لفظ زنا کی تحقیق( آئمہ اربعہ کے نزدیک)

زنا کے لغوی معنی
زنا کا لغوی معنی ہے پہاڑ پر چرھنا، سائے کا سکڑنا، پیشاب کو روک لینا، حدیث میں ہے :
لا یصلی احد کم و ھو زناء تم میں سے کوئی شخص پیشاب روکنے کی حالت میں نماز نہ پڑھے۔
(مسند الربیع بن حبیب، ج ا ص ٦٠، مکتبتہ الثقافۃ العربیہ بیروت)
اسی طرح حدیث میں ہے :
حضرت ابو ہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نماز نہ پڑھے کہ وہ پیشاب اور پاخانے کو روک رہا ہو۔ اس حدیث کی سند قوی ہے۔
(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٠٧٢، موارد الظمآن رقم الحدیث : ١٩٥، تلخیص الحبیر رقم الحدیث : ٥٦٦، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ٧٦٦، ١٧٧١)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کھانا آجائے تو نماز (کامل) نہیں ہوتی اور نہ اس وقت جب نمازی پیشاب اور پاخانے کو روک رہا ہو۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٦٠، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٨٩، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٨٠٢، تاریخ دمشق لابن عساکر ج ٣٤ ص ١٦٤، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)۔
علامہ راغب اصفہانی نے لکھا ہے کہ زنا کا معنی ہے کسی عورت کے ساتھ بغیر شرعی کے وطی (مباشرت) کرنا۔
(مختار الصحاح ١٧٠، النہایہ ج ٢ ص ٢٨٤، المفردات ج ا ص ٢٨٤)
قاضی عبد النبی بن عبد الرسول احمد نگری لکھتے ہیں :
الزنا : اس اندام نہانی میں وطی (مباشرت، جماع) کرنا جو وطی کرنے والے کی ملکیت یا ملکیت کے شبہ سے خالی ہو۔
(دستور العلماء ج ٢ ص ١١٣، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢١ ھ)
سید مرتضی حسین زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں :
لغت میں زنا کا معنی کسی چیز پر چڑھنا ہے اور اس کا شرعی معنی ہے کسی ایسی شہوت انگیز اندام نہانی میں حشفہ (آلہ تناسل کے سر) کو داخل کرنا جس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو۔ (تاج العروس ج ١٠ ص ١٦٥، مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ مصر، ١٣٠٦ ھ)۔
فقہاء حنبلیہ کے نزدیک زنا کی تعریف
علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں :
اہل علم کا اس شخص کے زانی ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو کسی ایسی عورت کی قبل (اندام نہانی) میں وطی کرے جو حرام ہو اور وطی کسی شبہ سے نہ ہو اور دبر (سرین) میں وطی کرنا بھی اس کی مثل زنا ہے کیونکہ یہ بی اس عورت کی فرج (شرمگاہ) میں وطی کرنا ہے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے اور نہ ملکیت کا شبہ ہے۔ لہٰذا یہ قبل (اندام نہانی) میں وطی کی طرح ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
………(النساء : ١٥) تمہاری وہ عورتیں جو بے حیائی کا کام کرتی ہیں۔
اور دبر میں وطی کرنا بھی بے حیائی کا کام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قومِ لوط کے متعلق فرمایا :
………(الاعراف : ٨٠) کیا تم بے حیائی کا کام کرتے ہو ؟
یعنی مرد، مردوں کی دُبر میں وطی کرتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ پہلے قومِ لوط کے لوگ عورتوں کی دُبر میں وطی کرتے تھے پھر مردوں کی دُبر میں وطی کرنے لگے۔
علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں : اگر کوئی شخص مردہ عورت سے وطی کرے تو اس میں دو قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس پر حد ہے اور یہی امام اوزاعی کا قول ہے، کیونکہ اس نے آدم زاد کی فرج میں وطی کی ہے پس یہ زندہ عورت سے وطی کے مشابہ ہے، نیز اس لئے کہ یہ بہت عظیم گناہ ہے کیونکہ اس میں بے حیائی کے ارتکاب کے علاوہ مردہ کی عزت کو بھی پامال کرنا ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس پر حد نہیں ہے اور یہ حسن کا قول ہے۔ ابوبکر نے کہا میرا بھی یہی قول ہے مردہ سے وطی کرنا وطی نہ کرنے کی مثل ہے، کیونکہ اس پر شہوت نہیں آتی اور لوگ اس سے کراہت محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے اس سے زجر کو مشروع کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور حد کو زجر کے لئے مشروع کیا گیا ہے… اور نابالغ لڑکی سے زنا کرنے کا حکم یہ ہے کہ اگر اس سے وطی کرنا ممکن ہو تو اس سے وطی کرنا زنا ہے اور اس سے وطی کرنے پر بالغہ سے وطی کی طرح حد واجب ہوگی۔
علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں : اگر کس شخص نے محرم سے نکاح کرلیا تو یہ نکاح بالا جماع باطل ہے، اور اگر اس سے وطی کرلی تو اکثر اہل علم کے قول کے مطابق پر اس پر حد واجب ہے۔ حسن، جابر بن زید، امام مالک، امام شافعی، امام ابو یوسف، امام محمد، اسحاق، ابو ایوب، ابن ابی خیثمہ کا یہی قول ہے۔ امام ابو حنیفہ اور ثوری کا قول یہ ہے کہ اس پر حد نہیں ہے، کیونکہ یہ ایسی وطی ہے جس (کے جواز) میں شبہ پیدا ہوگیا ہے اس لئے اس وطی سے حد واجب نہیں ہوگی، جیسے کوئی شخص اپنی رضاعی بہن کر خرید کر اس سے وطی کرے۔ اور شبہ کا بیان یہ ہے کہ اس نے محرم سے نکاح کرلیا اور نکاح اباحت وطی کا سبب ہے ( اور حضرت آدم کی شریعت میں محارم مثلاً بہن سے نکاح جائز تھا) اس شبہ کی وجہ سے اس پر حد لازم نہیں ہوگی۔ (لیکن ایسے شخص کو تعزیر اً قتل کردیا جائے گا، کیونکہ ایک شخص نے اپنی سوتیلی ماں سے شادی کرلی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا سرقلم کرنے کا حکم دیا۔ (یعنی اس پر حد جاری نہیں کی)۔ نیز حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص محرم سے وطی کرے اس کو قتل کردو۔ (جامع ترمذی ص ٢٣١ مطبوعہ نور محمد کراچی، اور یہی امام ابو حنیفہ کی دلیل ہے۔ سعیدی غفرلہ)۔
علامہ ابن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں کہ امام احمد کے اس مسئلہ میں دو قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس پر حد واجب ہے، کیونکہ اس نے ایسی عورت کے ساتھ وطی کی ہے جس کے حرام ہونے پر اجماع ہے اور اس میں ملکیت کا کوئی شبہ نہیں ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس پر حد نہیں ہے جیسا کہ جامع ترمذی، سنن ابودائود اور سنن ابن ماجہ میں ہے۔ حضرت براء کہتے ہیں میری اپنے چچا سے ملاقات ہوئی درآں حالیکہ ان کے ہاتھ میں جھنڈا تھا۔ میں نے کہا کہاں جا رہے ہیں، انہوں نے کہا ایک شخص نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کرلیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اس کی گردن مارنے اور اس کا مال ضبط کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ نیز جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص محرم سے وطی کرے اس کو قتل کردو۔“
علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ امام احمد یہ قول راجح ہے کیونکہ یہ حدیث کے مطابق ہے۔ نیز علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ جو شخص بغیر نکاح کے محرم سے زنا کرے اس میں بھی وہی اختلاف ہے جو نکاح کے بعد وطی کرنے میں اختلاف ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ج ٩ ص ٥٥۔ ٥٣، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤٠٥ ھ)
فقہاء شافعیہ کے نزدیک زنا کی تعریف
علامہ یحییٰ بن شرف نووی لکھتے ہیں : مراد اپنی حشفہ (سپاری) کو کسی ایسی فرج ( اندام نہانی) میں داخل کردے جو طبعاً مشتہیٰ ہو اور اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو تو اس وطی پر حد واجب ہوتی ہے اگر زانی محصن (شادی شدہ) ہو تو اس کی حد رجم ہے اور اس کے ساتھ اس کو کوڑے نہیں لگائے جائیں گے، اور اگر غیر محصن (غیر شادی شدہ) ہو تو اس کی حد کوڑے اور شہر بدر کرنا ہے، اس میں مرد اور عورت برابر ہیں۔
محصن ہونے کی تین شرطیں ہیں : پہلی شرط مکلف ہونا ہے، اس لئے بچہ اور مجنون پر حد نہیں لگے گی لیکن ان کو زجرو توبیخ کی جائے گی، دوسری شرط ہے حریت پس غلام، ام ولد اور جس کا بعض حصہ غلام ہو محصن نہیں ہیں، اور تیسری شرط ہے نکاح صحیح ہونا۔ (روضتہ الطالین و عمدۃ المفتین ج ١٠ ص ٨٦، مکتب اسلامی بیروت، ١٤٠٥ ھ)
فقہاء مالکیہ کے نزدیک زنا کی تعریف
علامہ ابو عبد اللہ شتانی مالکی لکھتے ہیں :
علامہ ابن حاجب مالکی نے زنا کی یہ تعریف کی ہے، ’ کسی ایسے فرد کی فرج میں عمداً وطی کرے جو اس کی ملک میں بالاتفاق نہ ہو ” فرج کی قید سے وطی خارج ہوگئی جو غیر فرج میں ہو، اور آدمی کی قید سے وہ وطی خارج ہوگئی جو جانور کے ساتھ وطی ہو، کیونکہ جانور کے ساتھ وطی کرنے میں حد نہیں، تعزیز ہے۔ (اکمال اکمال العلم ج ٤ ص ٤٤٥، دار الکتب العلمیہ بیروت، طبعی قدیم)۔
فقہاء احناف کے نزدیک زنا کی تعریف
ملک العلماء علامہ کا سانی حنفی لکھتے ہیں جو شخص دار العدل میں احکام اسلام کا التزام کرنے کے بعد اپنے اختیار سے زندہ مشتہاۃ عورت کی قبل (اندانی نہانی) میں وطی کرے دارآں حالیکہ و قبل حقیقتا ملکیت اور ملکیت کے شبہ اور حق ملک اور حقیقتا ً نکاح اور شبہ نکاح اور نکاح اور ملک کے موضع اشتباہ کے شبہ سے خالی ہو۔ (بدائع الصنائع ج ٧ ص ٣٣) علامہ ابن ہمام نے بھی یہی تعریف کی ہے۔ (فتح القدیر ج ٧ ص ٣٣ سکھر)۔
اس تعریف کی قیود کی وضاحت حسب ذیل ہے :
وطی : عورت کی اندام نہانی میں بقدرِ سپاری آلہ تناسل کو داخل کرنا، پس جس وطی سے حد واجب ہوگی اس میں بقدر سپاری داخل ہونا ضروری ہے اور اس سے کم میں حد واجب نہیں ہوگی۔
حرام : کسی مکلف شخص نے اجنبی عورت سے وطی کی ہو تو اس کو حرام کہا جائے گا، اگرچہ بچہ یا مجنون نے وطی کی تو اس پر حرام کا حکم نہیں لگے گا، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے تین شخصوں سے قلم تکلیف اٹھا لیا گیا، بچہ سے حتیٰ کہ وہ بالغ ہوجائے، سوئے ہوئے سے حتی ٰ کہ وہ بیدار ہوجائے اور مجنون سے حتیٰ کہ وہ ٹھیک ہوجائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی (رقم : ١٤٢٣) اور امام ابو دائود (رقم : ١٤٤٠١) نے روایت کیا ہے۔
قبل
عورت کی اندام نہانی کو کہتے ہیں اس قید کی وجہ سے مرد یا عورت کی دُبر (سرین) میں وطی امام ابو حنیفہ کے نزدیک زنا کی تعریف سے خارج ہوگئی، اس کے برخلاف امام ابو یوسف، امام محمد اور فقہاء مالکیہ، اور فقہاء حنبلیہ عورت کی دُبر میں وطی کو بھی زنا قرار دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ دُبر میں وطی کو لواطت کہتے ہیں اور اس کی حد میں صحابہ کا اختلاف تھا اگر یہ زنا ہوتا تو اختلاف نہ ہوتا، نیز زنا اس لئے حرام ہے کہ اس سے نسبت مشتبہ ہوتا ہے اور بچہ ضائع ہوتا ہے اور لواطت میں صرف نطفہ ضائع ہوتا ہے جیسا کہ عزل میں ہے۔
