لیاقت آباد کا فلای اوور

اس کے نیچےنصف درجن خاندانوں کی سکونت اور مختلف کاروبار ہوتے ہیں

پلوں کے نیچے سے پانی بہہ جانا توایک محاورہ ہے لیکن ، پل اور سڑکیں ٹریفک کی روانی میں اہم کردار اداکرتے ہیں جب کہ ان کے نیچے بھی زندگی کےمختلف کاروبارِہوتے ہیں۔ 2000ء میں شہری حکومتوں کے قیام کے بعد کراچی میں پل، فلائی اوورز اور انڈر پاسز کا جال بچھایا گیا۔ ان میں سےبعض فلائی اوورز کئی کلومیٹرطویل ہیں اور ان پر تعمیر کی گئی سڑکیںبل کھاتی ہوئی مختلف علاقوں کی جانب نکلتی ہیں۔ لیاقت آباد فلائی اوور کی تعمیر سے پہلے فیڈرل کپیٹل ایریا کے پاس ریلوے لائن پرچند فرلانگ طویل پل بنا ہوا تھا، جس پر سے گزر کر بسیں اور دیگر مسافر گاڑیاں نیوکراچی کی جانب جایا کرتی تھیں۔ لیاقت آبادکا شمارکراچی کی قدیم بستیوں میں ہوتا ہے، جس کی آبادی انتہائی گنجان اور اس کی مرکزی شاہ راہ شروع سے ہی مصروف رہی ہے۔ 1970ءمیں جب سہراب گوٹھ کے مقام پر حیدرآباد کی طرف جانے والی شاہ راہ سپر ہائی وے کا افتتاح ہوا اور اس پربالائی سندھ کی جانب جانے والی گاڑیاں چلنے لگیں تو لیاقت آبادکی سڑک پر بھی ٹریفک کا دباؤ بڑھ گیااور کراچی کی بندرگاہ اور صنعتی علاقوں سے مال بردار ٹرک، ڈمپر، ٹرالراور آئل ٹینکر سپر ہائی وے کے راستے پنجاب اوربالائی علاقوں کی طرف مال لے کر جانے لگے۔ کریم آباد پل پرٹریفک کا بہت زیادہ دباؤ بڑھ گیا، جس کے بعدلیاقت آباد فلائی اوور کا منصوبہ تشکیل دیا گیا، جس کی تعمیر 1990-2000 کے درمیان مکمل ہوئی ۔دو سے ڈھائی کلومیٹر طویل پل کا آغازلیاقت آباد سپر مارکیٹ کے بعد ہوتا ہے جب کہ شاہ راہ پاکستان پر آغا خان جماعت خانے پر اس کا اختتام ہوتا ہے۔ اس پر چوبیس گھنٹے ٹریفک رواں دواں رہتا ہے جب کہ پل کے ساتھ ال کرم اسکوائرتک حیدرآباد اور سندھ کے بالائی علاقوں کی طرف جانے والی بسوں، کوسٹر اورویگنوں کا ٹرمینس ہے۔
پلوں کے اوپر تو ٹریفک کی روانی رہتی ہے لیکن ان کے نیچے بھی گاڑیوں کا اژدہام رہتا ہے جو مختلف سمتوں میں جاتی ہیں۔ پلوں اور فلائی اوورز کے نیچے سڑک اور چوراہے کے بعد بھی کافی کشادہ جگہ باقی بچتی ہے، جہاں زندگی کے رنگ کسی اور ڈھنگ میں نظر آتے ہیں۔ اس کے نیچےپرانے ملبوسات، پھل اور نمکو کے ٹھیلے کھڑے رہتے ہیں جو اپنے کاروبارکا آغاز صبح دس بجے کے بعد کرتے ہیں، اس سے قبل یہاں پل کی منڈیروں پر مزدور اور گداگر سوتے نظر آتے ہیں۔ بعض لوگوں کے مطابق رات بارہ بجے کے بعد یہ پل مختلف النوع افراد سے آبادہوجاتاہے، جن میں منشیات فروش بھی شامل ہیں جو مکمل آزادی کے ساتھ اس کی فروخت کاکاروبار کرتے ہیں جب کہ ان کے خریدار بھی یہیں موجود ملیں گے جو نشہ آور اشیاء کے استعمال کے بعد نشے میں دھت لیٹے ہوتے ہیں۔دس نمبر کے چوراہے پر پل کے نیچے ایک وسیع و عریض رکشہ اور چنگ چی اسٹینڈ بنایا گیا ہے، جہاں سیکڑوں کی تعداد میں رکشے کھڑے رہتے ہیں۔ اس اسٹینڈ کا ٹھیکہ سٹی گورنمنٹ کی طرف سے خطیر رقم کے عوض ایک کاروباری شخص کو دیا گیا ہے۔ یہاں پر ٹھیکیدار کی طرف سے تین شفٹوں میں عملہ تعینات کیا گیا ہے۔اس احاطےکا استعمال چارجڈ پارکنگ کے طور پر بھی ہوتا ہے اور قرب وجوار کے دکاندار اور خریدار حضرات یہاں اپنی موٹرسائیکلیں بھی کھڑی کرتے ہیں۔ اس اسٹینڈ میں کوئی گیٹ نہیں لگایا گیا ہے جس کی وجہ سے ہیروینچی حضرات رکشوں کی آڑ میں بیٹھ کر نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں۔روشنی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے رات کی تاریکی میں یہاں مخرب الاخلاق اور گھناؤنے کاروبار بھی ہوتے ہیں ۔ یہ ایک مصروف شاہ راہ ہے جہاں رات بھر ٹریفک کی روانی رہتی ہے جب کہ اندرون ملک جانے والی بسوں کے اڈے کی وجہ سے اس چوراہے پر پولیس کی موبائلیں بھی گشت کرتی ہیں ، لیکن خرید و فروخت کے یہ کاروبار مکمل آزادی کے ساتھ جاری رہتے ہیں۔ ال کرم اسکوائر کی طرف جانے والی سڑک پر پل کے نیچے ایک وسیع احاطے کے اندر لیاقت آباد انڈر پاسز تعمیر کرنے والی کمپنی کادفتر بنا ہوا ہے جس کے ساتھ تقریباً چارواش رومز بنے ہوئے ہیں جورات کے اوقات میں بسوں، ویگنوں کے ڈرائیورز، کلینرزکے استعمال میں رہتے ہیں اور ان کی چابیاں رینٹ اے کار کے بکنگ کلرکس کے پاس ہوتی ہیں۔ ان واش رومز کے ساتھ مویشی بھی بندھے رہتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا احاطہ بنا ہوا ہے ، جو تقریباًً ایک فرلانگ کے رقبے میں سندھ گورنمنٹ اسپتال تک دراز ہے ۔ اس میں ایک وسیع و عریض پارکنگ لاٹ بنایا گیا ہے جس میں رینٹ اے کار کی بڑی بسیں، کاریں، ویگنیں اور کوسٹر کھڑی کی جاتی ہیں۔یہ جگہ بھی سٹی گورنمنٹ کے حکام کی منظوری سے الاٹ ہوئی ہے اور اس کا ٹھیکہ ایک سال کے لیے ایک پرائیوٹ ٹھیکیدار کو 17لاکھ روپے میں دیا گیا ہے۔ مذکورہ ٹھیکیدار نے اسے چھ حصوں میں تقسیم کرکے ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے ماہوار کرائےپر مختلف افراد کو دیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں دیگر لوگ بھی اپنی گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں جن سے دن بھر کے لیے پچاس روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ حیدرآباد اور اندرون سندھ جانے والی ایئر کنڈیشنڈ بسوں، ویگنوں اور کاروں کے ٹرمینس بھی دس نمبر کے چوک سے لے کر اپسرا اپارٹمنٹ تک واقع ہیں ۔ دن بھر ال کرم اسکوائر کی سڑک پران کا ہجوم رہتا ہے۔ رات میں جب یہ گاڑیاں حیدرآباد اور سندھ کے اندرونی علاقوں سے واپس آتی ہیں تو پل کے نیچے بنی ہوئی پارکنگ لاٹ میں کھڑی کی جاتی ہیں، ان کی پارکنگ فیس علیحدہ سے وصول کی جاتی ہے۔ پارکنگ میں دیگر سامان اور کاٹھ کباڑبھی پڑا رہتاہے جب کہ آخری حصے میں کچرا کنڈی بنی ہوئی ہے۔ اس ایریا میںقیدیوں کو لانے اور لے جانے والی ناکارہ وین بھی کھڑی ہے، جو اس پارکنگ ایریا کے ٹھیکیدار نے محکمہ پولیس سے نیلام میں خریدی تھی اور اب اس کا استعمال اسٹور کے طور پر ہوتاہے۔ پل کے نیچے چارپائیاں اور میز کرسیاں بھی بچھی ہوئی ہیں جنہیںرینٹ اے کار کے بکنگ کلرکس ، چوکیداراور کلینردفتری امور نمٹانے اور آرام کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں موجود پارکنگ کے عملے نے بتایا کہ پل کے نیچےپارکنگ لاٹ بنانے کے کی جگہ سٹی گورنمنٹ کی طرف سے ایک خطیر رقم کی وصولی کے بعد الاٹ کی گئی تھی، جس میں تمام بنیادی سہولتیں فراہم کی گئی تھیں جس میں روشنی کا انتظام بھی شامل تھا، اس کے لیے فلڈ لائٹس بھی لگائی گئی تھیں، جن کے لیے، کے۔ الیکٹرک میں خطیر رقم جمع کرائی گئی تھی، لیکن یہ روشنیاں کبھی بھی نہیں جل سکیں، ہم روشنی کے لیے اپنے طور سے انتظامات کرتے ہیں۔ یہاں گیٹ نہ ہونے کی وجہ سے کتے اور دیگر آوارہ جانور بھی گھس آتے ہیں جس کی وجہ سے عملے کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پارکنگ عملے کے ایک شخص نے بتایا کہ ہمیں سب سے زیادہ پریشانی سامنے مرکزی سڑک کے کونے پر گرین بیلٹ میں بنے ہوئے ائیرکنڈیشن گاڑیوں کے غیر قانونی ٹرمینس سے ہے۔ یہ ٹرمینس ناجائز طورپختہ شکل میں بنایا گیا ہے اور اس کی عمارت میں باقاعدہ ایئرکنڈیشن اور کمپیوٹر بھی نصب ہیں جب کہ اس میں برقی رو کی فراہمی بجلی کے تاروں پر کنڈے کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ جرائم پیشہ عناصر کی بھی آماج گاہ ہے، جن میں سے بیشتر کا تعلق قبائلی علاقہ جات سے ہے، جو ٹرانسپورٹ کی آڑ میں منشیات اور اسلحے کی تجارت بھی کرتے ہیں۔یہ افراد اکثر اوقات اس پارکنگ لاٹ میں بھی گھس آتے ہیں اور یہاں بیٹھ کر نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سڑک پر ہی شہدائے اردو کی یادگار کے ساتھ مسجد اور مدرسہ ہے جس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات بھی غیر محفوظ ہیں۔

پارکنگ ایریا سے جب باہر آتے ہیں توپل کے نیچے سے سندھ گورنمنٹ اسپتال اورالاعظم بس اسٹاپ کی طرف جانے کے لیے کوریڈور بنا ہوا ہے، جس کی منڈیر گداگر اور نشئی حضرات اونگھتےنظر آتے ہیں۔ اس سے آگے فلائی اوور کی دوسری شاخ ہے جو اپسرا اپارٹمنٹ سے اوپر کی جانب چڑھتی ہوئی کریم آباد پر ایک کالج کے سامنے اترتی ہے۔ اس کے بعد ریلوے لائن ہے۔ ریلوے لائن کے اطراف پل میں ایک وسیع و عریض خلاء ہےجس کے پشتوں کے اوپر تقریباً چھ خاندان رہائش پذیر ہیں جو بزرگ مرد، عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہیں۔۔ فلائی اوور کی چھت ان کا سائبان ہے جب کہ ذرا ہموار جگہ پر انہوں نے اپنی چارپائیاں اور بستربچھا رکھے ہیں جن کے ساتھ بڑی بڑی پوٹلیاں اور گٹھر رکھے ہیںجب کہ ایک پلنگ پر سلائی مشین بھی رکھی ہے۔ یہی سامان ان کا کل اثاثہ ہے۔ ان میں سے دو گھرانے یہاں تقریباً تیس سال سے آباد ہیں۔ ان کا رہن سہن انتہائی غیر انسانی ماحول پر مبنی ہے۔ حوائج ضرورت سے فراغت کے لیے انہوں نے کپڑے اور بانس کی مدد سے عام فہم زبان میں’’ واش رومز‘‘ بنائے ہوئے ہیں، جن سے بہنے والی غلاظت اور گندا پانی، پل کی منڈیر اور ریل کی پٹڑیوں کے اطراف جمع رہتا ہے۔