پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز
شریف کا100 ارب روپے کے زرعی پیکج کا اعلان وزیر اعظم پاکستان، میاں محمد
نواز شریف کے پیکج کا تسلسل ہے گزشتہ سال وفاقی حکومت نے بھی 200 ارب روپے
کے پیکج کا اعلان کیا اور عدالت کے فیصلہ کے بعد اس پر عمل درآمد جاری ہے۔
دونوں پیکج زراعت کی ترقی کے لیے اہم ہیں ۔ اگر عمل درآمدمیں ”شفافیت“ کا
خیال رکھا گیا تو اس کے اثرات صوبے کی ہی نہیں پاکستان کی زراعت پر مثبت
اثرات مرتب ہونگے۔موصولہ اطلاعات کے مطابق اس پیکج کا دورانیہ دو سال مقرر
ہے اور اس کی نگرانی براہ راست وہ خود کریں گے۔اگر ان دونوں پیکج پر غور
کریں تو یہ بات یہShort Term(قلیل مدت ) اور محدود سبجیکٹ کے پروگرام ہیں ۔یہ
پیکج زراعت اور اس سے جڑے ہوئے کسان کے لیے ایسے ثابت ہوگا کہ جیسے شدید
”بیمار شخص“ کے لیے فوری دستیاب طبی امداد‘جس سے مریض کی حالت سنبھل جاتی
ہے مکمل بحال نہیں ہوتی اس کے لیے باقاعدہ علاج کی ضرورت ہوتی ۔ Short Term
پیکج کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ Long Term (طویل مدتی)پروگرام وہ بھی
باقاعدہ پالیسی کے تحت دیئے جائیں ۔تبھی ہماری زراعت ترقی کرسکے گی۔کمزور
زراعت کے ساتھ’مضبوط توانا پاکستان “ایک خواب ہی بن کر رہ جائے گااصولی طور
پر ہمیں یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کی معیشت میں زراعت کا مقام
نہایت ہی اہم ہے۔ ملکی برآمدات میں زراعت سے تیار اشیاءکا حصہ زیادہ ہے آج
کے صنعتی دور میں بھی ایک بہت بڑی آبادی زراعت پیشہ ہے۔ اس لیے یہ سچ ہے کہ
زراعت کو ملکی معشیت میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔اگر اس کو ریڑھ کی ہڈی کہا
جائے تو بہتر ہوگا ۔یہ ایک اہم بات اور حقیقت ہے کہ ملک کی ترقی کے لئے
زراعت کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اس بات کی مندرجہ ذیل حقائق سے تصدیق کی جا
سکتی ہے کہ زرعی صنعت پاکستان کی زیادہ تر عوام کو روزگار فراہم کرتی ہے۔60
فیصد آبادی براہ راست طور پر زراعت سے جڑی ہوئی ہے۔ متعدد صنعتوں میں
استعمال ہونے والاخام مال ہماری زراعت سے جاتا ہے پاکستان کی غذائی ضرورت ”
زرعی اجناس“ تقریبا سو فیصد ملکی زراعت سے ہی پوری کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ
شوگر، ٹیکسٹائل کی صنعت مکمل طورمقامی زراعت پر ہی انحصار کرتی ہے۔ پاکستان
کی کل برآمدات میں زرعی اشیاءکاحصہ 30 فیصد ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی
کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوںمیں خاص اہمیت رکھتی ہے اور
ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے باوجود ملکی
زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔ ہمارے مقابلے میں دنیا کے دیگر
ملک زیادہ پیداوار دے رہے ہیں۔ اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا
جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے پھنسے
جارہے ہیں، کھاد نہ صرف مہنگی ہو رہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہو
جاتی ہے، دیگر زرعی لوازمات حالیہ دنوں میںمہنگی ہوگئی ہیں ۔ فصل کی کاشت
کے دنوں میں کیمیائی کھادیں ہر علاقے میں مختلف نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔
کھاد ڈیلر فی بوری منافع زیادہ کماتے ہیں جبکہ اس دوران ملاوٹ مافیا بھی
متحرک ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے فصلوں سے معیاری پیداوار حاصل نہیں ہوتی ہے
اور زمین کی زرخیزی بھی شدید متاثر ہوتی ہے، اس کے علاوہ زہریلی زرعی
ادویات کے نرخوں میں بھی بے تحاشا اضافہ کسانوں کی قوت خرید سے باہرہوتا
جارہا ہے۔ نا مناسب کھادوں، زہریلی زرعی ادویات کا استعمال ہونے کی وجہ سے
فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہونے لگی ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق کسانوں کا،
کاشتکاری کو خیربادکرتے ہوئے زرعی زمینیں فروخت کرکے شہروں میں منتقل ہو نے
کارحجان بڑھ رہا ہے ،اس کو اگر نہ روکا گیا تو ملکی زرعی صورتحال مزید خراب
اور ٹھپ ہو جا ئے گی۔ ہمارے کاشتکار اور کسانوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ
ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی حاصل نہیں ہے۔ انھیں جراثیم کش ادویات
کے استعمال، معیاری بیجوں کے انتخاب اورمصنوعی کھاد کے مناسب استعمال کے
بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی فی ایکڑ پیداوار
ملک کی ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ وہ کاشتکاری کے ابھی بھی ان روایتی
طریقوں پر یقین رکھتے ہیں جو انھوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھے ہیں ۔ زراعت کے
شعبے سے وابستہ آبادی کا 50فیصد بے زمین ہاریوں پر مشتمل ہے جن کا ہر سطح
پر استحصال ہورہا ہے اور یہ غربت سے بری طرح متاثر ہیں۔
زراعت کوترقی دیئے بغیر اور اس ملک کے کسان کی حالت زار میں بہتری لائے
بغیر ہم خود کو زراعت میں خود کفیل نہیں بنا سکتے ہیں۔ دنیا کے اکثر ترقی
یافتہ ممالک نے سب سے پہلے زرعی نظام میں اصلاحات اور کسان دوست پالیسیوں
کو لاگو کرکے ہی زراعت میں خود کفالت حاصل کی ہے، کیونکہ زراعت کے بغیر نہ
تو صنعت کا پہیہ چل سکتا ہے اور نہ مقررہ شرح نمو اور ترقی و خوشحالی کے
پیرا میٹرز پر عملدر آمد کو یقینی بنا یا جاسکتا ہے۔زراعت کے مسائل کے
اسباب کے بعد ان کے پائیدار حل کے لیے حکومتی سطح پر چند ضروری اقدامات کا
کیا جانا لازمی ہوچکا ہے ۔زرعی شعبہ کے لئے فنڈز میں اضافہ کیا جائے اور
خصوصی مراعات کا اعلان اور سبسڈی دی جائے۔کسانوں کو پانی کی فراہمی کو بہتر
بنایا جائے اور آبپاشی کے متبادل ذرائع تلاش کئے جائیں۔زرعت کے جدید طریقوں
سے استفادہ کیا جائے۔حکومت کسانوں سے مشاورت کے بعد ،ہر فصل کے پیداواری
اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمتوں کا تعین کرے۔ملک میں زرعی اصلاحات کے
زمرے میں سب سے پہلے” لینڈ ریفارم “ لائی جائیںبے زمین کسانوں میں زمینیں
تقسیم کی جائیں اوریہ تقسیم منصفانہ بنیادوں پر اور طے شدہ معیار کے مطابق
شفاف انداز میں ہو۔ڈیموں کی تعمیر کےءمنصبوں میں تیزی لائی جائے بلا
تاخیرکالا باغ دیم کا م،منصوبہ شروع کیا جائے زراعت کی ترقی کے لئے
انفراسٹرکچر پر توجہ دینی چاہئے۔کسانوں کو بلا سود قرضے فراہم کئے جائیں
اور چھوٹے کاشتکاروں کو مالی اامداد دی جائے زرعی آلات پر ٹیکس ختم کیا
جائے۔غیر معیاری بیجوں اور زرعی ادویات کی سپلائی کو کنٹرول کیا جائے۔اگر
ایسا ہوجائے تو پاکستان میں زراعت کے شعبہ کی ترقی یقینی ہے۔ |