عورت : اس قید کی وجہ سے جانور کے ساتھ وطی، زنا کی تعریف سے خارج ہوگئی، کیونکہ یہ ایک نادر چیز ہے اور طبعیت سلیمہ اس سے نفرت کرتی ہے۔
زندہ : اس قید کی وجہ سے مردہ کے ساتھ وطی، زنا کی تعریف سے خارج ہوگئی، کیونکہ یہ بھی ایک نادر امر ہے اور طبیعت سلیمہ اس سے نفرت کرتی ہے۔
مشتہاۃ: یعنی اس عورت سے وطی کی جائے جس پر شہوت آتی ہو اتنی چھوٹی لڑکی جس پر شہوت نہ آتی ہو اس سے وطی کرنا زنا نہیں ہے۔ ( ہرچند کہ اتنی چھوٹی لڑکی سے وطی کرنے والے پر تعزیر ہوگی)۔
حالتِ اختیار : یعنی وطی کرنے والے کو اختیار ہو، اسی طرح حد کے وجوب کے لئے وطی کرانے والی عورت کا مختار ہونا بھی ضروری ہے، اس لئے مکرہ (جس پرجبر کیا گیا ہو) پر حد نہیں ہے، کیونکہ حافظ الہیثمی نے امام طبرانی کی متعدد اسانید کے ساتھ یہ حدیث ذکر کی ہے : حضرت عقبہ بن عامر، حجرت عمران بن حصین، حضرت ثوبان، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت سے خطاء، نسیان اور جس کام پر جبر کیا گیا ہو (کے گناہ کو) اٹھا لیا گیا۔ (مجمع الزوائد ج ٧ ص ٢٥٠، دار الکتاب العربی)
اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ اگر عورت پر جبر کرکے اس کے ساتھ وطی کی جائے تو اس پر حد نہیں ہے، لیکن مرد میں اختلاف ہے۔ امام شافعی اور محققین مالکیہ کے نزدیک اگر مرد پر جبر کرکے اس سے وطی کرائی جائے تو اس پر حد ہے نہ تعزیر۔ فقہاء حنابلہ کے نزدیک اس پر حد لگائی جائے گی کیونکہ اس کے آلہ کا متنشر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اکراہ نہیں ہے۔ اور وہ اپنے اختیار سے وطی کر رہا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک مرد پر بھی حد نہیں ہے کیونکہ انتشار اس کے مرد ہونے کی دلیل ہے، اختیار کی دلیل نہیں ہے۔ امام ابو یوسف، اور امام محمد کا بھی یہی نظریہ ہے۔
دار العدل :
دارالعدل سے مراد دار اسلام ہے، کیونکہ دار الحرفب اور دار الکفر میں قاضی کو حد جاری کرنے کی قدرت نہیں ہے یعنی اگر کوئی شکص دار الحرب میں یاد ارالکفر میں زنا کرے گا تو بھی وہ اسلامی سزا سو کوڑوں یا رجم کا مستحق ہے، لیکن چونکہ قاضی اسلام، دار الکفر یا دار الحرب میں اسلام سزائیں نافذ کرنے پر قادر نہیں ہے اس لئے اس پر حد جاری نہیں ہوگی، دار الکفر میں بھی زانی سزا کا مستحق ہے اور اس کا یہ فعل گناہ ہے جیسا کہ سود، چوری، ڈاکہ، قتل اور دیگر جرائم اور دار الحرب میں ناجائز اور گناہ ہیں، اسی طرح زنا بھی وہاں ناجائز اور گناہ ہے۔
احکام اسلام کا التزام : اس قید کی وجہ سے حربی مستامن خارج ہے، کیونکہ اس نے احکا اسلام کا التزام نہیں کیا، مسلمان اور ذمی اور زنا کریں گے تو ان پر حدی جاری کی جائے گی۔
حقیقت ملک سے خالہ ہونا : اگر کسی شخص نے ایسی باندی سے وطی کرلی جو مشترکہ ہے اس کی اور کسی کی ملکیت میں ہے، یا اس نے ایسی باندی سے وطی کی جو اس کی محرم تھی تو چونکہ وہ حقیقتاً اس کی ملکیت میں تھی اس لئے اس کا یہ فعل ہرچند کہ ناجائز ہے لیکن زنانہیں ہے اور اس پر حد نہیں ہے۔
حقیقتِ نکاح سے خالی ہونا : اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے حالتِ حیض یا نفاس میں وطی کرلی یا روزہ دار یا محرمہ بیوی سے وطی کرلی یا ایلاء یا ظہار کے بعد وطی کرلی تو ہرچند کہ یہ فعل گناہ ہے لیکن زنانہیں ہے، کیونکہ عورت حقیقتا ً اس کے نکاح میں موجود ہے۔