اس کے سامنے فلیٹوں کا جنگل آباد ہے جس میں متوسط طبقے کے لوگ رہائش پذیر ہیںجو پل کے نیچے واقع اس گندی بستی کو ناپسند کرتے ہیں۔یہاں سے موٹر سائیکل، کاریں اور دیگر گاڑیاں بھی گزرتی ہیں جوپل کے نیچے سے نکل کر الاعظم اسکوائر کی طرف سے موسیٰ کالونی اور نارتھ ناظم آباد کی جانب جاتی ہیں۔ پل کے نیچے دنیاکے مختصر ترین گاؤںمیںرہائش پذیر ایک شخص نے بتایا کہ وہ یہاں اپنے اہل خانہ کے ساتھ تقریباً تیس سال سے رہ رہا ہے۔ اس کا تعلق سندھ کے بالائی علاقے سے ہے، لیکن وہاں پر روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے وہ کراچی آگیا ۔ یہاں آمد کے بعد کا دور اس کے لیے دشوار ترین تھا۔ وہ ایک فیکٹری میں سارا دن محنت مزدوری کرتا تھا جہاںاتنی اجرت ملتی تھی، کہ گھر والوں کو بھیجنے کے بعد بہ مشکل پیٹ بھرا جاسکتا تھا۔ایک کمرے کی رہائش کا کرایہ بھی اتنا زیادہ تھا کہ جس کی ادائیگی اس قلیل آمدنی میں ناممکن تھی، اس لیے رات گزارنے کے لیے کسی فٹ پاتھ، پارک یا مسجد کے صحن میں سو جاتا تھا۔ شہر کے حالات خراب ہونے کے بعد پارک اور مساجد میں شب بسری کرنا ممکن نہ رہا، فٹ پاتھ منشیات فروشی کے چلتے پھرتے اڈّوں کے علاوہ نشہ کرنے والوں کے ٹھکانے بن گئے تھے۔ پولیس جب ان کے خلاف کارروائی کرتی تو ان کے ساتھ ہم جیسے بے گناہ افراد بھی زد میں آجاتے۔ کافی پریشانیاںاٹھانے اور جمع پونجی سے محروم ہونے کے بعد گلوخلاصی ہوتی۔ جب اس ریلوے لائن پرسرکلر ٹرین چلا کرتی تھی تو ایک مرتبہ سفر کے دوران اس جگہ پر نظر پڑی جو کافی محفوظ نظر آئی۔ میں اپنا کام نمٹا کریہاں واپس آیا اور اپنی گدڑی ڈال کر یہاں پر ہی سو گیا۔ اس جگہ کسی کی مداخلت کا اندیشہ نہیں تھا۔ بعد میں، میں نے اپنے بیوی بچوں کو بھی یہاں بلا لیا جنہوں نے اسی منڈیر پر لکڑی کے چولہےبھی بنالیے۔ ریل کی پٹڑی کے ساتھ اگے ہوئے کیکر کی جھاڑیوں سےجلانےکے لیے لکڑی با افراط مل جاتی تھی۔ میری دیکھا دیکھی یہاں چند اورلوگ آباد ہوگئے۔ اب اس جگہ نصف درجن خاندان رہائش پذیر ہیں۔ یہاں نہ سوئی گیس کی ضرورت ہے، نہ بجلی کے بلب اور پنکھوں کی۔مٹی کے چراغ جلا کر روشنی کا بندوبست کرتے ہیں جب کہ پل کے نیچے ٹھنڈک رہلتی ہے اور قدرتی ہوا کی موجودگی میں ہمیں ہاتھ کے پنکھے تک کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مچھر اور مکھیاں البتہ بہت ہیں، جن سے بچاؤ کے لیے یہاں رہنے والے چادر وںسے منہ ڈھانپ کر سوتے ہیں۔ پہلے ہمارے اہل خانہ ریل کی پٹڑیوں کے ساتھ جھاڑیوں میں ہی اپنی ضرورتوں سے فارغ ہوتے تھے، لیکن یہاں بلڈنگوں میں رہنے والےلوگوں کے اعتراض کی وجہ سے ہم نے پل کے نیچے ہی واش روم بنالیے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے بڑامسئلہ پینے کے پانی کا ہے۔ ہمارے بچے بوتلوں میں آس پاس کے گھروں سے پانی بھر کر لاتے ہیں جو ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہاں ہم سب مل جل کر ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ سب ایک دوسرے کے دکھ،درد، غم خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ سامنے ہی سرکاری اسپتال ہے، کسی بیماری کی صورت میں اپنے مریض کو وہاں لے جاتے ہیں۔ ہمارے حلیے دیکھ کر اسپتال کا عملہ ناروا سلوک کرتا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں سے ہمیں علاج معالجے کی سہولت میسر آجاتی ہے۔

