اس پیاری بکری جی کے نام

اے پیاری بکری جی کیا حال ہیں۔ آپ نے مجھے پہچان تو لیا ہوگا۔ میں وہی ہوں جب لاہور کے ایک پوش علاقے میں آپ کا مالک آپ کو بڑی بے رحمی سے گھسیٹتا، مارتا ہوا جا رہا تھا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ آپ کو یاد ہے آپ کے ظالم مالک سے کتنا کھپنا پڑا تھا۔ سنائیں کیا حال ہیں۔ میں بھی لاہور ہی میں رہتا ہوں۔ کاش مجھے آپ کے گھر کا پتہ ہوتا تو میں آپ سے ملنے چلا آتا۔ ویسے بھی اس وقت آپ سہمی ڈری ہوئی تھیں پتہ پوچھنا مناسب بھی نہیں تھا۔ یقین کریں آج اتنے سال گزر گئے میں آپ کو بھول نہیں سکا۔ امید ہے آپ نے بھی مجھے یاد رکھا ہوگا۔ بس ایک درخواست ہے کہ مجھے اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھئے گا۔ آپ کے مالک کے بعد میری اور بھی بڑے لوگوں سے بحث ہوئی۔ کئی دفعہ تو لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ لیکن میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔ بس جلتا رہتا ہوں۔ کسی سے بات بھی تو نہیں کر سکتا۔ سوچا آج آپ ہی سے دل کا بوجھ بانٹ لوں۔ اب تو حالات اور بھی خراب ہو گئے ہیں۔ سڑکوں پر اکثر گدھوں کو موٹے موٹے ڈنڈوں سے بڑے ظالمانہ طریقے سے مار پڑتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ دھوپ، گدھے کی سکت سے زیادہ بوجھ، اوپر سے موٹے ڈنڈے کے ساتھ مار___بس کیا کروں، گدھے روتے روتے میرے پاس سے گزر جاتے ہیں اور میں ان کو دیکھ دیکھ کر کڑھتا رہتا ہوں۔ اب تو اس ملک کے رہنے والوں نے بیچارے طوطوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ ایک اڑنے والے آزاد پرندے کو کو ہمیشہ کیلئے ایک پنجرے میں بند کر دیتے ہیں۔ اور جب دل کرتا ہے اس کو دیکھ دیکھ کر ہنستے رہتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بیچارے کتوں کے بھی حالات پہت برے ہیں۔ جن کے گھر بڑے ہیں وہاں تو کتے بڑے آرام سے رہتے ہیں۔ لیکن جن کے گھر چھوٹے ہیں یقین کریں وہاں کتوں کے ساتھ بھی بڑا ظلم ہوتا ہے۔ سارا دن گلے میں پٹہ ڈال کر ایک کونے پر باندھ دیتے ہیں۔ دن رات ایک ہی جگہ پر بیٹھنے کی اذیت کا تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا۔ کسی کے پاس اگر وقت ہو تو دن میں کسی وقت دو چار منٹ کیلئے باہر کا چکر لگوا دیتے ہیں ورنہ دن رات وہیں بندھا رہتا ہے۔ اور آپ یقین کریں اس تپتی دھوپ میں کبوتروں کو چھتوں کے اوپر دڑبوں میں رکھا جاتا ہے اور دڑبے بھی ایسے کہ، نیچے فرش اور باقی چاروں طرف یا تین طرف جالی اور دڑبہ بند۔ اب اگر کبوتر آزاد ہوتے تو گرمی سے بچنے کیلئے کسی درخت یا سایہ دار جگہ پر چلے جاتے لیکن کبوتر سارا دن دھوپ میں ہی بند رکھے جاتے ہیں۔ کئی کبوتر تو مر جاتے ہیں۔ لیکن ان پر کوئی رحم نہیں کیا جاتا۔ آپ کو جب بھی اپنے مالک کے ظلم وستم کا نشانہ بننا پڑے تو بس ان گدھوں، طوطوں اور کبوتروں کا حال یاد کر لیا کریں۔ آپ اپنی مصیبت بھول جائیں گی اور بس آپ کو کیا بتاؤں دکھ ہی دکھ ہیں- یہ جو پاکستانی بچے ہیں، پھول جیسے ، پیارے پیارے۔۔ان کا بھی برا حال ہے۔ یہ اگر نابالغ ہوں تو ان کا کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا۔ جب تک کہ بالغ نہ ہو جائیں مر جائیں تو سیدھا جنت میں۔ لیکن کچھ کے علاوہ، ان کے ماں باپ ان کو بھی نہیں چھوڑتے۔ بس ذرا سی کوئی بات ہو جائے تڑاخ، تڑاخ تھپڑ پڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔ لڑائی خاوند بیوی کی آپس میں ہوتی ہے۔ غصہ بچے پر نکلتا ہے۔ عام طور پر یہ ظلم ظالم باپ ہی کرتے ہیں۔ اکثر مدرسوں میں بچوں کو ایسے ہی مارا جاتا ہے جیسے سڑکوں پر گدھوں کو۔ آپ یقین کریں ابھی حال ہی میں ایک خاوند جو اولاد نہیں چاہ رہا تھا اس نے مار مار کر ماں کے پیٹ میں موجود بیٹی ہی کی ہڈیاں توڑ دیں۔اب سوچیں اس کی ماں کو کتنی تکلیف پہنچی ہوگی۔ بیویوں پر ظلم بھی بہت عام ہے۔ میں نے خود ایک عورت کو بالکل گدھے کی طرح مار پڑتے دیکھی ہے۔ ارے آپ رو رہی ہیں۔ ان انسانوں کی خاطر جو جانوروں پر ظلم کرنے سے باز نہیں آتے۔ دیکھیں آپ روئیں مت۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کو رلا دیا لیکن میں بھی کیا کروں۔ کس کے پاس جا کر دل کا بوجھ ہلکا کروں۔ ان ظالم لوگوں سے تو کوئی بات کرنا ہی بیکار ہے۔ یہ تو اپنے پیدا کیے بچوں کو نہیں چھوڑتے تو جانور، پرندے تو پھر پرائے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ پتہ نہیں کون کون سا برا کام کرتے ہیں۔ یہ اس ملک کے حالات انہیں لوگوں کے برے کرتوت ہی کی وجہ سے یہاں تک پہنچے ہیں اور جب ان سے بچوں کے حقوق کی بات کرو۔ تو اسی وقت انہیں والدین کے حقوق یاد آ جاتے ہیں۔ انہیں یہ یاد نہیں آتا کہ اسی اسلام میں بچوں کے بھی حقوق ہیں۔ سب بڑے آپس میں مل جاتے ہیں۔ یہ والدین کے حقوق کو بچوں کے ساتھ زیادتی اور ظلم کو چھپانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ بچوں کے حقوق کی آواز کو دبا دیتے ہیں۔ اسلام میں بچوں کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ انہیں چہرے پر مارنا منع ہے۔ اصلاح کے طور پر مارنا بھی پڑے تو اس کا طریقہ ہے۔ مارنے کی کچھ حدود ہیں۔ بچے ماں باپ کے پاس امانت ہوتے ہیں۔ ماں باپ سے بچوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ یہ سب کچھ انہیں دکھانے سے بھی دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ سب بڑے ماں باپ ہوتے ہیں اسلئے ایک دوسرے کے ظلم پر پردہ ڈالنے کیلئے صرف ماں باپ کے حقوق بتاتے رہتے ہیں۔ حکمرانوں کا فرض ہے کہ بچوں، جانوروں، پرندوں پر ظلم، زیادتی نہ ہونے دیں۔ لیکن حکومت، عدالت کوئی بھی جانوروں، پرندوں اور انسانی بچوں کے حقوق کی کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ آئیں مل کر دعا کرتے ہیں کہ چیف جسٹس ہی جانوروں، پرندوں، انسانی بچوں کے حقوق کیلئے کوئی فوری ایکشن لے لیں اور انسانی بچوں، جانوروں کو مارنا قانونی طور پر جرم قرار پائے، اڑنے والوے پرندوں کو قید کرنا بھی ممنوع ہو جائے۔ پیاری بکری جی چلتا ہوں لیکن آپ یہ دعا کرتی رہنا اور آخر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہاں میں یہ کر سکتا ہوں کہ جب میری شادی ہوگی تو میں اپنے بچوں پر ظلم نہ کروں اور ہمارے گھر میں کوئی طوطا، کبوتر قید نہ ہو اور یہ میں ضرور کروں گا۔ آپ دیکھ لینا۔ اچھا پھر کبھی ملیں گے۔ دعاؤں میں یاد رکھنا۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117147 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More