سوات۔۔۔۔ حقائق اور پراپیگنڈہ

سوات پھولوں، رنگوں،سر سبز و شاداب پہاڑوں اور بہتے آبشاروں کی خوبصورت وادی ہے جو ہزاروں سال سے ایک زرخیز ثقافت کی امین رہی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ریاست سوات پاکستان میں شامل ہوئی اور بعد میں اسے پاکستان میں ضم کردیا گیا۔ یہاں کے لوگ انتہائی محنت کش ہیں میں نے اپنے ایک اور مضمون میں بھی ذکر کیا تھا کہ کالام کے پہاڑوں پر چڑھتی ہوئی وہ بوڑھی عورت مجھے آج بھی یاد ہے جو اپنے سر پر لکڑیوں کا اتنا بڑا گٹھا اٹھائے ہوئے تھی جسے ہمارے میدانوں کا ایک جوان آدمی بھی بمشکل اٹھائے۔ یہ تو کل کا سوات تھا لیکن آج کا سوات جس عذاب سے گزر ا ہے وہ آج بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ اربوں روپے کا زرعی نقصان جسکا محتاط تخمینہ ۸۱ ارب روپے لگایا گیا سیاحت سوات کی سب سے بڑی صنعت ہے لیکن اس کو بھی ۶ ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ آئی ڈی پیز کی صورت میں لاکھوں سواتی گھر بدر ہوئے اور جون، جولائی کی تپتی دوپہریں کھلے آسمان تلے گزارنے پر مجبور ہوئے۔ طالبان اور مولوی فضل اللہ انکے لیے دہشت اور ظلم کا نشان بن گئے تھے یہ تو تصویر کا ایک رخ تھا جو اس وادی جنت نظیر نے دیکھا جبکہ اس تصویر کا دوسرا رخ عزم، ہمت اور شجاعت کی وہ داستان ہے جو پاک فوج نے یہاں رقم کی نہ صرف یہ کہ وادی کو طالبان کی دہشت سے صاف کیا بلکہ اس خوف کا خاتمہ کیا جو چوکوں اور درختوں سے لٹکی لاشوں سے اس کے ہر گلی کوچے میں بکھرا ہوا تھا۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لیے پاک فوج کو اپنے ہیروں جیسے چمکتے گھبرو جوانوں اور افسروں کی جانوں کی قربانیاں دینا پڑی اور انہیں شہیدوں اور شہادتوں کا ثمر سوات کو امن کی صورت میں ملا۔ آئی ڈی پیز کی گھروں کو واپسی بھی اسی جری فوج کا کارنامہ تھا۔

سوات سے اب بھی جب اکا دکا واقعات کی خبر آتی ہے تو دل پریشان ہو جاتا ہے کہ خدانخواستہ بیرونی ایجنسیاں اور ملک دشمن عناصر پھر جڑ نہ پکڑ جائیں اور ساتھ ہی جب یہ بھی سننے میں آئے کہ پاکستان آرمی وہاں ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہے تو فکر اور پریشانی فطری امر ہے۔ سوات سے میرا تعلق کچھ ایسا ہے کہ وہاں کے لوگوں کو تکلیف میں دیکھنا بلکہ سننا بھی بڑا مشکل ہے اور جذباتی لگاؤ کی وجہ یہ ہے کہ میں نے بچپن کے کچھ خوبصورت سال اس وادی میں گزارے۔ دوسری طرف افواج پاکستان کے بارے میں بھی کوئی ایسی بات سننا گوارا نہیں کیونکہ یہ ہماری حفاظت کے امین ہیں پھر کیسے یہ توقع کی جائے کہ جنہوں نے اس وادی کو دہشتگردوں سے چھڑایا وہ ہی اس کے لیے وبال جان بن جائیں۔ خیر اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے جب سوات کے سکول کے زمانے کے کچھ ہم جماعتوں سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ سنا انہوں نے بھی یہی ہے لیکن وہ لوگ فوج کو سوات کا نجات دہندہ قرار دے رہے تھے اور انہوں نے ہی بتایا کہ افواج پاکستان نے نہ صرف سوات کو یہ کہ مولوی فضل اللہ جیسے بھارتی کارندوں سے نجات دلائی بلکہ یہاں کے لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ وہ لوگ جو تین سال تک شدید ذہنی دباؤ اور تناؤ میں رہے انکو ان حالات سے نکالنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہاں فلاحی کام کیے جائیں اور پاک فوج یہ فرائض بھی خوش اسلوبی سے ادا کر رہی ہے۔ متعدد سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر میں پاک فوج کا حصہ قابل قدر ہے اسکے علاوہ مینگورہ میں شہدا پارک بھی سوات کے لوگوں کو ہمیشہ ان جانبازوں کی قربانیاں یاد دلاتا رہے گا۔ مینگورہ میں ایک لائبریری کا قیام بھی فوج ہی کے مرہون منت ہے۔ ایک دلچسپ بات جو معلوم ہوئی وہ یہ کہ اوڈی گرام جہاں بدھ تہذیب کے آثار بھی موجود ہیں وہاں ایشیا کی سب سے پرانی مسجد بھی دریافت کی گئی اور اسکی تعمیر نو بھی پاک فوج نے ہی کی۔