نصف درجن خاندانوں کےاس ’’اوپن ائیرگاؤں‘‘میںسلائی مشین اپنے سامنے رکھے ایک خاتون نظر آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں تقریباً دو سال سے رہ رہی ہیں۔ پہلے وہ اپنے خاوند کے ساتھ نواب شاہ کے ایک گاؤں میں رہتی تھیں اور ان کا ذریعہ معاش کھیتوں میں مزدوری کرکے روزی کمانا تھا۔دو سال قبل شوہرکو مہلک بیماری ہوگئی جس کا نواب شاہ شہر میں علاج کرایا گیا لیکن وہ صحت یاب نہ ہوسکا۔ذریعہ معاش ختم ہوگیا اور انہیںاپنا گھر اور تمام اسباب بیچ کر اس کے علاج کے لیے کراچی آنا پڑا۔ شوہر کا سول اسپتال میں علاج ہوتا رہا اور اس درمیان وہ اس کے ساتھ وارڈ میں ہی رہتی تھی۔ اسپتال سے جب اسے ڈس چارج کیا گیا تویہاں سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا پیش آیا۔ واپس نواب شاہ جانے کے لیے کرائے کے پیسے نہیں تھے جب کہ گاؤں میں بھی سر چھپانے کا ٹھکانہ باقی نہیں بچا تھا۔ کچھ روز فٹ پاتھ پر گزارے لیکن وہاںدیگر مسائل کے ساتھ، عزت بھی محفوظ نہیں تھی۔ میرے ایک رشتہ دار جو اس پل کے نیچے رہتے تھے ، وہ مل گئے اور ہمیں اپنے ساتھ یہاں لے آئے۔ اب ہم یہیں رہتے ہیں، صحت یابی کے بعدمیرے شوہر نے ایک شخص کی رہڑی پر کھڑے ہوکر فروٹ بیچنا شروع کیے، لیکن وہ دوبارہ بیمار ہوکر اب بستر پر ہی پڑا ہے۔ ایک خدا ترس آدمی نے مجھے یہ سلائی مشین پرانے سامان میں سے خرید کر دلوا دی تھی، اس سے میں پرانے چیتھڑوں سے رلیاں بناتی ہوں، جنہیں میراشوہرطبیعت ٹھیک ہونے پرفروخت کرکے کچھ پیسے لے آتا ہے جن سے ہماری گزر اوقات ہوتی ہے۔ یہاں منشیات کی فروخت اور استعمال کرنے والوں نے بھی ڈیرے ڈال لیے تھے، جن کی وجہ سے پولیس نے کئی مرتبہ چھاپے بھی مارے۔ ان کی وجہ سے ہمیں بھی پریشان کیاگیا، لیکن ہماری مفلوک الحالی دیکھ کر نیک دل افسر نے ہمیں یہاں رہنے کی اجازت دے دی۔اس جگہ ہم خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ہماری زندگی غیر انسانی ماحول میں سمجھی جاتی ہے، جہاں نہ بجلی ہے، نہ پانی اور گیس اور نہ ہی زندگی کی دیگر آسائشیں اور سہولتیں، لیکن ہم اس کے شروع سے ہی عادی ہیں۔رات کو گھپ اندھیرا ہوتا ہے جس میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا، ہر طرف خاموشی کا راج ہوتا ہے صرف کتوں کی آوازیں آتی ہیں۔ ابتدا میں تو ہمیں اس ماحول سے خوف محسوس ہوتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کے عادی ہوتے گئے۔دن میں ہمارے مرد ٹھیلے لگانے اورمزدوری کرنے چلے جاتے ہیں۔ بعض خواتین قریبی گھروں میں کام کرتی ہیں۔ میں نے گاؤں میں کھیتی باڑی کے علاوہ سلائی کڑھائی کا کام بھی سیکھاتھاجو کراچی میں فائدہ مند ثابت ہوا۔ میں قریبی گھروں سے سلائی کے کپڑے لے آتی ہوں یا رنگ برنگے کپڑوں سے سندھی ثقافت کی پہچان روایتی رلیاں بناتی ہوں، جن کی فروخت سے اتنی آمدنی ہوجاتی ہے کہ سادگی کے ساتھ گزر بسر کے علاوہ اپنے شوہر کا علاج بھی کراسکوں۔شام کو یہاں مرد اور خواتین کی چوپال جمتی ہے، جس کا سلسلہ رات گیارہ بجے تک جاری رہتا ہے، جس کے بعد بلاخوف و خطر سو جاتے ہیں۔ صبح سو کر اٹھنے کے بعد مٹی کے چولہوں پر کھانا پکایا جاتا ہے، جسے سب گھر والے چارپائیوں پر بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ یہاں ہمیں گاؤں کی زندگی کا لطف آتا ہے جو ہم دو سال قبل چھوڑ کر آچکے ہیں۔ ڈیڑھ درجن نفوس کے اس چھوٹے سے گاؤں میں ہم امداد باہمی اور پیار محبت کے اصولوں کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ایک دوسرے کے دکھ درد، غم و خوشی میں شریک رہتے ہیں۔ گھپ اندھیرے میں نہ تو ہمیں چوری چکاری اور لٹنے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکت کا خدشہ۔ لٹنے کے لیے ہمارے پاس کچھ ہے نہیں اور اس کھلے علاقے میں موت کا ہمیں خوف نہیں ہے۔ باقی دیگر خاندانوں کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں تھی، جب کہ یہاں قریب میں فلیٹوں میں رہنے والے بعض افراد کا کہنا ہے ان میں سے بیشتر لوگ منشیات کی فروخت کا کاروبار کرتے ہیں اور یہاں رات کی تاریکی میں موٹر سائیکل اور کاروں پر لوگ منشیات خریدنے آتے ہیں۔

ریلوےکے مخدوش ٹریک کے بعد کریم آباد سے فلائی اوورکی سڑکیں نشیب کی طرف اترنا شروع ہوتی ہیں۔ یہاں بھی حسین آباد سے نارتھ ناظم آباد، گلبرگ اور سہراب گوٹھ کی جانب جانے ولی ٹریفک کو پل کے نیچے سے گزرنا پڑتا ہے، لیکن یہاں بھی بائیں ہاتھ پرپھل فروش، پرانے کپڑے کے تاجر اپنے ٹھیلے لیے کھڑے ہیں۔ رکشوں کا ایک غیرقانونی اسٹینڈ بازار فیصل کے سامنے سڑک پربھی بنا ہوا ہے جہاں کئی درجن رکشے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کی وجہ سے گاڑیوں کا پل کے نیچے سےگزرنا مشکل ہوجاتا ہے، دوسری جانب ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں اکثر حادثات کا بھی خطرہ رہتا ہے، حالاں کہ اسی پل کے نیچے عزیز آباد ٹریفک سیکشن کی چوکی بنی ہے، جس کے اہل کار چوکی کے ساتھ ہی چالان بک ہاتھ میں تھامے گاڑیوں کو روکتے نظر آتے ہیں، لیکن کریم آباد چوک پر بے لگام موٹر سائیکل اور کار سواروںکی طرف سے وہ چشم پوشی برتتے ہیں۔ چوکی کے ساتھ ہی کسی ہنگامی صورت حال میں پولیس کی مدد طلب کرنے کے لیے مکان نما عمارت میں 15کی چوکی بنی ہوئی ہے، لیکن ٹریفک پولیس کے عملے کے مطابق اس کی تعمیر کے بعد سے اس میں کوئی اہل کارنظر نہیں آیا۔ یہ ہے لیاقت ّباد فلائی اوور کے نیچے رواں دواں زندگی۔
RAFI ABBASI
About the Author: RAFI ABBASI Read More Articles by RAFI ABBASI: 211 Articles with 194616 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.