بہارو خزاں، روح فرسا لمحات ،انسانی وجود کے ذہنی و فکری بحران
اور انتشار و اختلال، عورتوں کی بے نوائی اور بے بسی،رومانی جذبوں اور اور
ان جذبوں میں شدت کے رحجانات کو کہیں شگفتہ انداز ،کہیں تیزی،تندی اور کہیں
شوخی و طنزیہ انداز میں قلم بند کیا ہے جبکہ مذہبی اور دنیاوی معاملات میں
اعتدال پسندی انکی تحریروں کی خوبی ہے جو قاری کے درِ دل پر بالواسطہ دستک
دیتے ہیں
خالد شریف ’’خواب سے لپٹی کہانیاں‘‘ پر اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ
’’روبینہ فیصل کی کہانیاں میں پاکستان کے دیہات کی سوندھی مٹی کی خوشبو اور
کینیڈا کی برفانی رُت کی بوقلمونیاں ایک ساتھ جلوہ افروز ہیں۔وہ رہتی وہاں
ہیں مگران کی روح یہیں کہیں کسی پنگھٹ، کسی سرسوں کے کھیت یا کچی پکی
پگڈنڈیوں کے اردگرد محوِخرام ہے۔ان تمام کہانیوں میں دونوں معاشرتوں کے
تقابلی مطالعے نے ایسی کیفیت پیدا کر دی ہے کہ روبینہ کی فنی مہارت کی داد
دیے بنا نہیں رہا جا سکتا‘‘۔۔۔اورپروفیسر ڈاکٹر محمد کامران کے خیال میں
روبینہ فیصل کی کہانیاں ایک حساس اور باشعور خاتون کی داخلی خود کلامی کی
آئینہ دار ہیں، حساسیت اور شعور کا امتزاج دکھ کا نہ ختم ہونے والا سفر
ہے،ان کہانیاں میں شکستہ خوابوں کی وہ کرچیاں ہیں جو آنکھوں کو لہو رنگ کر
دیتی ہیں۔
اب ہو جائے احوالِ تقریب ۔۔ آغاز اپنے مقررہ وقت پر ہوا۔اِس غیررسمی ،بے
تکلفانہ محفل کے میزبانِ محترم محمد ظہیر بدرنے مسندِ صدارت پر معروف شاعرہ
و ادیبہ نیلم احمد بشیر کو مدوح کیا ۔ محمد ظہیر بدر نے مہمانِ خصوصی
روبینہ فیصل کے تعارف سمیت انکی فنی و فکری ہنرمندیاں پیش کرتے ہوئے کہا کہ
انکا پہلا تعارف’’دستک‘‘ کے زیرِ عنوان کالم ہے جس میں دو باتیں نمایاں ہیں
،پاکستان اور انسان۔انکی تحریروں میں درد ضمیروں کو جھنجھوڑدیتا ہے۔عورتوں
کو معاشرے میں درپیش چیلنجز اور مسائل کو انہوں نے خوبصورتی، عام فہم انداز
میں بڑی خوش اسلوبی سے قلم بند کیا ہے ۔
روبینہ فیصل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اِس محفل میں نمایاں
ادبی شخصیات سے ملاقات میرے لئے باعثِ اعزاز و مسرت ہے۔اپنے قلمی سفر کے
حوالے سے کہا کہ میں نے جو دیکھا جو محسوس کیا جسے برداشت کیا ،وہی لکھا
ہے،درحقیقت یہ انسان کی اندرکی کہانیاں ہیں ۔پاکستان اور کینیڈا میں بکھری
اپنے ہی لوگوں کی کہانیاں اکٹھی کیں اور اس سفر میں میری اپنی ذات کو درپیش
سفر بھی شامل ہے۔ان کہانیوں میں محبت ہے،ڈھیروں خواب ہیں، جدائی ہے، بے
وفائی ہے اور وقت کی ستم ظریفی ہے ۔میں نے بغیر ڈرے بغیر دبے بولڈ موضوعات
کو چنا ہے ۔میں نے کینیڈا کے سوشل ایشوز کو ہائی لائیٹ کیا ہے۔پاکستان نے
اقوامِ عالم میں دیگر ممالک کے برعکس اپنے تشخص کو بلند کرنے کے لئے کوئی
خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے،اسی لئے ہمیں خود ہی اپنا سفیر بن کر پاکستان
کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اِس کے روشن پہلو کو اجاگر کرنا ہے۔انہوں نے