مقصد ان اقدامات کو یہاں بیان کرنے کا یہ ہے کہ اگر واقعی سوات میں فوج نے یا فوج کی مدد سے یہ سب کچھ کیا گیا تو اس کے خلاف پراپیگنڈہ کون کر رہا ہے اور کیوں کیا جا رہا ہے میرے خیال میں اس کا جواب انتہائی سادہ ہے کہ وہ قوتیں یعنی را، رام، موساد، سی آئی اے اور ان کے چند پاکستانی کارندے جنہوں نے سوات کی وادی کی خوبصورتی اور وہاں کے امن کو پامال کیا اب بھی متحرک ہیں اور وہ جانتی ہیں کہ کون انہیں دبا سکتا ہے لہٰذا وہ انہیں کے خلاف اپنا پراپیگنڈہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دشمن تو ظاہر ہے کہ اپنا وار کرے گا کیونکہ شکست قبول کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں لیکن فتح کو قائم رکھنا بھی انتہائی مشکل ہے۔ ہمارے ملک میں تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہم اداروں کو مضبوط نہیں کر رہے اور ہر ادارہ اپنے دفاع کے لیے خود ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے ادارے اس ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارا میڈیا اس ذمہ داری کو کسی حد تک پورا کر رہا ہے لیکن وہ بھی اس پراپیگنڈے کا جواب اتنے زور و شور سے نہیں دے رہا۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگیں فوجیں لڑتی ہیں لیکن جنگ کے بعد پورے ملک کے حالات کو معمول پر لانا ہوتا ہے جس کی ذمہ داری تمام ملکی اداروں اور پورے معاشرے کی ہوتی ہیں اور آجکل تو میڈیا وار نے بعد از جنگ حالات کو زیادہ مشکل یوں بنا دیا ہے کہ شکست کو زیادہ دلخراش اور فتح کو زیادہ دلاویز بنا دیتا ہے۔ اور فاتحین سے متعلق نفرت کو ہوا دینا بھی آسان ہے اور یہی کام پاک فوج کے خلاف کیا گیا اور کیا جارہا ہے۔

فوج سوات میں اپنا فرض پورا کر رہی ہے اگرچہ اپنے فرائض کا بڑا حصہ پورا کر چکی ہے تاہم اب بھی امن وامان کو برقرار رکھنے اور پائیدار بنانے کے لیے اسے وہاں رکنا پڑ رہا ہے۔ اب یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری بہر صورت نبھائے اور سوات میں امن وامان کی بحالی میں فوج کے کردار کو سراہتے ہوئے اسکے خلاف منفی پراپیگنڈے کا مزید مؤثر جواب دے اور جو ایجنسیاں اور انسانی حقوق کے علمبردار یہ خبریں پھیلا رہے ہیں ان کو سوات میں بھارتی، امریکی، اسرائیلی اور افغانی کردار سے آگاہ کرے۔ وہ بھارتی ساختہ اسلحہ، کرنسی جو ان علاقوں سے برآمد ہوا اسے بین الاقوامی میڈیا کے سامنے پیش کرے بلکہ غیر مختون لاشوں سے بھی انہیں آگاہ کیا جائے اور پاک فوج کے انتہائی مثبت کردار کو مزید اجاگر کرے۔ میڈیا پر انکے فلاحی کاموں کو زیادہ سے زیادہ پیش کیا جائے تاکہ اصل صورت حال سب کے سامنے آسکے کیونکہ ملکی دفاع کی ذمہ داری کو ہمیں ہر سطح پر پورا کرنا ہوگا یہی مضبوط، مستحکم اور زندہ قوموں کا کردار ہوتا ہے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552745 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.