سمندری پانی اور حکمت باری

حق تعالیٰ نے اپنے فضل اور حکمت بالغہ سے دنیا میں دو قسم کے پانی پیدا فرمائے ہیں، بحر محیط جو کہ زمین کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں، زمین جو کہ کرۂ ارض کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہے اور باقی تین حصہ پانی ہے بحرمحیط کا پانی بتقاضائے حکمت نہایت نمکین اور بدمزہ ہے زمین کے آباد حصہ پر بارش کے پانی کے چشمے، ندیاں، نہریں اور بڑے بڑے دریا ہیں یہ سب میٹھے خوشگوار اور خوش ذائقہ ہیں انسان کو اپنے پینے اور روزمرہ کے استعمال کے لئے شیریں پانی کی ضرورت ہے، جو حق تعالیٰ نے زمین کے آباد حصہ میں مختلف صورتوں میں مہیا فرمایا ہے، لیکن بحر محیط کا پانی اگر شیریں ہوتا تو پوری دنیا میں تعفن پیدا ہوجاتا اور تمام جاندار تعفن اور بدبو کی وجہ سے مر جاتے، اسلئے کہ میٹھے پانی کا خاصہ ہے کہ بہت جلد سڑ جاتا ہے خصوصاً سمندر کہ جس کی مخلوق خشکی کی مخلوق سے کہیں زیادہ ہیں جو سمندر ہی میں مرتے گلتے سڑتے ہیں اور تمام روئے زمین سے بہہ کر جانے والی گندگیاں سب سمندر میں جاکر مل جاتی ہیں اگر سمندر کا پانی میٹھا ہوتا تو دو چار روز ہی میں سڑ جاتا جس کی بدبو سے نہ صرف یہ کہ اہل زمین کو بدبو کی وجہ سے رہنا مشکل ہوجاتا بلکہ فضاء کی آلودگی کی وجہ سے کسی جاندار کا زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا، اس لئے حکمت خداوندی نے سمندری پانی کو اتنا نمکین اور کڑوا اور تیز بنا دیا کہ دنیا بھر کی گندگیاں اس میں جاکر بھسم ہوجاتی ہیں خود اس میں رہنے والی مخلوق جو اسی میں مرتی ہیں وہ بھی سڑنے نہیں پاتیں۔
فرمان باری تعالیٰ ہے کہ
وجعل بینھما برزخا وہ ایسی قدرت والا ہے جس نے دو دریاؤں کو (صورۃً) ملایا
جن میں ایک کا پانی نہایت شیریں تسکین بخش ہے اور دوسرے کا نمکین اور کڑوا، اختلاط صوری کے باوجود اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے ایک حجاب اور قوی مانع رکھ دیا ہے، ان دو دریاؤں سے وہ مواقع مراد ہیں جہاں شیریں ندیاں سمندر میں جاکر گرتی ہیں، باوجود یکہ دونوں کی اوپری سطح ایک معلوم ہوتی ہے لیکن قدرت الٰہیہ نے ان کے درمیان ایک ایسی حد فاصل رکھ دی ہے کہ متقی کی ایک جانب اگر پانی لیا جائے تو شیریں اور دوسری جانب جو کہ اول جانب سے بالکل قریب ہے پانی لیا جائے تو تلخ دنیا میں جہاں بھی شیریں پانی کی ندیاں سمندر میں گرتی ہیں اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ میلوں دور تک شیریں اور کھارا پانی دور تک الگ الگ چلتے ہیں ان ہی مقامات میں سے ایک مقام آرکان اور چاٹگام تک دریا کی شان یہ ہے کہ اس کی دو جانبیں بالکل الگ الگ نوعیت کے دو دریا نظر آتے ہیں، ایک کا پانی سفید ہے اور ایک کا سیاہ، سیاہ میں سمندر تلاطم اور تموج ہوتا ہے اور سفید بالکل ساکن رہتا ہے دونوں کے درمیان ایک دھاری سی برابر چلی گئی ہے جو دونوں کا ملتقی ہے
(از سید عمادالدین سمندری 449گ ب،فروری 2016)
 
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 323391 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.