شبہ ملک سے خالی ہونا : جب ملک یا نکاح میں شبہ ہوجائے تو حد نہیں ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
……………(سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٢٤) شبہات کی بناء پر حدود ساقط کردو۔
مثلاً اگر کسی شخص نے بیٹے کی باندی سے وطی کرلی تو اس پر حد نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس کو یہ شبہ ہوا ہو کہ بیٹے کے مال کا میں مالک ہوں۔ امام ابن ماجہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! میرا مال بھی ہے اور اولاد بھی اور میرا باپ میرا مال ہڑپ کرنا چاہتا ہے آپ نے فرمایا :
………(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٩١) تو اور تیرا مال تیرے باپ کی ملکیت ہے۔
اسی طرح مکاتب کی باندی سے وطی کرنا بھی زنا نہیں ہے، کیونکہ مکاتب جب تک پوری رقم ادا نہ کرے مالک کا غلام ہے سو اس کی باندی بھی اس کی ملکیت ہے۔
شبہ نکاح سے خالی ہونا۔
یعنی عقد نکاح میں شبہ نہ ہو۔ مثلاً کسی شخص نے بغیر ولی یا بغیر گواہ کے نکاح کرکے وطی کرلی، یا نکاح متعہ کرکے وطی کرلی تو اس کا یہ فعل زنا نہیں ہے خواہ وہ اس نکاح کے عدم جواز کا اعتقاد رکھتا ہو کیونکہ اس نکاح کے جواز اور عدم جواز میں علماء کے اختلاف کی وجہ سے اس نکاح میں شبہ آگیا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے نسبی، رضاعی یا سسرالی کے رشتہ سے کسی محرم سے نکاح کرلیا یا دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرلیا یا کسی عورت سے اس کی عدت میں نکاح کرلیا اور اس عقد نکاح کی وجہ سے وطی کرلی تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس پر حد نہیں ہوگی خواہ اس کو نکاح کی حرمت کا علم ہو، کیونکہ اس وطی میں اس کو شبہ لاحق ہوگیا ہے۔ لہٰذا یہ وطی زنانہیں ہے البتہ اس پر تعزیز ہے۔
فقہاء مالکیہ، فقہاء شافعیہ، فقہاء حنبلیہ، امام ابو یوسف اور امام محمد نے یہ کہا ہے کہ جو وطی ابداً حرام ہو اس سے حد لازم آتی ہے اور یہ نکاح باطل ہے اور اس کے شبہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ البتہ جو وطی ابداً حرام نہ ہو جیسے بیوی کی بہن یا جس نکاح میں اختلاف ہو جیسے بغیر ولی یا بغیر گواہوں کے نکاح، اس وطی کی وجہ سے حد لازم نہیں آتی۔
امام ابو حنیفہ اور جمہور فقہاء کے درمیان منشاء اختلاف یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک قاعدہ یہ ہے کہ جب نکاح کا اہل شخص اس محل میں نکاح کرے جو مقاصد نکاح کے قابل ہو تو وہ نکاح وجوب حد سے مانع ہے، خواہ وہ نکاح حلال ہو یا حرام اور خواہ وہ تحریم متفق علیہ ہو یا مختلف فیہ اور خواہ اس کو حرمت کا علم ہو یا نہ ہو، جمہور فقہاء اور صاحبین کے نزدیک قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص اس عورت سے نکاح کرے جس سے نکاح کرنا ابداً حرام ہو یا اس کی تحریم پر اتفاق ہو تو اس نکاح سے وطی پر حد لازم آتی ہے اور اگر وہ نکاح ابداً حرام نہ ہو یا اس کی حرمت میں اختلاف ہو تو پھر اس نکاح سے وطی پر حدلازم نہیں آتی۔
(بدائع صنائع ج ٧ ص ٣٥، مغنی المحتاج ج ٤ ص ١٤٥، المہذب ج ٢ ص ٢٦٨، المیزان الکبری ج ٢ ص ١٥٧، حاشیۃ الدسوتی علی الشرح الکبیر ج ٣ ص ٢٥١، المغنی ج ٨ ص ١٧٤، رحمتہ الامۃ ج ٢ ص ١٣٦)

 
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 350670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.