مزید کہا ہے کہ زندگی کی آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر بہادری سے جینے کا ہنر
مجھ میں میری امی کی طرف سے آیا ہے۔
گفتگوکا سلسلہ بڑھا تو ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے کہا کہ عورت جہاں بھی ہواسکے
مسائل اور دکھ ایک ہی ہیں ،معاشرے میں عورت اپنا خاص مقام رکھتی ہے ۔بہن کے
روپ میں گھر کا سکون ہے ۔بیوی کے روپ میں گھر جنت ہے اور ماں کے کردار پر
تو فرشتے بھی سجدہ ریز ہیں۔عورت ہر روپ میں ہر مقام پر بے مثال ہے۔سچ تو یہ
ہے کہ عورت کو تو خود عورت بھی صیح جانچ نہیں پائی۔انہوں نے بچوں کی اچھی
تربیت کے حوالے سے بھی عورت کے کردار پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ
روبینہ نے اپنے افسانوں میں کرداروں، مکالموں سے پورا انصاف کیا ہے۔ انہوں
نے معاشرے میں عورت کے کرداراور اِس کے حقوق و فرائض بارے اپنی رائے کا
اظہار بھی کیا۔سلمی اعوان نے بھی روبینہ فیصل کو اُنکے پہلے افسانوں کے
مجموعہ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کی اور محمد ظہیر بدر کی ادبی خدمات کو
بھی سراہا ۔
وقاص عزیز نے روبینہ فیصل کے افسانے ’’ہیپی پرنسز‘‘ سے اقتباسات سماعتوں کے
نذر کرتے ہوئے اِنکی سماج، تہذیب، رسم و رواج اور تلخ حقیقتوں پر کڑی نظر
کو سراہا اور مصنفہ کو جذبہ حب الوطنی کے ساتھ لکھنے پر خراجِ تحسین بھی
پیش کیا اور افسانے کی فرمائش بھی کی۔مسز منیزہ وقاص نے روبینہ فیصل کے
افسانوں کو حقیقت نگاری سے وابستہ قرار دیا ور کہا کہ یہ سماجی ، معاشرتی
،معاشی اور سیاسی زندگیوں کے ہر پہلو سے آشنا ہیں ،مگر اِس موقع پر انہوں
نے عورتوں کے حقوق وفرائض کے حوالے سے روبینہ اور ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کے
نقطہ نظر سے قدرے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسلام کے مقرر کردہ حدود میں
رہا جائے تو عورت مسائل سے دوچار نہیں ہوتی۔راجہ نیئر کا کہنا تھا کہ
روبینہ نے عظمت رفتہ کا احساس، امید و یقین کی تخم ریزی، قلم سے آدم گری کا
مقدس کام بڑے احسن انداز میں نبھایا ہے۔
محمد ظہیر بدر نے بھی اِ س موقع پر’’ عورت اور اسلام‘‘ کے حوالے سے پرمغز
گفتگو بھی کی ۔ڈی جی پنجاب لائبریری ڈاکٹر ظہیر بابرنے روبینہ فیصل کی قلمی
خدمات کو خوب سراہاتے ہوئے قائد اعظم لائبریری کے زیراہتمام بھی انکے اعزاز
میں تقریب کے انعقاد کی پیش کش کی تاکہ اہل ذوق حضرات کی کثیر تعداد انکی
سیر حاصل گفتگو سے مستفیدہو ں۔صدرِ محفل نیلم احمد بشیر نے اپنے اظہار خیال
میں کہاکہ روبینہ اپنی ذات میں گم نہیں ہیں بلکہ گردو پیش پہ ان کی گہری
نظر ہے اور انکی تمام باتیں میرے دل کی باتیں ہیں ۔انہوں نے عورتوں کے
مسائل پر جس انداز میں لکھا ہے یقینا خراجِ تحسین کی مستحق ہیں۔۔میزبان
محفل محمد ظہیر بدر کے اختتامیہ کلمات اورگروپ تصویری سیشن کے ساتھ یہ
خوبصورت نشست شام ڈھلنے سے قبل اپنے اختتام کو پہنچی، مہمانان کے لئے
پرتپاک و پرتکلف چائے کی ضیافت کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
|